مشکل وقت کے دوست چین کے وزیر خارجہ کا بر وقت مشورہ
شیئر کریں
چین کے وزیر خارجہ چن گانگ نے گزشتہ روز پاکستان کو چین کی جانب سے غیر مشروط حمایت کا یقین دلاتے ہوئے پاکستان حکام کو تلقین کہ پاکستان میں سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے، سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر سیاسی استحکام لائیں تاکہ پاکستان معاشی اور داخلی سطح پر ہمارے ساتھ آگے بڑھ سکے ہر معاملے پر آپ کی مدد کرتے رہیں گے،عالمی اقتصادی دباؤ کم کرنے کیلئے اسلام آباد کی مدد کریں گے، پاکستان کی ترقی عوام کی خوشحالی میں ہے۔
چین پاکستان کا آزمودہ دوست ہے اس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور نصف صدی سے زیادہ عرصے کی مضبوط دوستی کے باوجود کبھی پاکستان کے اندرونی معاملات میں کوئی دخل نہیں دیا ہے، 1971 میں جب ملک دولخت ہونے کے دوراہے پر تھا،چین کے وزیراعظم نے پاکستان کی حکومت کو معاملہ بات چیت اور افہام وتفہیم کے ساتھ حل کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن اس وقت کی فوجی حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی تھی اور چین جیسے دوست کی بات نہ مان کر نصف ملک گنوایا دیا تھا،اب ایک دفعہ پھر چین کے وزیرخارجہ نے سیاسی اتفاق رائے کیلئے افہام وتفہیم پر زور دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس صائب مشورے پر غور کرے گی؟ چین کے وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستانی حکام اور سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر معاملات طے کرنے اور ملک میں سیاسی استحکام لانے کی تلقین سے ظاہرہوتاہے کہ ملکی صورتحال اب اس قدرگمبھیر ہوچکی ہے کہ پاکستان کے مخلص دوستوں کو بھی اس پر تشویش لاحق ہونا شروع ہوگئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ سیاسی کشمکش ختم ہو۔ یہ بات شک و شبہ سے بالا ہے کہ وطن عزیز اس وقت انتہائی خراب صورتحال سے دوچار ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی کھیل جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے اور سب ایک دوسرے کا سر قلم کرنے کے در پے ہیں۔ ملک میں کہنے کو تو جمہوری نظام رائج ہے اور عدالتیں بھی اپنا کام کررہی ہیں لیکن عملاً جمہوریت کو کھڈے لائن لگا دیاگیاہے اور حکومت اور اپوزیشن دونوں نے جمہوریت کے من پسند معنی نکالنے کی کوشش کررہے ہیں،حکومت یہ ثابت کرنے کی تگ ودو کررہی ہے کہ ملک میں جمہوریت کی شکل میں باقاعدہ ایک نظام مروج ہے لیکن درحقیقت صورت حال یہ ہے کہ ہر چندکہیں کہ ہے لیکن نہیں ہے وہ جمہوریت میں انتقالِ اقتدار کا طریقہ کار انتخابات کی صورت میں وضع کیا گیا ہے۔ لیکن حکومت وقت انتخابات کے نام سے ہی خوف کھا رہی ہے اور من مانے طریقے سے اقتدار پر قابض رہنے کیلئے کوشاں ہے جبکہ اپوزیشن یعنی عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف حکومت کو اس کی من مانی سے روکنے اور جلد از جلد عام انتخابات کرانے پر مجبور کرنے کیلئے ہر حربہ آزمانے کی کوشش کررہی ہے۔موجودہ گمبھیر صورتحال میں ملک میں ایک دفعہ 2 پارٹیوں کا نظام سامنے آگیا ہے جس میں ایک پارٹی پی ٹی آئی ہے اور دوسری 13 پارٹیوں کی اتحادی پی ڈی ایم۔ پی ڈیم ایم یعنی ملک کی 13 جماعتوں کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر انتخابات کرادئے گئے تو نہ صرف اقتدار ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا بلکہ ان کیلئے اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا،انتخابات سے ان کے گریز کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سپریم کورٹ کے احکامات ہیں،ان احکامات پر عملدرآمد سے بچنے کیلئے مختلف درخواستیں دائر کرانے کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو متنازع بناکر پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان اختلافات کی دیوار کھڑی کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں،جس کے بعد اب مسئلہ یہ پیدا ہوگیاہے کہ پارلیمان اور عدلیہ کے تصادم کی موجودہ صورت حال سے کس طرح نپٹا جائے؟آئین موجود ہے،عدالتیں موجود ہیں،ادارے موجود ہیں جن سے کسی کو کسی وقت اختلاف بھی ہو سکتا ہے تاہم اس وقت حقیقت یہ ہے کہ نئے انتخابات وقت اور آئین کا تقاضا ہیں جن سے مفر ممکن نہیں۔اس صورت حال میں چین کے وزیر خارجہ کی جانب سے سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنے کا مشورہ بلاشبہ ایک صائب مشورہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی اس سے قبل حکومت اورحزب اختلاف یعنی عمران خان کو یہی مشورہ دے چکے ہیں،چین کے وزیر خارجہ کی جانب سے آنے والے اس مشورے سے ظاہر ہوتاہے کہ اب پانی سر سے گزرنے والا ہے اس لئے اب اداروں سے محاذ جنگ کھولنے کی بجائے سیاستدانوں کو ازخود کوئی نہ کوئی حل نکالنا پڑے گا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام فریق ایک دوسرے کو ”کچا چبا جانے“ جیسے رویے پر قابو پاتے ہوئے برداشت پیدا کرنے کو کوشش کریں۔ مدمقابل کو میدان میں اتار کر ہی مقابلہ ممکن ہے۔دوسرا مسئلہ احتساب کا ہے۔ ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے کا نہ کوئی فائدہ ماضی میں ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔ سب لیڈر ایک دوسرے کو معاف کر دیں اور احتساب کا کام عوام اور اللہ کے سپرد کردیں اس وقت صرف ملک کی فکر کرنے کی کوشش کریں۔ جس ملک میں غریب آٹے کی بوری کیلئے جان دے دے اور اشرافیہ کیلئے 50 کروڑ تک کی کرپشن کرپشن ہی نہ ہو اور اگر اس سے زیادہ بھی ہو تو بھی فکر کی کوئی بات نہیں خیر سے پلی بارگین کی سہولت موجود ہے۔ وہاں احتساب کی بات کرنا یوں بھی فضول معلوم ہے،ملک کو درپیش اس گمبھیر صورتحال میں آج پاکستانی عوام یہ نہیں سوچتے کہ پچھلے 75 سال میں کیا ہوا؟ وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ آگے کیا ہوگا؟ اب ہر ایک کو مستقبل کی فکر ہے کیونکہ مٹھی بھر اشرافیہ کے علاوہ ہر ایک کو اپنا وجود قائم رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ عزت نفس تو بچی نہیں وجود ہی بچا لیں۔ اس کیلئے تمام سیاستدانوں کو، تمام اداروں کو واپس زیرو پوائنٹ پر آنا ہوگا۔ ماضی کی تلخیاں بھلا کر آخرکار مذاکرات کی میز پر ہی مسائل کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔ ملک اس وقت نہ تو سخت عدالتی فیصلوں کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ کسی لانگ مارچ کا۔ اس وقت بنیادی تنازعہ انتخابات ہیں۔ ایک پارٹی فوری الیکشن چاہتی ہے جبکہ دوسری اسسے فرار کے راستے تلاش کرنے میں لگی ہوئی،انتخابات سے فرار کے راستے تلاش کرنے والے رہنماؤں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ انتخابات چند مہینے یا چند سال تک ملتوی کرسکتے ہیں لیکن جلد یابدیر انھیں انتخاب کرانا ہی پڑیں گے اس لئے بہتر یہی ہے کہ وہ یہ کڑوا گھونٹ پینے پر آمادہ ہوجائیں۔ ہر جنگ میں سیز فائر کا امکان ہوتا ہے۔ اگر موجودہ سیاسی جنگ میں سیزفائر ہو جائے سب زیرو پوائنٹ پر واپس آجائیں اور الیکشن کی تاریخ باہمی مشورے سے طے کرلیں تو آگے بڑھنے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ عدالت بھی سیاسی تصفیے پر مہر تصدیق ثبت کر سکتی ہے۔ یوں دونوں سیاسی گروپ بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک و قوم کو انتشار اور موجودہ ہیجانی کیفیت سے باہر نکالاجاسکتا ہے۔