مصالحتی کوششیں اور امکانات
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمہوریت کا اولیں اصول اصل طاقت عوام ہیں اور یہ طاقت بذریعہ انتخاب حکمرانوں کو منتقل ہوتی ہے۔ طاقت منتقل کرتے وقت عوام کے ذہنوں میں یہ سوچ ہوتی ہے کہ جنھیں وہ اپنے ووٹوں سے منتخب کررہے ہیں وہ اپنی صلاحیتوں اور درد مندی کی بناپر سب سے بہت بہترین ہیں اور عوامی مسائل حل کرنے کے لیے بہترین صلاحیتوں کو بروئے کارلائیں گے مگرپاکستان میں باربار انتخابی تجربات کے باوجود صرف عوامی مسائل جوں کے توں نہیں بلکہ اُن میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔ موجودہ عوامی نمائندے تو عام آدمی کے مسائل حل کرنے سے نہ صرف اجتناب کرنے بلکہ عوام کے پاس جانے سے بھی گھبرانے لگے ہیں اور عوام کی طرف سے ملنے والی طاقت کوصرف ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ اِس وقت ملک میں لڑائی اور کھینچاتانی اِس بات پر ہورہی ہے کہ طاقتور کون ہے اور کون تاک تاک کر دائو لگانے میں مہارت رکھتا ہے؟یہ مناسب طرزِ عمل نہیں کیونکہ اِس طرح عام آدمی کے مسائل سے چشم پوشی ہورہی ہے یہ نہیں کہ عوامی نمائندے عام آدمی کے مسائل سے لاعلم ہیں ۔ ایسی کوئی بات نہیں انھیں بخوبی معلوم ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری نے غریب طبقے کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ اِس کے باجود اُنھیں صرف اپنے حریف سیاستدان کو دھول چٹانے سے دلچسپی ہے۔ یہ خود غرضی اور سفاکی ملکی معیشت تباہ کرچکی، اب عوام سے جینے کا حق سلب کرنے کے قریب ہے لیکن جنھیں رہنما کہلوانے اور زندہ باد کے نعرے سننا مرغوب ہے وہ اپنے رویے پر نظرثانی کرنے پرآمادہ نہیں یہ طرزِ عمل مسائل کے حل میں نہ صرف رکاوٹ ہے بلکہ مسائل بڑھانے کی اہم وجہ ہے اب تو ملک کو درپیش معاشی مسائل لاحل ہونے کی انتہا تک جاپہنچے ہیں کاش رہنما مفاد پرستی چھوڑ کر اپنے اصل فرض ملکی اور عوامی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دیں۔
جمہوریت انتخابی عمل کے بغیر نامکمل ہے مگر ہمارے حکمران انتخاب سے فرار کی سازشوں میں مصروف ہیں اُن کی ہر ممکن کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ عرصہ اقتدار میں رہنے کا کوئی طریقہ دستیاب ہو تاکہ انتخابی عمل میں جائے بغیر ہی اپنے اقتدار کو طول دے سکیں یہ جمہوریت نہیں مفاد پرستی ہے۔ اگردنیا کے دیگر جمہوری ملکوں پر نگاہ ڈالیں توایسی نظیرکہیں نہیں ملتی بلکہ جمہوری ملکوں میںجب مسائل بڑھ جاتے ہیں اور حکمران اکثریت نہ ہونے کی بناپرمسائل حل کرنے یا قانون سازی میں دقت محسوس کرنے لگیں تو ازسر نو عوامی تائید حاصل کرنے کے لیے قبل از وقت انتخاب کے عمل کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ دوبارہ عوامی تائید سے پہلے کی بہ نسبت زیادہ اکثریت لے کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور پھر اہم فیصلوں سے ملک و ملت کو عوامی گرداب سے نکالنے میں کامیاب بھی ، لیکن ہمارے حکمران بظاہر تو جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئے ہیں لیکن اُنھیں انتخاب میں جانے سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ چڑہے۔ اگر کہیں سے ایسی تجاویز آئیں تو اتنی بے زاری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ تجاویز دینے والے بھی ششدر رہ جاتے ہیں یہ جمہوری رویہ یا سوچ نہیں ۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت نے دوصوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کا ٹائم فریم دیا مگرہمارے حکمران عدالتی حکم نامے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں نہ صرف حکم نامہ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں بلکہ عدالتی طریقہ کارمیں مداخلت کے ذریعے بدلنے کی کوشش میں ہیں جس سے سپریم کورٹ اور حکومت مدمقابل آنے کاتاثربن رہاہے ۔ بات اتنی سی ہے کہ اگرحکمران آئین کی پاسداری کا عہد کر لیں تو اِداروں کے ٹکرائو کے امکانات ختم ہو سکتے ہیں ۔ یہ جو پارلیمنٹ کے قانون ساز اور سپریم ہونے کا راگ سنایا جارہا ہے اِس سے کسی کو انکار نہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جس سے آزاد عدلیہ حکومتی ہدایات کی تابع و فرمان بن کررہ جائیںپھربھی کوشش ہے کہ عدلیہ آزاداور غیر جانبدارانہ انصاف کی بجائے حکومتی ہدایات کے مطابق چلے جو کسی صورت ممکن نہیں حکومتی اتحادنے اول تو الیکشن کمیشن کے ذریعے انتخابی شیڈول میں رخنہ ڈالا اور تبدیل کرادیا جب عدالت نے دوبارہ سماعت میں انتخابی اخراجات کی فراہمی کا حکم دیا تو اب اسٹیٹ بینک کو بھی ایسا کرنے سے روک رہی ہے جس سے ہر مکتبہ فکر میں یہ تاثر گہرا ہورہا ہے کہ حکمران اتنے غیر مقبول ہو چکے کہ اب وہ جلدکسی انتخابی عمل میں شریک ہی نہیں ہونا چاہتے بلکہ اِس حوالے سے کسی سے بات چیت کرنے کو بھی تیار نہیں ایسا طویل عرصہ ہو ممکن نہیں کہ دوصوبوں میں روزمرہ کے حکومتی امورغیر منتخب ایسے افراد کے سپرد رہیں جنھیں عوام نے ووٹوں کے ذریعے طاقت نہیں دی۔ لامحالہ آج نہیں تو کل انتخابی میدان لگنا ہے اورپھر عوام کواپنے پسندیدہ رہنمادوبارہ منتخب کر نے کا موقع ملے گا۔ لہٰذا جتنی تاخیر کی جائے گی اِس سے عوام میں محبت نہیں نفرت ہی پیداہو سکتی ہے۔
جماعتِ اسلامی نے حکمران اتحاد اور تحریکِ انصاف کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں شروع کررکھی ہیں۔ اِس حوالے سے سراج الحق کی قیادت میں وفد نے وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد عمران خان سے بھی تبادلہ خیال کرلیا ہے۔ اب سراج الحق نے عید کے فوری بعدآل پارٹیز کانفرنس بلانے کاعندیہ دیا ہے جس میں شریک جماعتوں کے رہنما یک نکاتی ایجنڈے ملک میں ایک ہی روز عام انتخابات کے انعقاد پر تبادلہ خیال کریں گے۔ اِس حوالے سے تحریکِ انصاف کا ردِ عمل تو پھر بھی قدرے حوصلہ افزا ہے کیونکہ عمران خان نے پرویز خٹک،اعجاز چوہدری اور محمود الرشید پر مشتمل ایک بااختیار مذاکراتی کمیٹی بنا دی ہے لیکن حکمران اتحاد معاملات کو طول دینے کی کوشش میں ہے کیونکہ اے پی سی کے لیے سعد رفیق اور ایاز صادق کے نام سامنے آئے ہیں جن کابظاہر کام یہی ہوگا کہ حکومتی موقف بیان کر آئیں، ایسے انداز بے زاری ظاہر کرتے ہیں ۔اب اگر جماعت اسلامی حکومت سے آٹھ اکتوبر سے پہلے جبکہ تحریکِ انصاف کو مئی 2023کے بعد الیکشن کرانے کی درخواست کرتی ہے تو بظاہر کامیابی کے امکانات زیادہ روشن نہیں کیونکہ حکومت کے پاس موقف میں لچک پیداکرنے کا جواز کم ہے وجہ وہ اکیلی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں بلکہ درجن سے زائد جماعتوں کو ساتھ لیکر چلناہے وہ مشاورت کے لیے وقت لیکر فیصلے میں تاخیر کا باعث بن سکتی ہے۔ مزیدیہ کہ دو وجوہات اور ہیں اول تو یہ کہ حکومت چاہے گی کہ کسی طرح عام انتخابات کو اُس وقت تک معرض التوا میں ڈالا جائے جب تک صدر عارف علوی اور چیف جسٹس عمرعطابندیال ریٹائرڈ نہیں ہوجاتے تاکہ بعد میں خواجہ ریاض جیسے اپوزیشن لیڈر سے مل کر انتخابی نتائج کو حق میں ہموار کرنے کا پکابندوبست کرلیں دوم یہ کہ تحریکِ انصاف اگر مئی کے بعد انتخابی عمل پر رضامندہو بھی جاتی ہے تو یہ سپریم کورٹ کے حکم نامے سے فرار ہوگا جس سے اُس کا آئینی پاسدار ہونے کا بیانیہ متاثر ہو سکتاہے کیونکہ چوودہ مئی کو الیکشن کرانے کا حکم عدالت نے اُسی کی عرضی پر دیاہے۔ اسی لیے کہہ سکتے ہیں کہ فریقین کے لیے موقف میں لچک کے امکانات کم ہیں تیسری ایک اور وجہ بھی کسی حدتک اہم ہے کہ جماعتِ اسلامی کی پارلیمان میں اتنی حیثیت اور سکت نہیں کہ ملک کی دوبڑی جماعتوں سے اپنا موقف منوانے کی پوزیشن پاسکے اسی لیے جماعتِ اسلامی کی متوقع اے پی سی کی کامیابی کے ویسے توبظاہر امکانات معدوم ہیں۔ البتہ حکومت اِس طرح مزیدوقت لینے میں کامیاب ہو سکتی ہے دوصوبوں کی حکومتوں سے محروم ہونے اوراب آزاد کشمیر حکومت بھی کھونے کے بعد تحریکِ انصاف سے یہ ایک ایسا نیا ہاتھ ہو گا جس سے سنبھلنے کے لیے اُسے کافی وقت درکارہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔