پاک افغان تعلقات میں بہتری کی جانب پیش رفت
شیئر کریں
افغانستان میںپناہ گزین دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان میں حملوں اور افغانستان میں موجود بھارت اور بعض دیگر ممالک کی جانب سے ان دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کے مسئلے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان پیداہونے والی کشیدگی دور کرنے کے لیے برطانیہ کی کوششیں رنگ لاتی نظر آرہی ہیں ،اگرچہ دونوں ہی ممالک نے برطانیہ کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات کے بارے میں سرکاری طورپر کچھ نہیں بتایا ہے لیکن ان مذاکرات کے اختتام پر سامنے آنے والی خبروں سے افغانستان میں دہشت گردوںپناہ گاہوں کی موجودگی کے معاملے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری ڈیڈلاک کے بعدلندن میں ہونے والی اس بات چیت میں پیش رفت کااظہار ہوتاہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ مزید آگے بڑھ سکتا ہے۔تاہم دونوں ملکوں کے درمیان لندن میں ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی بندش کے معاملے پر کسی پیش رفت کاکوئی عندیہ نہیں ملتا۔ دہشت گرد حملوں کے سلسلے میں اچانک تیزی اور دہشت گردوں کے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوکر کارروائی کرنے کے ثبوت ملنے کے بعد پاکستان نے پاک-افغان سرحد پر قائم طورخم گیٹ کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا تھا۔تاہم دونوں ممالک نے لندن میں ہونے والی بات چیت میں ایک دوسرے کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے ٹھوس اعتماد پیدا کرنے کے اقدامات کی یقین دہانی کرائی۔
خبروں کے مطابق برطانیہ کی میزبانی میں لندن میں ہونے والی بات چیت کے دوران پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں ملوث افغانستان میں قیام پذیر دہشت گرد گروہوں کا معاملہ بھی اٹھایا گیا جو حالیہ دنوں میں سیہون اور لاہور میں ہونے والے حملوں میں ملوث تھے۔وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز اور افغان قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) حنیف اتمار کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات دونوں ممالک میں جاری کشیدگی کے بعد پہلی باقاعدہ اعلیٰ سطح کی ملاقات تھی جس میں برطانوی قومی سلامتی کے مشیر مارک لیال گرانٹ نے اہم کردار ادا کیا۔اس سے قبل سرتاج عزیز اور حنیف اتمار کشیدگی میں کمی اور مختلف تحفظات پر بات چیت کے لیے بذریعہ ٹیلی فون بات کرچکے تھے تاہم یہ بات چیت دونوں ممالک کے درمیان ڈیڈ لاک کے خاتمے کے لیے بے سود رہی تھی۔ملاقات کے بعد اپنے فیس بک پیغام میں اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر زخیلوال کا کہنا تھا کہ لندن میں ہونے والی ملاقات ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوطرفہ تعاون میں بہتری کے نظام کے تعین اور اتفاق رائے جبکہ مشترکہ اعتماد اور موجودہ کشیدہ تعلقات میں بہتری کے لیے ضروری اقدامات پر منظوری کے لیے کی گئی تھی’۔اپنے پیغام میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہم پرامید ہیں کہ جس نظام پر دونوں ممالک متفق ہوئے ہیں اس سے تعاون اور دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے درکار اعتماد میں اضافہ ہوسکے گا’۔ملاقات میں شامل ایک سینئر پاکستانی سفارت کار نے بھی بات چیت کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ‘مذاکرات سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی جانب کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور اس سلسلے کو جاری رہنا چاہیئے’۔
لندن میں پاک افغان رہنماﺅں کی ملاقات اور اس ملاقات کے حوالے سے افغان سفیر ڈاکٹر عمر زخیلوال کی جانب سے ظاہرکیے گئے خیالات سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں خوشگوار امید پیدا ہوچلی ہے اس لیے یہ خیال کرنا غلط نہیں ہوگا کہ سرحد کی بندش کا معاملہ بھی جلد حل ہوجائے گا ،تاہم اس کاانحصار اس بات پر ہوگا کہ کابل مذاکرات میں طے پانے والے امور اور متفقہ معاملات پر کس قدر عملدرآمد کرتا ہے۔
مبصرین بھی یہ کہتے آ رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کو تناو¿ میں کمی کے لیے مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اعتماد کو فروغ دینے کے اقدام کرنے چاہئیں۔پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ اور تجزیہ کار ڈاکٹر اعجاز خٹک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں گزشتہ روز کہا تھاکہ پاکستان کو اب افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔جبکہ وزیر اعظم کے امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے یہ بات واضح کردی تھی کہ دونوں ملک دہشت گردی کو مشترکہ دشمن سمجھتے ہیں اور اس بارے میں ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے پر بھی مشاورت ہوئی ہے۔پاک افغان تعلقات میں کشیدگی پر برطانیہ کی جانب سے مداخلت اور دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کی کوششوں سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ موجودہ صورت حال نہ صرف یہ کہ ان دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ اس خطے کے امن اور بحیثیت مجموعی پوری دنیا کے لیے باعث تشویش ہے۔ اس لیے یہ معاملہ افہام و تفہیم کے ذریعہ ہی حل کیا جانا چاہیے۔” بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار اے زیڈ ہلالی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے باہمی معاملات بات چیت سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔اب جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی کے لیے پہلے قدم کے طورپر دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطے کاآغاز ہوگیا ہے ” دونوں ملکوں کے عسکری اور سیاسی اداروں کو چاہیے کہ وہ باہمی مفاہمت کے لیے ایک طریقہ¿ کار وضع کریں اور دونوں حکومتیں خوشگوار باہمی تعلقات کے لیے لائحہ عمل تیار کریںاور مختلف سطح پر باہمی معاملات کو حل کرنے کے لیے رابطہ کریں۔ اس حوالے سے افغان حکومت پر زیادہ بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے افغان حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف تخریبی اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دیں بلکہ اپنے ان دوست نما دشمنوں کو بھی افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرانے کی سازشوں سے باز رہنے پر مجبور کریںاو ر بھارت سمیت کسی بھی دوسرے ملک کو افغانستان میں بیٹھ کرپاکستان کے خلاف گھناﺅنا کھیل کھیلنے کی اجازت نہ دیں۔