میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سپریم کورٹ: 90 روز میں الیکشن کا حکم، وفاقی حکومت کی ٹال مٹول کی حکمت عملی

سپریم کورٹ: 90 روز میں الیکشن کا حکم، وفاقی حکومت کی ٹال مٹول کی حکمت عملی

جرات ڈیسک
جمعرات, ۲ مارچ ۲۰۲۳

شیئر کریں

نجم انوار

…………

٭ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی ہے، گورنر کے پی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا

٭الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے، الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں

٭ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی ہر طرح سے معاونت کریں، وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے

٭عدالت عظمیٰ نے طے کردیا کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں صدر مملکت، گورنر، الیکشن کمیشن میں سے کون سا آئینی ادارہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے

٭ وفاقی وزیرقا نون نے سپریم کورٹ کے تین دو کے فیصلے کو چار تین کا فیصلہ قرار دیتے ہوئے اکثریتی رائے پٹیشنز کے خلاف قرار دیتے ہوئے ایک نئی بحث چھیڑ دی

………………………….

                                                             چار ججز کی معذرت کے بعد نو رکنی بینچ پانچ رکنی بینچ سے بدل گیا


سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس کا محفوظ فیصلہ سنادیا جس میں دونوں صوبوں میں 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔مگر دوسری طرف وفاقی حکومت نے ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی فیصلے کی تشریح اپنی مرضی سے ذرائع ابلاغ پر شروع کردی ہے۔ وفاقی وزیرقا نون نے سپریم کورٹ کے تین دو کے فیصلے کو چار تین کا فیصلہ قرار دیتے ہوئے اکثریتی رائے پٹیشنز کے خلاف قرار دیتے ہوئے ایک نئی بحث چھیڑ دی۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا از خود نوٹس سے متعلق سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے اگلے چند منٹوں بعد ہی اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ: بطور وکیل کہہ رہا ہوں کہ یہ پٹیشن چار، تین کے تناسب سے خارج ہو گئی ہے، ازخود نوٹس پر فیصلے میں دو جج صاحبان نے مزید کہہ دیا ہے کہ یہ قابل سماعت نہیں۔ وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس سے قبل جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی ازخود نوٹس پر اختلاف کیا تھا، فیصلے میں دو جج صاحبان نے مزید کہہ دیا ہے کہ یہ قابل سماعت نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں وزیر کی حیثیت سے نہیں بطور وکیل کہہ رہا ہوں کہ یہ پٹیشن چار، تین کے تناسب سے خارج ہو گئی ہے اور اس پر فیصلہ لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں ہونا چاہیے جہاں اس حوالے سے درخواستیں دائر ہیں“۔وفاقی وزیر قانون نے اس موقف کو ابتدا میں اپنا سرکاری موقف کہنے سے گریز کیا۔ مگر کچھ دیر بعد ہی وہ اٹارنی جنرل کو لے کر ذرائع ابلاغ کے سامنے طلوع ہوئے اور اُن سے فیصلے کا ایک فٹ نوٹ (حاشیہ) پڑھوایا۔ جس میں عدالتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے دو ججز کی جانب سے ا بتدا میں قائم نورکنی بینچ سے الگ ہونے والے دوججز کی رائے سے اتفاق کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ نوٹس جلدبازی میں لیا۔ گویا حاشیے کی ایک”رائے“ کو فیصلے اور فیصلے کے قابل عمل حصے کے اعلان پر ترجیح دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون نے واضح کردیا کہ فیصلہ تین دو سے نہیں بلکہ چار تین سے ”ہمارے حق میں آگیا“۔ دنیا کی پوری تاریخ میں کسی عدالتی فیصلے کی اس طرح کسی وزیر قانون نے تشریح نہ کی ہوگی، جو پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت می شامل غالب جماعت نون لیگ کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے فرمائی ہے۔

اعظم نذیر تارڑ سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح میں دور کی کوڑی لے آئے

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے دنیا کے سب سے انوکھے قانونی فہم کے بالکل برخلاف سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے آغاز میں ہی اِسے پانچ رکنی بینچ کے دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت کا فیصلہ قرار دیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ جو ان چار ججوں میں شامل تھے جنہوں نے 23 فروری کے حکم میں اضافی نوٹ تحریر کیے تھے، انہوں نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور از خود نوٹس کو مسترد کر دیا۔سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے مختصر فیصلے میں دونوں صوبوں میں انتخابات 90 دنوں میں کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کا وقت دیا گیا ہے، اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات ہونا لازم ہیں، پنجاب اسمبلی گورنر کے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی، کے پی اسمبلی گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی، الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے جبکہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے دیا، بینچ کی اکثریت نے درخواست گزاروں کو ریلیف دیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ جنرل انتخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ گورنر کو آئین کے تحت تین صورتوں میں اختیارات دیے گئے، گورنر آرٹیکل 112 کے تحت، دوسرا وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرتے ہیں، آئین کا آرٹیکل 222 کہتا ہے کہ انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے، الیکشن ایکٹ گورنر اور صدر کو انتخابات کی تاریخ کی اعلان کا اختیار دیتا ہے، اگر اسمبلی گورنر نے تحلیل کی تو تاریخ کا اعلان بھی گورنرکرے گا، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہیں کرتا تو صدر مملکت سیکشن 57 کے تحت اسمبلی تحلیل کریں گے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار حاصل ہے، انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی ہے، گورنر کے پی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا، الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے، الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، گورنر کے پی صوبائی اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، ہر صوبے میں انتخابات آئینی مدت کے اندر ہونے چاہئیں۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن صدر اورگورنر سے مشاورت کا پابند ہے، 9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں، وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کیلئے تمام سہولیات فراہم کرے، عدالت انتخابات سے متعلق یہ درخواستیں قابل سماعت قرار دے کر نمٹاتی ہے۔ چیف جسٹس نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ بھی پڑھ کر سنائے۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگر کیس میں 16 فروری کو ازخودنوٹس کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ حکمران اتحاد نے 9 رکنی لارجر بینچ میں شامل 2 ججز پر اعتراض اٹھایا جس کے بعد جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے خودکو بینچ سے الگ کرلیا اور جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ بھی 9 رکنی بینچ سے علیحدہ ہو گئے۔ چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے 2 سماعتیں کیں۔ گزشتہ روز 7 گھنٹے کی طویل سماعت میں فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہوئے، اسپیکرز کے وکیل علی ظفر اور سپریم کورٹ بار کے وکیل عابد زبیری نے دلائل دیے، عوامی مسلم لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل دیے، اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی اور الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہر یار نے بھی دلائل دیے۔ گورنر کے پی کے وکیل خالد اسحاق، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصوراعوان، جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجہ، گورنر پنجاب کے وکیل مصطفی رمدے اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے بھی دلائل دیے۔ بینچ میں شامل سپریم کورٹ کے تمام ججز نے گزشتہ روز ریمارکس میں کہا کہ آئینی طورپرانتخابات 90 دن میں ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا، انتخابات بروقت نہیں ہوئے تو ملک میں استحکام نہیں آئے گا، عدالت کے سوا کسی آئینی ادارے کو انتخابات کی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں، عدلیہ کو بھی مدت بڑھانے کی ٹھوس وجوہات دینا ہوں گی۔چیف جسٹس نے سیاسی جماعتوں کو آپس میں مشورہ کرنے کی ہدایت دی، جس کے بعد پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ان کے پارٹی لیڈرز کہتے ہیں کہ انتخابات کی تاریخ دینا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں، ن لیگ کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ دو صوبوں میں ابھی انتخابات سے جنرل الیکشن متاثر ہوگا۔
جسٹس منصورعلی شاہ اورجسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ منظور الہٰی اور بے نظیر کیس کے مطابق ازخود نوٹس لینا نہیں بنتا، ہائی کورٹس میں اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے، 90 روزمیں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ازخودنوٹس لینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، ازخودنوٹس جلد بازی میں لیا گیا، ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کو استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا، معاملہ ہائی کورٹس میں تھا تو سپریم کورٹ نوٹس نہیں لے سکتی تھی، لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی مقدمے کا فیصلہ کرچکی ہے، انتخابات پر لاہور ہائی کورٹ فیصلہ دے چکی، آرٹیکل 184/3 کے تحت یہ کیس قابل سماعت نہیں، ہائی کورٹ میں معاملہ ازخود نوٹس کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا، ہائی کورٹس زیرالتوا مقدمات کا جلد فیصلہ کریں۔از خود نوٹس کیس کا فیصلہ سنائے جانے سے قبل کمرہ عدالت میں وکلا اور سیاسی رہنما موجود تھے، اس موقع پر میڈیا نمائندگان کی بڑی تعداد فیصلہ سننے کے لیے کورٹ میں موجود تھی جب کہ اس دوران بیرسٹر علی ظفر، فیصل چودھری، شعیب شاہین، سابق وفاقی وزراء شیریں مزاری،شیخ رشید، فواد چودھری سمیت کئی سیاسی رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ازخود نوٹس میں فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔از خود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیرتارڑ نے اپنی رائے کے لیے جس صورتِ حال کو چنا وہ دراصل یہ تھی کہ ابتدائی طور پر 22 فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دیا تھا تاہم 24 فروری کو 9 رکنی لارجربینچ سے 4 اراکین کے خود الگ ہونے کے بعد 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت مکمل کی تھی۔جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے سماعت سے معذرت کرلی گئی تھی۔اس طرح عملاً ابتدامیں یہ نو رکنی بینچ تھا۔ مگر وفاقی وزیر قانون نے چار تین کے فیصلے کی من مانی تشریح کرتے ہوئے باقی الگ ہونے والے دو ججز کو اس میں شمار نہیں کیا۔ درحقیقت یہ دو الگ ہونے والے ججز وہ تھے، جن کے کہنے پر چیف جسٹس نے یہ نوٹس لیا تھا، اورباقی دو الگ ہونے والے ججزوہ تھے، جو ان دو ججز کے کہنے پر لیے جانے والے از خود نوٹس کو جلد بازی قرار دے رہے تھے، اور اسے نوٹس لینے کے طریقہ کار کے مطابق نہیں سمجھ رہے تھے۔ جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی پر مسلم لیگ نون کی حکومت کو پہلے سے تحفظات بھی تھے۔ اس کے برعکس جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے مذکورہ اعتراض پر نون لیگ اور پی ڈی ایم کی حکومت نے سارے موقف کی عمارت کھڑی کی تھی اور اس پر بغلیں بجائی تھیں۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے اب طے کردیا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کی صورت میں صدر مملکت، گورنر، یا الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سے کس آئینی ادارے کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا چاہیے۔ اس کے باوجود وفاقی وزیر قانون نے اس فیصلے کے فعال اور قابل عمل حصے کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے چائے کی پیالی میں نیا طوفان اُٹھانے کی کوشش کی ہے۔

از خود نوٹس کیس کی گزشتہ سماعتوں کا مختصر احوال، کب کیا ہوا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

24 فروری: سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ میں تقسیم اس وقت دیکھی گئی جب جسٹس جمال خان مندوخیل جو موجودہ بنچ کا بھی حصہ ہیں، انہوں نے ازخود نوٹس پر اعتراض کیا اور اسے غیر منصفانہ قرار دیا۔
24 فروری: جسٹس مندوخیل نے مبینہ طور پر ساتھی جج کی لیک آڈیو ریکارڈنگ کا بھی ذکر کیا۔
27 فروری: جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس مظاہر اکبر نقوی، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بینچ سے خود کو الگ کرلیا جس کے بعد سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے سماعت مکمل کی۔
27 فروری: پانچ رکنی بینچ نے انتخابات کی تاریخ کے اعلان میں گورنر اور صدر مملکت کے کردار پر بحث کی۔
28 فروری: سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی اور حکمران اتحادی جماعتوں سے کہا کہ وہ مشاورت کے بعد انتخابات کی تاریخ طے کریں لیکن پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ مشاورت کے لیے مزید وقت درکار ہیں۔

چیف جسٹس کا از خود نوٹس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

22 فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دے دیا تھا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی درخواست پر لیے گئے از خود نوٹس میں کہا کہ ’عدالت کے دو رکنی بینچ کی جانب سے 16 فروری 2023 کو ایک کیس میں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی‘۔نوٹس میں کہا گیا کہ انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے سپریم کورٹ میں مزید درخواستیں بھی دائر کردی گئی ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجز بینچ تشکیل دیا ہے، جس میں سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود شامل نہیں ہیں۔

بینچ کے سامنے جائزے کے لیے سوالات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے سماعت کے دوران میں جو سوالات موجود تھے، وہ کچھ اس طرح تھے:۔
1۔ صوبائی اسمبلی کی مختلف حالات میں تحلیل کے بعد عام انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا آئینی اختیار کس کے پاس ہے؟
2۔تحلیل اسمبلی کے بعد عام انتخابات کے اعلان کی آئینی ذمہ داری کب اور کیسے ادا ہو گی؟
3۔ وفاق اور صوبوں کی عام انتخابات منعقد کرنے کے لیے آئینی ذمہ داریاں اور فرائض کیا ہیں؟
4۔ چیف جسٹس کے مطابق ازخود نوٹس معاملے کا خاص تناظر یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 جنوری اور 18 جنوری کو تحلیل کی گئیں۔
5۔چیف جسٹس کی طرف سے ازخود نوٹس میں لارجر بینچ کے لیے تین سوالات بھی رکھے جن پر غور کیا جائے گا۔
6۔چیف جسٹس نے واضح کیا کہ انتخابات منعقد کرنے کے اہم آئینی معاملے پر وضاحت نہیں، اس لیے اس کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔
7۔ الیکشن کمیشن سے منسوب بیانات سے ظاہر ہے کہ ان کو درکار تعاون خاص طور پر ضروری فنڈ، عملہ اور سیکیورٹی فراہم نہیں کی جا رہی اور اسی لیے آئین کے مطابق الیکشن کمیشن عام انتخابات کے انعقاد سے معذور ہے۔
8۔چیف جسٹس کے مطابق میری نظر میں یہ مسائل عدالت کی جانب سے فوری توجہ اور حل کی ضرورت ہے، آئین کی کئی شقوں اور الیکشن ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔

صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل
………………….
یاد رہے کہ 12 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہٰی نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے سمری پر دستخط کر دیے تھے۔گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ کی جانب سے ارسال کی گئی سمری پر دستخط نہیں کیے تھے، جس کے بعد صوبائی اسمبلی 48 گھنٹوں میں از خود تحلیل ہوگئی تھی۔بعدازاں 18 جنوری کو گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے وزیر اعلیٰ محمود خان کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق ارسال کی گئی سمری پر دستخط کیے تھے۔دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے نئے انتخابات کے لیے تاریخ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
پی ٹی آئی نے 27 جنوری کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا حکم دیا تھا۔بعد ازاں الیکشن کمیشن نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سے صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کے لیے مشاورت کی تھی تاہم اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا تھا، گورنر پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپیل دائر کی تھی اور اس کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی انٹراکورٹ اپیل دائر کر دی تھی۔دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور گورنر خیبر پختونخوا کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا حکم دینے سے متعلق درخواستوں پر ای سی پی سے الیکشن شیڈول طلب کرلیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں