سمجھوتہ ایکسپریس کے مجرم رہا، بھارت ذمہ داری پورے کرنے میں ناکام
شیئر کریں
مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنیوالی دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوری ریاست ہندوستان نے سولہ برس قبل 18 فروری کو سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں میں ملوث بھارتی شدت پسندوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے جب کہ دہشت گرد حملے کا نشانہ بننے والے متاثرین تاحال انصاف کی فراہمی کے منتظر ہیں۔
18 فروری 2007 کو دہلی سے لاہور آتی سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکوں کے نتیجے میں 40 سے زیادہ پاکستانی جاں بحق ہوئے تھے۔ ان دھماکوں میں بھارتی شدت پسندوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہونے کے باوجود اس ظالمانہ واقعہ میں ملوث مجرموں کو سزا نہیں دی گئی اور قانون کے کٹہرے میں لانے میں کوتاہی برتی گئی۔ اپنے جرم کا اعتراف کرنے والے سوامی آسیمانند اور دیگر مجرموں کی بریت اس بات کی گواہی ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کی قیادت میں ہندوتوا سوچ پر کاربند حکومت میں مجرموں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ دھماکے کرنے والے مجرموں کو پکڑنے کے لئے بھارت اپنی قانونی ذمہ داری پوری کرنے سے پہلو تہی کر رہا ہے۔
بھارتی عدالت نے سمجھوتہ ایکسپریس کیس کے چاروں ملزمان کو بری کر دیا تھا۔عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے پاکستانی خاتون راحیلہ وکیل کی گواہی کی درخواست بھی رد کر دی۔ عدالت کی جانب سے سوامی آسیم آنند عرف نبا کمار سرکار کیس کا مرکزی ملزم، کمال چوہان راجندر چوہدری اور لوکیش شرما کو بھی رہا کردیا گیا۔سمجھوتہ ایکسپریس کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کا متنازع فیصلہ کے حوالے سے سمجھوتہ ایکسپریس میں ہلاک ہونے والوں کے پاکستانی لواحقین نے احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے انصاف کے حصول کی درخواست کی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ اس سانحے میں بیالیس سے زیادہ پاکستانی شہید ہوئے تھے ان کو کیا جواب دیا جائے۔ چاروں مجرموں کی رہائی کے فیصلے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ پاکستان بھارتی عدالتوں میں ملزموں کو بچانے کی کوششوں کی طرف بار بار توجہ دلاتا رہا۔ پاکستان نے ہارٹ آف ایشیا میٹنگ میں بھی سمجھوتہ ایکسپریس کا معاملہ اٹھایا تھا۔ا س کے علاوہ پاکستان نے متعدد مواقع پرملزموں کی دیگر کیسز میں رہائی پرتنبیہ جاری کی تھی۔
سانحے کے گیارہ سال بعد دہشت گردوں کی رہائی نے بھارتی عدالتوں کی ساکھ کو بے نقاب کر دیا ۔اس طویل مقدمہ میں تقریباً 300 گواہ تھے جبکہ سماعت کے دوران گزشتہ تین برس میں درجنوں سرکاری گواہ منحرف ہوئے۔سوامی اسیم آنند سمجھوتہ ایکسپریس کے علاوہ مکہ مسجد اور اجمیر درگاہ سمیت بعض دیگر دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی ملزم رہا لیکن وہ ان میں سے بھی کئی واقعات میں بری ہوچکا ہے۔بھارت نے اس دھماکے کی ذمہ داری پاکستانی تنظیموں پر ڈالی تھی تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ حملہ آور بھارتی تھے اور ان کو بھارتی فوج کے حاضر سروس کرنل پرساد نے اسلحہ فراہم کیا تھا۔اب تک تو بھارتی حکام ان سانحات کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالتے چلے آرہے تھے مگر اب معلوم ہو چکا ہے کہ ان میں ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس ملوث ہے۔
نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی نے نہایت ڈھٹائی سے کہا ہے کہ لیفٹیننٹ کرنل پروہت کا سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گرد حملے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ ایک اور عجیب منطق یہ پیش کی گئی ہے کہ بھارتی ادارے لیفٹیننٹ کرنل پروہت کے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میں کردار کی ابھی تحقیقات کر رہے ہیں۔سمجھوتہ ایکسپریس شہدا ء کے لواحقین کو ان کا حق دلانے کی خاطر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دھماکہ کر کے معصوم پاکستانیوں کو زندہ جلانے کے جرم کا اعتراف کرنے والوں کو بری کرنے کی بنیاد پر عالمی عدالت انصاف میں بھارت کے خلاف رجوع کیا جائے۔پاکستان کی طرف سے قانونی فورم استعمال کرنے سے پہلے سفارتی محاذ پر سمجھوتہ ایکسپریس میں ملوث انتہا پسند ہندوئوں کے کردار کو زیادہ اجاگر کرنے سے داد رسی کا زیادہ امکان ہے۔پاکستانیوں کے لواحقین کو بھارتی عدالت نے اپنا قانونی موقف بھی پیش کرنے کی اجازت نہیں دی اور ملزمان کو رہا کر دیا۔ بین الاقومی قانون اور تمام خود مختار ریاستوں کے دستور کسی بھی معصوم انسانی زندگی کے تحفظ کو بنیادی حق تسلیم کر تے ہیں۔بھارت نے تو جنیوا کنونشن کو بنیاد بنا کر اپنی نیوی کے حاضر سروس افسر جاسوس کلبھوشن یادیوکے ایشو کو عالمی عدالت انصاف میں اٹھایاجس کی جنیوا کنونشن سمیت کوئی بھی بین الاقومی قانون اجازت نہیں دیتا۔پاکستان اقوام متحدہ کا رکن ہونے کی بنیاد پر بھی اس ایشو کو عالمی عدالت انصاف میں لے کر جا سکتا ہے۔ریاست پاکستان ٹھوس بنیاد ہونے پر بیان الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کا حق رکھتی ہے۔
سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس بارے بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ بھارت کے دوغلے پن اور منافقانہ رویہ کی بھی نشاندہی کرتا ہے جس کے تحت ایک طرف وہ پاکستان پر جھوٹے الزامات عائد کرتا اور دوسری جانب ان دہشت گردوں کو بری کیا جاتا ہے جنہوں نے سمجھوتہ ایکسپریس میں دہشت گردی کا کھلے عام اقرار کیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف ہرذی شعور شخص نے احتجاج کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیرکے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ بھارت میں ہرشخص کو سمجھوتہ ایکسپریس کے ملزمان کی رہائی کی مذمت کرنا چاہیے۔ ملزمان کی رہائی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا تعلق مودی سرکار سے ہے، اس لیے رہا کیا گیا۔ کانگریس کے سینئر رہنما کپل سبل نے کہا کہ 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس میں جو 68 افراد جاں بحق ہوئے۔ سب کو معلوم ہے انہیں کس نے مارا۔