میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عبدالغفور زیدی

عبدالغفور زیدی

ویب ڈیسک
اتوار, ۳۱ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

عماد بزدار
۔۔۔۔۔۔

احمد بشیر کے خطوط پڑھ رہا تھا جس میں انہوں نے ایک خط اپنے بیٹے کے نام لکھا۔ اس میں وہ اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے لکھتے ہیں
کہ
”حکیم کو اپنی حکمت پر ناز ہوتا ہے ، پہلوان کو اپنی پہلوانی پر،ادیب کو اپنی ادبی تخلیق پر، مولوی کو اپنی دینداری پر، سیاستدان کو اپنی
بصیرت پر، حکمران کو اپنی حکومت پر۔۔۔۔مگر یہ کیا ستم ہے کہ تم کاروبار میں کامیاب ہوئے تو حکیم بھی ہوگئے ،پہلوان بھی ہوگئے ،سیانے بھی ہوگئے اور لگے ہر ایک پر تنقید کرنے ، ہر ایک کو بے دین سمجھنے ،ہر ایک کی توہین کرنے اور ہر بات میں بڑا اور برگزیدہ بننے ”۔
یہ معاملہ صرف احمد بشیر کے بیٹے تک موقوف نہیں ہمارے ہاں اکثریت کا یہی معاملہ ہے اگر کوئی بھی شخص کسی بھی شعبے میں جب نام پیدا کرتا ہے تو وہ معیشت ، معاشرت، صحت، تعلیم تاریخ ، مذہب سمیت ہر شعبے میں فتح کاعلم بلند کرتے ہوئے داخل ہوتا ہے اور اپنی ماہرانہ رائے دیتا ہے نہ صرف ماہرانہ دیتا ہے بلکہ اصرار کرتا ہے کہ اس معاملے میں بھی ” مستند ہے میر کا فرمایا ہو”
شبر زیدی اکاؤنٹینسی کے فیلڈ کا اچھا نام ہیں بعد میں وہ چیئرمین ایف بی آر بھی بنے ۔ ان کی گفتگو سن رہا تھا جس میں وہ تاریخ پاکستان پر اپنی ماہرانہ رائے دے رہے تھے ۔ ان سے سوال ہوا کہ یہ ملک جب بنا تو اس کا کوئی معاشی پلان تھا اس کا جواب دیتے ہوئے شبر صاحب
کی گفتگو کا جو حاصل ہے وہ یہ کہ پلان تو بعد کی بات ہے اس حوالے سے کوئی ڈسکشن مجھے دکھایا جائے تو میں اپنا نام عبد الغفور رکھ دونگا۔
چونکہ حقائق شبر صاحب کے دعوے کو سپورٹ نہیں کرتے اس لئے میں چاہونگا وہ حقائق آپ کے سامنے رکھوں جس سے آپ اندازہ لگا
سکیں کہ شبر صاحب کا یہ دعویٰ کسی قدر حقیقت پر مبنی ہے یا نہیںہے
25 دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویںاجلاس کے موقع پر ظہیر الحسن لاری نے ایک قرارداد پیش کی۔ جس میں لیگ کے صدر کو ایک کمیٹی بنانے کا اختیار دیا گیا جو دیگر امور کے علاوہ پاکستان کے خطوں کیلئے سماجی ، اقتصادی نشوونما اور صنعت کاری کے لئے ایک پانچ سالہ منصوبہ وضع کرے جس میں جاگیرداری نظام ختم کرنے اور کسانوں کے حقوق پر زور ہو۔ جس کی جناح صاحب نے تعریف کی اور لیگی ماہرین کو کہا کہ اس معاملے میں آگے آئیں۔ یہ قرارداد منظور ہوگئی۔
اگست 1944 میں جناح صاحب نے ایک 23 رکنی پلاننگ کمیٹی بنائی جس کے صدر علی نواز جنگ اور سیکریٹری اے بی حلیم مقرر کیے۔ اس کمیٹی نے اپنی پہلی میٹنگ میں پندرہ ذیلی کمیٹیاں قائم کیں ۔05نومبر 1944 ء کو کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے جناح صاحب نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ نہ صرف پاکستا نی علاقوں بلکہ ان ہندوستانی علاقوں کی بھی مخفی صلاحیتوں کی نشاندہی کی جائے ،جہاں تین کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کمیٹی کا یہ ہدف نہیں ہونا چاہئے کہ امیر کو امیر تر کیا جائے اور مٹھی بھر افراد کے ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کو تیز تر کر دیا جائے ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا نصب العین سرمایہ داری نہیں بلکہ اسلامی فلاح ہونا چاہئے اور عوام کے مفادات اور ان کی فلاح ہمیشہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہئے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کی پلاننگ کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے 5 نومبر1944 ء میں جناح نے کہا”سیاست کے میدان میں مسلم لیگ اپنے پاؤںپر کھڑی ہوئی ہے اور اپنا کام چلانے کی اہل ہے ۔ تاہم، معاشی زندگی میں ہم صفر ہیں”۔
اپنی اسی تقریر میں وہ مسلم چیمبر آف کامرس اور ان کے یکجا ہونے کی بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں”آپ حضرات دیکھیں کہ ہم نے کس طرح مسلم تاجروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا ہے جہاں وہ مل جل کر اس بارے میں تبادلہ خیال کرسکتے ہیں کہ اس وقت کیا ہورہا
ہے اور انہیں کیا کرنا چاہئے ”۔
پلاننگ کمیٹی پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ” میں یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ جو کمیٹی قائم کی گئی ہے وہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جو کسی قوم اور دنیا کے کسی ملک کے لئے بھی باعث فخر ہوسکتے ہیں ۔ آپ میں سے ہر ایک فرد اپنے شعبہ زندگی میں ممتاز مقام رکھتا ہے اور مجھے انتہائی خوشی ہے کہ میں اس طرح ایک کمیٹی وضع کرنے میں کامیاب ہوا ہوں۔ آپ لوگوں کی تلاش میں مجھے کئی مہینے لگے تھے ۔ اپنی تقریر کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ پاکستان کے علاقے معدنی وسائل سے محروم ہیں اور یہ کہ ہم معاشی اعتبارسے زندہ نہیں رہ سکتے ۔ اس طرح ہندو پریس بھی ہم سے ہر وقت یہی کہتا آرہا ہے کہ پاکستان کے قیام سے سب سے زیادہ نقصان مسلمان ہی اٹھائیں گے ۔ وہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ہمیں اس بات پر قائل کرنا چاہتے ہیں کہ ریاست پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا۔ یہ سچ نہیں ہے ۔دوسری جانب ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ سب بکواس ہے اور یہ کہ پاکستان کے علاقوں میں پٹرولیم، کوئلہ، خام لوہے اوردوسری معدنیات کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں ۔ میں دونوں میں سے کسی نظریئے کو جو مبالغہ آرائی پر مبنی ہو قبول نہیں کرسکتا۔ایک عام آدمی کی طرح میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری رائے میں پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا۔ اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد آپ جس نتیجے پر پہنچیں گے وہی مستند ہوگا”۔
1945 کے وسط سے آئندہ برسوں تک قائد نے اپنی توجہ مسلسل مسلم ایوانہائے تجارت کی فیڈریشن کے قیام پر مرکوز رکھی۔اس
حوالے سے اپریل 1945 میں کسی قدر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اصفہانی کو لکھا”کیا آپ مسلم ایوان تجارت کی فیڈریشن کے
بارے میں سو رہے ہیں اور کیا یہ صرف ایک کاغذی منصوبہ رہے گا؟ میں بہت زیادہ نا امید ہوا ہوں کہ آپ کے پہلے اجلاس کے انعقاد
میں اس قدر تاخیر ہوئی۔ ہم بہت زیادہ قابل قدر وقت اور سنہری موقع ضائع کررہے ہیں ۔ ہر گزرنے والا ہفتہ ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے اس کے لیے کام کیا اور جو اس کے لیے کام کرنے کو تیار ہیں مایوسی اور نا امیدی پیدا کررہا ہے ، لیکن جو تیز رفتار ترقی ہورہی
ہے مسلم ہندوستان خود کو معمول کے مطابق بد قسمتی سے اسی مقولہ کے ساتھ پائے گا”بہت زیادہ دیر ہوگئی”۔
محمد علی جناح نے دیگر اقتصادی اداروں کے قیام کے لئے بھی کوششیں جاری رکھیں۔ 1946 کے ہنگامہ خیز دنوں میں انہوں نے
ایک فضائی کمپنی بنانے کا آئیڈیا دیا جس کے مالک مسلمان ہوں اور جسے چلاتے بھی مسلمان ہوں۔ اورینٹ ائیر ویز ،جو بعد میں پی آئی اے بن گئی ، کے بارے اصفہانی لکھتے ہیں کہ قائد نے انہیں جون 46 میںدوپہر کے کھانے دوران اس کے بنانے کا آئیڈیا دیا۔ اصفہانی کے بقول جب میں نے ایئر لائن بنانے کے حوالے سے مشکلات اور ہندوؤں کی مخالفت کا تذکرہ کیا تو مجھے کہنے لگے ”ہمیں خدا پر بھروسہ اور اپنے مؤقف پر اعتماد رکھنا چاہئے اور آگے بڑھنا چاہئے ۔ قائد نے ذاتی طور پر مالی شراکت سے اس منصوبے کی حمایت کی اور
25000 کے حصص خریدے ۔ فی شیئر کی قیمت 5 روپے رکھی گئی تاکہ وہ بھی اس کمپنی اورینٹ ائیر ویز کے حصص خریدیں۔ بینکنگ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مسلم کمرشل بینک کی تخلیق کی حوصلہ افزائی کی ۔ ایم اے ایچ اصفہانی کے مطابق ”صحیح صورت حال واقعی یہی تھی اور مسلم کمرشل بینک انہی کی مستقل مزاجی ،کوشش اور سر آدم جی حاجی داؤد اور میرے بھائی میرزا احمد سے ان کی گفت و شنید ہی کی بدولت معرض وجود میں آیا۔ مسلم کمرشل بینک جولائی 1947 میں تین کروڑ روپے کے منظور شدہ سرمائے سے کلکتہ کے مقام پر وجود میں آیا۔ اس کے علاوہ محمدی اسٹیم شپ کمپنی کا حبیب گروپ کی مدد سے آغاز کرایا۔آخر میں ایم اے ایچ اصفہانی کی کتاب سے قائد کے الفاظ کے ساتھ اپنا
کالم ختم کرتے ہوئے کہوں گا ، کہ مسلم لیگ کی قیادت معاشی واقتصادی معاملات کی اہمیت سے نہ صرف واقف تھے بلکہ اس حوالے
سے فکر مند ہوکر مختلف اقدامات بھی اٹھاتے رہے جن کی تفصیل آپ اوپر پڑھ چکے ہیں۔ایسے میں چونکہ شبر صاحب کا دعویٰ چونکہ غلط ثابت ہوتا ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں انہیں اپنے الفاظ کا پاس رکھتے ہوئے اپنا نام شبر زیدی سے بدل کر عبدالغفور زیدی رکھنا چاہئے ۔
” بغیر اقتصادی ترقی کے آزادی بیکار ہے کیونکہ انسان اس سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتا”۔(قائد اعظم محمد علی جناح)
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں