قانونِ کرایہ داری سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں
شیئر کریں
(5) (دوسری قسط)
اپیلیٹ کورٹ اور ہائی کورٹ میں مالک اور کرایہ دار کے تعلق کا سوال اُٹھایا گیا لیکن رینٹ کنٹرولر اُٹھایا گیا لیکن رینٹ کنٹرولر صاحب نے پراپرٹی خالی کروئے جانے کا حکم صادر فرمایا کیونکہ Evication Application میں پراپرٹی کا قبضہ دلوانے کی درخواست کی گئی تھی۔ (6) پٹیشنر کے وکیل صاحب نے تب یہ کہا کہ پارٹیوں کے درمیان Landlord اورTenant کا تعلق وجود میں نہ ہے تاہم پٹیشنر نے پارٹیوں کے حق کا تعین کرنے کے لیے ایک مقدمہ دائر بھی کر رکھا تھا اُس کا استدلال تھا کہ اِس مقدمے کے فیصلے تک Ejectment نہیں ہوسکتی یہ قانون کا طے شدہ اصول ہے کہ اگر کراے دار جو ہے وہ Landlordکے مالکانہ حقوق سے انکاری ہے تو پھر سب سے پہلے متعلقہ پراپڑٹی کا قبضہ مالک کو دے اور اگر وہ عدالت میں اپنی ملکیت ثابت کرکے فیصلہ اپنے حق میں کروالیت ہے تو پھر وہ قانون کے مطابق عملداری عمل میں آئے گی(7) پٹیشنر کے کونسل نے اور کسی نکتے پر بحث نہیں کی۔
بیان کردہ وجوہات کی بناء پر ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پٹیشن میرٹ پر پورا نہیں اُترتی اس لیے اِس کو خارج کیا جاتا ہے اور Leave Decline کی جاتی ہے۔اس کیس میں اجازت دئیے جانے کو Refuseکردیا ۔ 2010 ,CLC,610 کے مطابق ٹرائل کورٹ کی یہ قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ مقدمہ کے حوالے سے اپنے ذہن کو استعمال کریں اگر کوئی مقدمہ قانون کی کسی شق سے متصادم ہے اور قابلِ سماعت نہیں ہے تو ایسے کیس کو فوراً ختم کردینا چاہیے اور لمبے عرصہ کا ٹرائل کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے کیونکہ اِس طرح عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہوتی چلی جاتی ہے اور عدالتوں پر غیرضروری بوجھ پڑ جاتا ہے۔ اگر صرف ایک قانونی نکتہ مقدمے میں حل طلب ہے تو جج صاحبان اُس کو حل کرکے آغاز میں ہی فیصلہ صادر فرمادیں۔اِس سے فریقین کا قیمتی وقت اور رقم دونوں کی بچت ہوگی۔اسی طرح ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا ہے کہ جب رینٹ رجسٹرار کسی بھی رینٹ کے معائدہ کو رجسٹرڈ کرتے وقت کرایہ دار کو بھی نوٹس کرئے تاکہ کرایہ دار اطمینان کرلے کہ معائدہ کی تمام دفعات وہی ہیں جس پر فریقین متفق ہیں۔ کیونکہ کرایہ دار پر متعلقہ پراپرٹی کے حوالے سے Liabilities تو ہے تو پھر کرایہ دار کو رینٹ ایگریمینٹ کے حوالے سے مکمل آگاہی ہونی چاہیے۔
اگر رینٹ رجسٹرار نے کرایہ دار کو ایگریمینٹ رجسٹرد کرنے سے پہلے نو ٹس جاری نہ کیے ہوں تو ایسا معاہدہ validنہ ہوگا۔ اس طرح سیکشن 9 میں یہ درج ہے کہ اگر معائدہ رجسٹرڈ نہ ہو تو پھر مالک جائیداد ایک سال تک بننے والے کرایہ کی رقم کے اوپر دس فی صد رقم بطور Fineعدالت میں جمع کراوتا ہے اُس کے بعد جائیداد کی Ejectment کروانے کے حوالے سے پراسیس شروع ہو جاتا ہے۔ اگر ہم پاکستان کے سماجی مسائل کی طرف نظر دوڑائیں تو یہ با ت روزِ روشن کی طرح عیا ں ہو جاتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں مقدمہ بازی کو اکثر لوگ اتنا طویل کر دیتے ہیں کہ انصاف کے لیے اگر دادا نے کیس کیا ہوتا ہے تو انصاف جا کر کہیں پوتے کی اولاد کو ملتا ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اگر تاخیر سے انصاف ملے تو ایسے انصاف کا کیا فائدہ۔زمین وغیرہ کے جھگڑے ہمارئے معاشرئے میں نسل در نسل صدیوں تک چلتے ہیں جن لوگوں کا حق ہوتا اُن کو نہیں ملتا اور جنہوں نے حق دینا ہوتا ہے وہ بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مُلکِ عدم روانہ ہو جاتے ہیں انصاف ہے کہ عام سائل کی پہنچ سے دور اور اشرافیہ کی دسترس میں ہوتا ہے۔ انصاف کے ایوانوں میں انصاف ہی ناپید ہوتا ہے۔ ہاں اشرافیہ انصاف کو بھی ایک Commoditسمجھتے ہوئے اِس کی خریدار بن جاتی ہے۔ پاکستان میں تشدد ، لوٹ مار، عدمِ برداشت یہ سب کیا دھرا انصاف کے میسر نہ آنے کی وجہ سے ہے۔اس لیے جیسے ہی کسان زمیندار کی فصل کاشت ہونے کے قریب ہوتی ہے تو وہ زمیندار یا کسان مقدمہ بازی کے لیے پہلے سے ہی تیار ہوتا ہے۔تعلیم کی کمی۔ قناعت کا نہ ہونا یہ سب کچھ انصاف کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ (ختم شد)