میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سفر یاد....قسط34

سفر یاد....قسط34

منتظم
جمعرات, ۲۹ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

شاہد اے خان
دوسری بار کھٹ کھٹانے پر دروازہ کھلا، سامنے ایک درمیانے قد، گہرے سانولے رنگ کے موٹے سے صاحب کھڑے آنکھیں مل رہے تھے، گویا ابھی سو کر اٹھے تھے، حلیے سے مدراسی یا کیرالہ کے باشندے لگ رہے تھے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے ہمیں تو یہاں پاکستانی بھائی ملنا تھے، یہ بھارتیوں جیسے صاحب کون ہیں ،ابھی ہم اسی ادھیڑ بن میں لگے تھے کہ وہ صاحب بولے جی کون ہیں آپ؟ کیا مسئلہ ہے؟ لہجہ پورا کراچی والا تھا، ہم نے اپنا نام اور آنے کا مقصد بتایا۔ بولے اندر آجاﺅ یار۔ معلوم ہوا ان کا نام علی ہے اور کراچی کے علاقے ملیر کے رہنے والے ہیں، ہم اندر پہنچے تو ایک اور صاحب سے ملاقات ہوئی ، وہ بھی تقریبا سو رہے تھے۔ ان کا نام منیب تھا ،یہ بھی کراچی کے رہنے والے تھے۔ دونوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی، سعودی عرب آنے کے بعد یہ پہلے کراچی والے تھے جن سے ملاقات ہوئی تھی۔ ہم نے مختصر الفاظ میں اپنے ریاض آنے اور جنادریہ کیمپ کا احوال سنایا اور بتایا کہ کیمپ میں کوئی پاکستانی نہیں تھا اس لیے ہمیں یہاں نسیم کے ولا میں شفٹ کردیا گیا ہے۔ دونوں کوریاض پہنچے دو روز ہی ہوئے تھے، ان کے ساتھ دیگر دو افراد بھی آئے تھے جو آج کسی سائٹ پر انٹرویو دینے گئے ہوئے تھے۔ علی پہلے بھی سعودی عرب آچکا تھا وہ پہلے مدینہ شریف میں رہ کر گیا تھا اس لیے کافی مطمئن نظر آرہا تھا۔ منیب پہلی بار ملک بلکہ شہر سے باہر نکلا تھا۔ دونوں نے ایجنٹ کواس کمپنی میں ملازمت اورسعودی عرب آنے کیلیے کافی پیسے دیے تھے۔ منیب خاصا نروس تھا، اس کو گھر کی یاد شدت سے آرہی تھی ،بار بار اپنے گھر والوں کا ذکر شروع کر دیتا اور سسکیاں لینے لگتا۔ ہم نے اپنے ایک مہینے کا تجربہ اس کے سامنے رکھ دیا اور کہا اب آگئے ہو، واپسی کا ارادہ بھول جاو¿ کم از کم تین سال تک تو واپسی کا سوچنا بھی نہیں کیونکہ کمپنی تین سال بعد واپسی کا ٹکٹ دے گی۔ علی کہنے لگا بھاگنے کے بڑے طریقے ہیں بندے کا دل بڑا ہونا چاہیے۔ ہم نے کہا پاسپورٹ کمپنی کے پاس جمع ہے ،واپسی کیسے ہوگی جب تک پاسپورٹ ہاتھ میں نہیں ہوگا۔ علی نے کہا سب کچھ ممکن ہے بس خلی ولی ہو جاو¿۔ یہ خلی ولی کیا ہے بھائی ؟ہم نے حیرت سے پوچھا۔ علی نے بتایا جو ورکر اپنے کفیل کے پاس سے بھاگ جاتا ہے، اسے خلی ولی کہتے ہیں۔ ایسے لوگ سعودی عرب میں بہت ہیں، کیونکہ خلی ولی غیر قانونی طور پر رہ رہے ہوتے ہیں ،اس لیے انہیں کام کا معاوضہ بھی کم ملتا ہے، سستی لیبر ہونے کی وجہ سے کئی ٹھیکیدار یا کنٹریکٹر ان کوکام پر رکھ لیتے ہیں ۔عام طور پریہ لوگ چوری چھپے کام کرتے ہیں لیکن کئی کنسٹرکشن سائٹ پر کھلے عام کام کرتے ہوئے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ پیسہ ہر جگہ کام دکھاتا ہے، اس لیے حکام بھی ان کی ان دیکھی کردیتے ہیں۔ ہم نے علی سے پوچھا چلو بندہ اپنے کفیل سے بھاگ گیا، کام بھی مل گیا ،اپنے طور پر رہائش کا انتظام بھی کر لیا لیکن پاسپورٹ تو پاس ہے ہی نہیں، وطن اپنے گھر واپس کیسے جائے گا۔
علی ہنسنے لگا پھر بولا خلی ولی لوگوں کو جب گھر جانا ہوتا ہے تو وہ خود کو گرفتار کرا دیتے ہیں ،پولیس ان کو کچھ دن جیل میں رکھنے کے بعد ڈی پورٹ کر دیتی ہے۔ ہم نے پوچھا بغیر پاسپورٹ کے واپس کیسے آتے ہوں گے۔ علی نے بتایا ایسے لوگوں کا ایمرجنسی پاسپورٹ بنوایا جاتا ہے۔ ان کے ملک کا سفارتخانہ یا قونصل خانہ ان کے لیے ایمرجنسی پاسپورٹ کا انتظام کرتا ہے ویسے تو ٹکٹ کا انتظام بھی سفارخانہ یا قونصل خانہ کرتا ہے لیکن اس میں کافی وقت لگ جاتاہے اس لیے خلی ولی اپنے ٹکٹ کے پیسے اپنے پاس سے دیتے ہیں، اس طرح ان کی وطن واپسی ممکن ہو جاتی ہے۔ ہم حیران پریشان علی کو دیکھ رہے تھے ،واقعی یہاں کے رنگ نرالے ہیں۔ سعودی عرب میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ لفظ خلی ولی اپنے معنی میں کتنا وسیع ہے۔ خلی ولی یہاں کی زبان میں کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ ویسے بات چیت میں اس کا مطلب ہے چلو چھوڑو۔ یعنی بات ختم کرنی ہو تو خلی ولی۔ جھگڑا شروع کرنا ہو تو خلی ولی۔ معافی مانگنی ہو تو خل ولی۔ کسی کو انکار کرنا ہو تو خلی ولی۔ کام ختم کرنا ہو تو خلی ولی۔ کوئی چیز گم ہو جائے تو خلی ولی۔ کسی کو چپ کرانا ہو تو خلی ولی۔ کیرالہ والے مدراسی اور بنگالی بھائیوں نے خلی ولی کو کھلی ولی بنا دیا ہے جبکہ چینی، فلپینی اور مغربی ممالک کے لوگ کلی ولی کہتے ہیں۔ یہاں کہتے ہیں بات سمجھ آنی چاہیے ،باقی سب ٹھیک ہے۔ یعنی باقی سب خلی ولی۔۔۔۔ جاری ہے
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں