میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عمران زرداری اتحاد،شریف برادران  کے لیے خطرے کی گھنٹی

عمران زرداری اتحاد،شریف برادران کے لیے خطرے کی گھنٹی

منتظم
اتوار, ۳۱ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا ہے کہ ’آل پارٹیز کانفرنس کے معاملے پر پیپلزپارٹی اور ہمارے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے‘۔لاہور میں منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں طاہرالقادری اور آصف زرداری کے درمیان ملاقات کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری اور آصف زرداری نے مشترکہ پریس کانفرنس میںآصف زرداری اور طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن شہباز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ اے پی سی پر دونوں جماعتوں نے اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا، کسی ایک نقطے پر کوئی اختلاف نہیں، دونوں جماعتوں کے درمیان 100 فیصد ہم آہنگی ہے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن پر پیپلزپارٹی انصاف حصول کے لیے ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔آصف زرداری نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن کے معاملے پر ہم مظلوموں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ہیں۔آصف زرداری نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن کا سانحہ لاہور شہر میں ہوا، خیبر پختونخوا کے کسی دور درازعلاقے میں نہیں ہوا کہ لوگ اس کی کوئی خبر نہ رکھتے ہوں، میڈیا پر دکھایا گیا کہ ماڈل ٹاؤن پر کس طرح لوگوں پر گولیاں برسائی گئیں، ہمیشہ ظلم کے خلاف جدوجہد کی آواز اٹھائی، ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ رہے ہیں۔آصف زرداری نے کہا کہ ہم ہر زیادتی کے خلاف آواز اٹھائیں گے اور انصاف بھی مانگیں گے، مطالبہ کرتے ہیں کہ شہبازشریف مستعفی ہوں اور انہیں استععفیٰ دینا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف پر 302 کے مقدمے ہونے چاہئیں، رانا ثنااللہ کو بھی استعفیٰ دے کر قانون کے سامنے خود کو پیش کرنا پڑے گا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات پر اثر انداز ہو رہے ہیں لیکن غریبوں کا لہو رنگ لائے گا، آج نہیں تو کل مظلوموں کو انصاف ملے گا۔آصف زرداری نے کہا کہ میاں صاحب ہمیشہ ایسے کام کرتے ہیں کہ حالات سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں لیکن سعودی عرب اس بار نواز شریف کی مدد کے لیے نہیںکرسکے گا کرے گا تو دیکھیں گے۔شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ ہمارا کیس بہت کلیئر ہے، فیصلہ خانہ کعبہ کا نہیں ہو گا، ہم آزاد اور خودمختار ملک ہیں، ہمارے ادارے با اختیار ہیں، ہم کسی کے غلام نہیں کہ کوئی باہر بیٹھ کر ہمارا فیصلہ کرے اور ہم سر تسلیم خم کر لیں۔ طاہرالقادری نے کہا کہ شریف برادران کہتے ہیں سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں ہونے چاہئیں، وہ اپنے فیصلے کرانے کے لیے باہر کی طاقتوں کے دربار میں گئے، ان کا سر شرم سے جھک جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ قبول نہیں ہو گا، پاکستانی قوم بھی اس فیصلے کو قبول نہیں کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ امید ہے کہ سعودی عرب بھی شریف برادران کو کوئی این آر او نہیں دلوائے گا۔

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری کے درمیان ملاقات کے بعدکی گئی اس پریس کانفرنس میں کی گئی باتوں سے اندازہ ہوتاہے ، کہ اپوزیشن کی بڑی پارٹیوں نے اپنے دیرینہ اختلافات بالائے طاق رکھ کر موجودہ حکومت کو وقت سے پہلے ہی رخصت کرنے کی کوششوں کا فیصلہ کرلیا ہے ، اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اگر سعودی عرب نے اس دفعہ شریف برادران کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس کے خلاف شدید مزاحمت سامنے آسکتی ہے جس سے پاکستان کے عوام میں سعودی حکمرانوں کی جوعزت اور احترام پایا جاتا ہے وہ بری طرح مجروح ہوگا جو ایک ایسے وقت جب امت مسلمہ کو اتحاد کی اشد ضرورت ہے پوری امت مسلمہ کے لیے نقصاندہ ثابت ہوسکتاہے۔

جہاں تک ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے نئی تحریک چلانے کے اعلان کاتعلق ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے صرف اس اعلان نے ہی حکمرانوں کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے،کیونکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جب بھی پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں اپنی موجودگی ظاہر کرتے ہیں تو سیاست کا کیمیائی عمل تیز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔اس وقت ان کا آصف علی زرداری کے ساتھ بیٹھنا سیاست کے کسی کیمیائی عمل کا تاثر دے رہا ہے۔ پاکستانی سیاسی منظر نامے میں اگرچہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اپنی موجودگی ظاہر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں لیکن عملی طور پر ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ ہونے کے باوجودوہ عملی سیاست سے دور ہوچکے ہیں۔ن لیگ مخالف پارٹیوں کے لیے یقینا میاں صاحب کی سیاست سے نااہلی ایوان اقتدار میں داخلے کی امید ہوسکتی ہے۔ لیکن میاںنواز شریف نے میاں شہباز شریف کو اگلے وزیراعظم کے لیے موزوں امیدوار قراردینے کاجو آخری کارڈ کھیلا ہے وہ نواز شریف کی جانب سے اس اعتراف کے مترادف ہیکہ اب ن لیگ کا اپنا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے والا ہے اور نواز شریف نے ذہنی طورپر یہ قبول کرلیاہے کہ پاکستان میں ان کی سیاست ختم ہوچکی ہے اور اب وہ بادشاہ نہیں بلکہ بادشاہ گر کے طورپر ہی کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں اور اب بڑے میاں صاحب کی جگہ چھوٹے میاں صاحب اپنی نئی ٹیم کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔جس سے ظاہر ہے میاں نواز شریف کے بہت سے اہم پلئیر ٹیم سے باہر دکھائی دیں گے۔

نواز شریف کاذہنی طورپر یہ قبول کرنا کہ اب پاکستان کی سیاست میں وہ حکومت سے باہر بیٹھ کر ہی کوئی کردار ادا سکتے ہیں پاکستان تحریک انصاف کی حکمت علی کی کامیابی کو ثبوت ہے ، تحریک انصاف نے ایک اچھی حکمت عملی کے تحت شروع ہی سے میاں نواز شریف کو ہی ٹارگٹ بنائے رکھا اور بالاآخر اس میں اس حد تک کامیاب رہی کہ خود نواز شریف اپنی جگہ اپنے بھائی کو نامزد کرنے پر مجبور ہوگئے، اس پورے عرصے میںمیاں شہباز شریف پی ٹی آئی کے ہدف سے باہر ہی رہے۔ اب جبکہ ن لیگ کی سیاسی قیادت میں ممکنہ تبدیلی دیکھی جاسکتی ہیںاس تناظر اور موجودہ سیاسی صورتحال میںعلامہ طاہر القادری کی اہمیت بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے پہلی بار علامہ طاہر القادری سے ہاتھ ملایا ہے۔ جبکہ عمران خان نے بھی کہہ دیاہے کہ’’ انسانی مسئلے ‘‘پر زرداری کے ساتھ بیٹھنے کو بھی تیار ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ انسانی مسئلہ ماڈل ٹائون کے واقعے کو قرار دے رہے ہیں۔ اب اگر اس ’’انسانی مسئلے ‘‘ پر عمران خان اور آصف علی زرداری ، علامہ کا ساتھ دینے پر ایک پیج پر آجاتے ہیں تو یقینان لیگ اور بالخصوص شہباز شریف کے لیے یہ انسانی مسئلہ ان کے مستقبل کے لیے سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔اس حوالے سے آصف زرداری کو تو عمران خان کے ساتھ بیٹھنے سے شاید کوئی مسئلہ نہ ہو کیونکہ ان کا تو یہ ٹریک ریکارڈ رہا ہے کہ وہ سیاسی مخالفین سے بخوشی ہاتھ ملالیتے ہیں اسی حکمت عملی پر چلتے ہوئے انہوں نے پانچ سال صدارت کی تھی ،لیکن عمران خان کو ضرور طعنے سننے کو مل سکتے ہیں کہ ماضی میںوہ آصف زرداری کے حوالے سے سخت زبان استعمال کرچکے ہیں لیکن سیاست میں یہ سب باتیں چلتی رہتی ہیں یہاں دوستی اور دشمنی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔تاہم یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اگر عمران خان اور آصف زرداری ماضی کو بھلا کر ساتھ بیٹھنے اور چلنے کوتیار ہوجائیں اور یہ وقتی ملاقاتیں دونوں کے درمیان انتخابی اتحاد میں تبدیل ہوجائیں تو یقینا اس سے دونوں پارٹیوںکو فائدہ ہی پہنچے گا۔ پی پی پی اچھے برے وقتوں میں بھی سندھ سے اپنا ووٹ نکال لیتی ہے لیکن جب بھی اس پارٹی نے پنجاب سے سیٹیں نکالی ہیں اسے مرکز میں حکومت ملی ہے۔ ماڈل ٹائون کے مسئلے پر اگر یہ دونوں پارٹیاں پنجاب کے عوام کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیںتو اس سے شہبازشریف ہی متاثر ہوں گے۔ جس سے مسلم لیگ ن میں ایک خلاف پیدا ہوسکتا ہے جس سے پیپلز پارٹی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ جبکہ گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار دوسرے نمبر پر آئے تھے اس لیے پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملانے اور انتخابی اتحاد کی صورت میں ان کے پہلے نمبر پر آنے کی امید پیدا ہوسکتی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے تعاون سے پاکستان پیپلزپارٹی کوبھی کچھ نشستیں ملنے کی امید پیدا ہوسکتی ہے،اس صورت حال میں ن لیگ کے خلاف اپوزیشن کی تحریک بہت زیادہ جارحانہ ہوسکتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ الیکشن میں وقت کم ہے، دوسرا اس بارپی ٹی آئی اکیلی نہیں ہوگی بلکہ ساتھ پیپلز پارٹی بھی شامل ہوگی۔ پیپلز پارٹی کی بقاکے لیے اگلا الیکشن بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے اسے جیسے بھی اتحاد میسر ہو ، ضرورکرے گی تاکہ اس کا جیالا سیاسی میدان میں بھرپور طریقے سے حصہ لیسکے۔اس نئے اتحاد سے البتہ ایم ایم اے کے اتحاد کو ضرور کنفیوڑن ہوگی۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمااسلام نون لیگ کے حوالے سے اپنی واضح پوزیشن رکھتی ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کی یہ پوزیشن ان کے پارٹی اتحاد کو ایک ساتھ کیسے چلا پائے گی اس کا جواب بھی اگلے دنوں میں آجائے گا۔ اب دیکھنایہ ہے کہ نون لیگ مخالف قوتیں کس انداز میں ماڈل ٹائون کے واقعے کو دوبارہ زندہ کرسکتی ہیں اور خودن لیگ اس حوالے سے کیا پیش بندی کرسکتی ہے۔ جہاں تک سانحہ ماڈل ٹائون کا سوال ہے تو اس حوالے سے ن لیگ کو زیادہ محتاط ہوکر قدم اٹھانا ہوگا اور اس حوالے سے جذباتی بیانات دینے والوں کو پہلے ہی سے لگام دینا ہوگی کیونکہ میاں نواز شریف اور ان کے برادر خورد شہباز شریف کو یہ اندازہ ہوچکا ہوگا کہ اس طرح کی تحریکوں میں حکمراں جماعت کو سب سے زیادہ نقصان جذباتی بیانات دینے والوں کی وجہ سے اٹھانا پڑا اور ہمیشہ 100پیاز کے ساتھ ہی 100جوتے کھانے پر بھی مجبور ہونا پڑا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں