میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سفر لا حاصل

سفر لا حاصل

منتظم
پیر, ۳۱ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

مبین امجد
میں ان گلیوں سے آشنا تھا لیکن ایک عرصے بعد لوٹا تو پہچان ہی کھو بیٹھا۔۔۔ جانے کس گلی میں میرا اپنا بچپن گزرا تھا۔۔۔ ؟کہاں میں نے گلی ڈنڈا اور بنٹے کنچے کھیلے تھے۔۔۔؟ زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا تھا؟ مجھے تو وہ تالاب بھی یاد تھا جہاں ہم آنہ آنہ کرکے خریدی گئی کنڈی ڈال کر گھنٹوں مچھلیاں پکڑنے کو بیٹھے رہتے۔۔۔ مگر اب وہ کہاں گیا۔۔۔؟ شاید یہ جو پلازہ ہے پہلے یہاں تالاب ہی ہوا کرتا تھا۔۔۔ یا نہیں پہلے بھی پلازہ ہی تھا۔۔۔چاہنے کے باوجود مجھے کچھ یاد نہیں آرہا۔۔۔ کیا میں اپنی پہچان کھو بیٹھا ہوں۔۔۔جانے بھول کہاں ہوئی تھی ؟
انسان اتنی جدو جہد کیوں کرتا ہے شاید اس لیے کہ میرا ایک نام ہو۔۔۔ میری ایک پہچان ہو۔۔۔ وہ شادیاں کرتاہے کہ اولاد ہو گی تو نسل آگے چلے گی۔۔۔۔ محنت مشقت کرتا ہے کہ مال ہوگا تو عوام میں پذیرائی ملے گی۔ مگر اس شخص کی تمام تر کوششیں اور کاوشیں سب رائگاں جاتی ہیں جو دوسروں کے حقوق کی ادائیگی سے بے دھیانی برتتا ہے۔ اور شاید۔۔۔ شاید مجھ سے بھی یہی بھول ہو گئی۔ میں بھی یہی خطا کر بیٹھا۔ اور میرے جرم کی سنگینی بھی تو ایسی ہی تھی۔۔۔ آخر میں نے اپنی ماں سے منہ پھیرا تھا۔۔۔ حقیقی سے بھی اور دھرتی ماں سے بھی۔۔۔
اور مجھے وہ دن بھی یاد تھا جب جاتے سمے ا ماں نے مجھے تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا بیٹا مت جا ورنہ تُو میرا نشان تک نا پا سکے گا۔۔۔۔ اور واقعی میرے جانے کے بعد ماں نے منہ پھیر لیا تھا۔۔۔۔اور آج لوٹنے پہ دھرتی ماں مجھے پہچاننے سے انکاری تھی۔۔۔
میں نے آج ایک عرصے بعد وطن کی سرزمین پہ قدم رکھا تھا۔ اصل میں میں خود غرض ہو گیا تھا۔ اور شاید اس میں میرا بھی کوئی قصور نہیں تھا۔ کہ جب میں نے شعور کی آنکھ کھولی تو خود کو اور اپنے گھر والوں کو حالات کے جبر سہتے دیکھا۔ شروع دن سے ہی محرومیوں نے مجھے سرکش کر دیا۔۔۔ میں روایت توڑ کر ، رسے تڑوا کر یہاں سے جانا چاہتا تھا۔۔۔ مگر یہ معلوم نا تھا کہ میری سرکشی کی اس قدر بھیانک سزا ملے گی۔
میں جب گھر میں داخل ہوا تو میری ماں کا بے جان سرد لاشہ صحن میں پڑا تھا اور میرا باپ جو اب بالوں میں سوت لیے عمر کا چرخہ کات رہا تھا۔۔۔۔ سر پکڑے سسک رہا تھا مجھے وہ اس پرندے کی طرح لگا جو گرے ہوئے شجر کی ٹہنیوں میں اپنا گھونسلہ تلاشتا پھرتا ہے۔ اور عائشہ کی آنکھیں بھی رو رو کر متورم تھیں۔۔۔ میری ماں کہا کرتی تھی تو عائشہ سے شادی کر لے۔۔ اس کے دل کی کلائیوں میں تیری ہی محبت کی چوڑیاں کھنکتی ہیں، اس کے دل کے آنچل سے تیری ہی یاد بندھی ہے اور اسکے دل کے نگار خانے میں تیری ہی تصویر سجی ہے۔ مگر وہ مجھ سے محبت کرتی ہے تو مجھ سے کہتی کیوں نہیں۔۔۔؟ شاید وہ مجھے اپنی محبت کا اسیر کر لیتی تو میں نا جاتا۔۔۔شاید یہ جذبہ اظہار سے ماورا ہے۔۔۔ اور اس کو کہے بغیر سمجھنا ضروری ہے۔ اور میں نہیں سمجھ سکا تو اس میں قصور تو میرا ہی ہے نا۔۔۔!
خیر ماں کی تدفین کے کچھ روز بعد کی بات ہے میں سویا ہوا تھا کہ اچانک کسی شور سے میری آنکھ کھل گئی۔ یہ شور پرندوں کا تھا۔ جن کو شاید کئی روز سے دانہ دنکا نہیں ملا تھا۔ میری آنکھوں میں وہ منظر گھوم گیا جب میں یونیورسٹی سے ڈگری لے کر گاو¿ں پہنچا تو میری ماں صحن میں پرندوں کے لیے دانہ ڈال رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پہ رونق آگئی اور اس نے میرا ماتھا چوما اور دعا کے پھولوں کے ڈھیروں ہار میرے گلے میں ڈال دیے۔تب۔۔۔ ہاں تب ہی میں پوچھا تھا کہ ماں تو ان پرندوں کا اتنا خیال کیوں رکھتی ہے؟ اس نے کہا تھا کہ ‘دیکھ پتر !جس کو بھوک کے عذاب کا پتہ ہو وہی اپنی فصل پرندوں کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔’ میں نے کہا ماں یہ ہمارے پالتو پرندے تو نہیں ہیں ،تو اس نے بڑے دکھی انداز میں کہا تھا ‘پالتو پرندے کو اپنی غلامی کا غم نہیں ہوتا مگر یہ خدا کو پسند نہیں کہ اس کی مخلوق کو آزار دیا جائے۔ اور ویسے بھی غلامی کے اسیروں کی دبے پاو¿ں چلنے کی عادت نہیں جاتی۔ پتر کسی کو اسیر ہی کرنا ہے تو اپنی محبت سے کر۔۔۔۔’
شاید میں بھی اسیر تھا۔۔۔ اپنی خواہشوں اور تمناو¿ں کا اسیر۔ اسی لیے میں اس ملک سے ہجرت کر گیا۔ آہ! میرے باپ کی خواہش تھی کہ میں اس کے ساتھ زمینوں پہ کام کروں مگر مجھے پیسہ کمانے کی دھن اس قدر سوار تھی کہ میں نے ولایت جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔میرے بے حد اصرار پہ انہوں نے مجھے اجازت تو دے دی تھی مگر یہ اجازت دکھی دل کے ساتھ دی گئی تھی۔
اس رات چاند بھی کہیں چھپ گیا تھا جب میں نے اگلے دن رخصت ہونا تھا۔۔۔ ااندھیرے نے چپ سادھ لی تھی اور میرے اندر جگنوو¿ں کی رتھ پر سوار میرے خواب جھلملانے لگے۔۔۔ مگر خواب ریشم و مخمل کے ہوں تو بھلے لگتے ہیں، کانچ کے خواب تو آنکھوں کو زخمی کر دیتے ہیں۔ مجھے یاد تھا کہ جاتے سمے میرے باپ نے کہا تھا کہ ‘ جب کوئی خود غرض ہو کر اپنوں کی چاہت سے لاتعلق ہو جائے ، پھر قدرت عجیب فیصلہ کرتی ہے۔ سب کچھ اس کی پہنچ میں تو ہوتا ہے مگر وہ طلب میں نہیں رہتا۔۔۔’ میری ماں نے پہلے میری طرف اور پھر عائشہ کی جانب دیکھا اورکچھ کہا، بعض اوقات زبان معتبر نہیں رہتی۔۔۔نظر سے نظر کا کہا ہی کافی ہوتا ہے۔ عائشہ نے میری جانب دیکھا اور پھر منہ پھیر کر سسکنے لگی تھی۔ اپنوں سے رخصت ہونے کا غم مجھے بھی تھا مگر۔۔۔۔۔ میں پرندہ تھا اور خواہشوں کا اسیر پرندہ تھا سو مجھے اڑان بھرنی ہی تھی۔
مگر اب میں تھک گیا ہوں ،ایسے سفر سے کہ جس کی کوئی منزل نا تھی مگر تھکان سب سے بڑھ کر تھی۔۔۔بعض لوگ اپنا سفر اتنی جلدی کیسے طے کرلیتے ہیں ،میرا سفر تو شاید صدیوں پہ محیط تھا۔۔۔۔ بے منزل سفر۔۔!مگر اب میں اپنوں میں آگیا ہوں۔۔۔ اس کونج کی مانند جو اپنی ڈار سے بچھڑ جاتی ہے اور یہاں وہاں ماری ماری پھرتی ہے مگر پھر ایک دن اسے اپنی ڈار کا نشان مل جاتا ہے۔ تو میں اب اپنوں میں تھا۔ میں اب بچھڑنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔میں اب واپس نہیں جانا چاہتا تھاکیونکہ میں اب تھک گیا تھا۔۔۔
میں نے اپنے باپ کوبتایا تو وہ بھی خوش ہو گیا۔۔۔ اور شاید میرے اس فیصلے سے عائشہ کو بھی خوشی ہو ئی تھی کہ ہر وقت اس کے گالوں پہ شرم و حیا کا غازہ رہنے لگا۔ میرے فیصلے سے شاید اس کی امیدوں کے دیے پھر سے جلنے لگے تھے۔
خاندان کے بڑے بزرگوں کے کہنے پہ اماں کے چہلم پہ ہی میں نے عائشہ سے شادی کر لی۔۔لیکن میرے جرم کی سزا کے طور پر اب میری ماں مجھ سے دور جا چکی تھی ۔۔بہت دور۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں