مریم نواز نے اپنی ماں کی انتخابی مہم کاآغاز بھی جھوٹ سے کیا
شیئر کریں
نواز شریف کی صاحبزادی مریم نوازنے گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا رویہ تلخ نہیں اور اب وہ سچی بات کررہے ہیں تو سننے کا حوصلہ رکھیں ۔انھوں نے کہا کہ زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں لیکن ہمیں اللہ تعالی پر کامل یقین ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے جس حال میں رکھا اچھا رکھا۔ انہوں نے کہا کہ والدملک کے لیے بات کرتے ہیں ، نواز شریف ایک عرصہ خاموش رہے لیکن اب وہ صرف سچ کہہ رہے ہیں ۔دوسری جانب حلقہ این اے 120 کے انتخابی مہم میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے مریم نوازنے ووٹروں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ نواز شریف ہی نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ این اے 120 نے ایک نہیں دو نہیں ، تین بار نواز شریف کو وزیراعظم منتخب کیا ہے،انھوں نے ا س کے ساتھ ہی عوام کویہ بتائے بغیر کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں تبدیلی کے بغیرنوازشریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننا تو کجا الیکشن ہی نہیں لڑسکتے، انہوں نے عوام سے پوچھا ، کیا پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والا، ملک کو سی پیک دینے والا شخص نااہل ہوسکتا ہے، ان کے یہ دونوں بیانات بھی غلط بیانی پر مبنی تھے کیونکہ نہ تو نواز شریف نے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا اور نہ ہی سی پیک نواز شریف کا کوئی کارنامہ ہے، پاکستان کو ایٹمی طاقت ذوالفقار علی بھٹو نے بنایاتھا جبکہ سی پیک کا پورا خاکہ زرداری کے دور میں تیار ہواتھا۔اس طرح صادق اور امین ثابت نہ ہونے کی بنیاد پر نااہل قرار دیے گئے نواز شریف کی بیٹی نے بھی اپنی ماں کی انتخابی مہم کا آغاز جھوٹ اور فریب سے کیاہے جس سے یہ اندازالگایا جاسکتاہے کہ یہ نشست حاصل کرنے کے بعدمسلم لیگ ن اس حلقے کے عوام کے ساتھ کیاسلوک کرسکتی ہے۔بہرحال سیاسی بھول بھلیوں کا کھیل جاری ہے۔ غلام گردشوں میں کبھی کْھسر پْھسر ہوا کرتی تھی لیکن اب کھل کر باتیں ہورہی ہیں ۔ حقیقت پر دبیز پردے ڈالے جا رہے ہیں ۔رائی کوپہاڑبنایا جارہاہے، قطرے کو سمندر دکھایا جارہاہے۔ حقاق مسخ ہو رہے ہیں ، پیالی میں طوفان برپا ہے۔ ہم نہیں تو کچھ نہیں کا زعم ہے۔شخصیات کی ناگزیریت کی بات ہوتی ہے۔ سیاست میں ایک طوفان مچا ہے۔ اداروں کو سیاسی حریف کے درجے پر لا کھڑا کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف اشتعال میں ہیں اور پرملال بھی ہیں ،دونوں کیفیتوں میں قوت فیصلہ شدید متاثر ہوتی ہے۔ وہ ماضی سے رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ۔ خود کو بدلنا نہیں چاہتے۔ دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں ۔ حال کو ماضی کی سربلندی پر لے جانے کی خواہش اور مستقبل کو تابناک کیے رکھنے کی حسرت ہے۔ کالے کوٹ والوں سے جذباتی خطاب کرتے ہوئے انھوں نے 12 سوال کیے تھے اوریہ تمام کے تمام سوالات عدلیہ سے تھے اور ہر سوال کا جواب بھی سوال ہی میں موجود ہے۔ گزشتہ روز انھوں نے ایک اور رٹ پٹیشن دائر کی جس میں سپریم کورٹ سے کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کا 6 ماہ کا حکم کیس پر اثرانداز ہو گا۔ سپریم کورٹ کا جج نیب کورٹ کی کارروائی کو مانیٹر نہیں کر سکتا۔یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اگرمیاں نواز شریف کی آرزو کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کونگرانی سے ہٹا دیا جاتا ہے اورنیب کورٹ پر 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کی پابندی بھی نہیں رہتی تو اس ریفرنس کا مستقبل بھی وہی ہو گا جو 150 میگا کرپشن کیسزکا ہوا۔ ان کیسز میں بڑی بڑی سیاسی شخصیات کے نام ہیں اور 18 سال سے کیس ابتدائی مراحل سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں ۔جے آئی ٹی میں سپریم کورٹ اگر افسران کا تقرر حکومت پر چھوڑتی تو وہ وزیراعظم ہاؤس میں موجود میڈیا سیل کی ہدایت پر عمل پیرا ہوتے اور رپورٹ قصہ پارینہ بن جاتی اور اگلے18سال تک بھی میگا کرپشن کیسز کی طرح ابتدائی مراحل کی مستقل اسیر اورمریض ہی رہتی۔ آج میاں نواز شریف کو جس غم واندوہ کا سامنا ہے،جسے برداشت کرنا ان کے لیے ناممکن ہورہاہے اس کی مکمل ذمہ داری اسی میڈیا سیل پر عائد ہوتی ہے جس کے جوشیلے اورہوش سے بیگانہ افراد کو کابینہ میں شامل کرلیا گیا ہے۔
میاں نواز کے 12سوالوں میں کتنا وزن ہے اس پر وہ تجزیہ کار بھی عمومی اتفاق کرتے ہیں جو کل تک میاں صاحب کو اداروں سے برسرپیکار ہونے پر تھپکی دے رہے تھے۔کئی توبرملا کہتے ہیں کہ میاں نوازشریف کے پاناما کیس سے متعلق 12سوالات میں کوئی وزن نہیں ہے، نواز شریف اب تک یہ بات نہیں سمجھ سکے ہیں کہ سپریم کورٹ سے اہل قرار دیے جانے اور وزارت عظمیٰ سے فارغ کیے جانے کے بعد اب سوالات نواز شریف کو نہیں کرنے بلکہ اب انھیں عدالت کے سوالات کے جوابات دینے ہیں ، نواز شریف کا یہی لب و لہجہ رہا تو ٹیلی ویژن پر ان کی تقریروں پربھی پابندی لگ سکتی ہے، نواز شریف کو ریویو پٹیشن دائر کرنے کے بعد عدالت کے باہر سوالات نہیں اٹھانے چاہئے تھے،سپریم کورٹ کو نواز شریف کے سوالات کے جواب دینے چاہئیں ، مائنس نواز شریف نیشنل گرینڈ ڈائیلاگ نہ صرف ممکن ہے بلکہ کامیابی کا راستا بھی یہی ہے، نواز شریف اپنی نااہلی ختم کرانے کے لیے نیشنل گرینڈ ڈائیلاگ کریں گے تو یہ ڈائیلاگ نہیں ہوگا،سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد نواز شریف نیشنل گرینڈ ڈائیلاگ کا حصہ بنتے ہیں تو اس کا مطلب عدلیہ کی تضحیک ہوگا۔بادی النظر میں میاں نواز شریف ان کی فیملی کا پاکستان کی اقتدار کی سیاست سے کردار ختم ہوچکاہے لیکن ان کی سیاسی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ،وہ اپنی نااہلیت کے صدمے سے نکل آئے تو ان کی حیثیت بادشاہ گر کی ہوگی۔
نواز شریف نے نیب میں پیش ہونے سے انکارکرکے یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ جاؤ جو کرنا ہے کرلو۔مسلم لیگ ن کا مفاہمت پسند طبقہ اداروں کے درمیان محاذ آرائی کی حمایت نہیں کر رہا۔ اب 7 ستمبر کو مسلم لیگ ن کے صدر کا انتخاب ہونا ہے اور چہ مگوئیاں ہورہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی قیادت پھر خاموش ہے۔میاں نواز شریف طاقت اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ توڑنے کا اعلان کررہے ہیں ۔ایسا گٹھ جوڑ کہیں ہے ہی نہیں تو توڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کچھ مصدقہ اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ ن کے کئی لیڈر اپنی ہمدردیاں تبدیل کرنے پر آمادہ ہیں مگر کسی طرف سے ان کوکوئی ہدایت مل رہی ہے نہ کسی طاقت نے کسی سے رابطہ کیا ہے۔جس کی وجہ سے موسمی پرندے ابھی اپنے پر دبائے مناسب وقت اورکسی مضبوط اشارے کاانتظار کررہے ہیں ۔بس کسی جانب سے اشارہ ملنے کی دیر ہے میاں صاحب اپنے اردگرد قدم بڑھانے کی تلقین کرنے والوں کی شکل دیکھنے کو بھی ترس جائیں گے۔