سندھ میں تعلیم کی زبوں حالی،سیکنڈری اسکولوں میں اساتذہ کی 1800 اسامیاںخالی پڑی ہیں
شیئر کریں
انتخابات قریب آتے ہی پیپلزپارٹی بااثر لوگوں کو اسکولوں کی تعمیر کے ٹھیکے دینے کااعلان کرکے ان سے ووٹ بٹورے گی
سندھ کے اسکول اوطاق اوربھینسوں کے باڑے بن چکے ‘اساتذہ تنخواہ حکومت سے لیتے ‘ خدمت وڈیروں کی کرتے ہیں
محکمہ تعلیم میں موجودکالی بھیڑوں کاصفایا ‘خامیوں کودورکرنے کی اس وقت پہلے سے زیادہ ضرورت ہے
ایچ اے نقوی
یہ بات اب کوئی راز نہیں کہ سندھ حکومت کے کم وبیش تمام ہی محکمے اس وقت شدید افراتفری اور بد انتظامی کاشکار ہیں،اور کسی بھی شعبے کی کارکردگی مثالی تو کجا معیاری بھی قرار نہیں دی جاسکتی لیکن زبوں حالی کے اعتبار سے شاید محکمہ تعلیم کو سب پر اولیت حاصل ہے اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ یہ محکمہ کسی سربراہ اور نگراں کے بغیر ہی چل رہاہے اسی لئے بے ماں باپ کے بچے کی طرح اس کی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آتی ،ارباب اختیار انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے برملا اس بات کامتعدد بار اعتراف کرچکے ہیں کہ اندرون سندھ متعد د اسکولوں کو وڈیروں نے اپنی اوطاقوں اور بہت سوں نے بھینسوں کے باڑوں میں تبدیل کرلیا اور اور ان اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دینے کیلئے بھرتی کئے گئے اساتذہ تنخواہ تو سرکاری خزانے سے حاصل کرتے ہیں لیکن وہ ان وڈیروں کے ذاتی ملازمین کی طرح ان کی خدمت بجالاتے نظر آتے ہیں ۔ اس صورت حال کے علاوہ سندھ میں تعلیم کی زبوں حالی کاایک بڑا سبب اسکولوں میں تدریس کیلئے بھرتی کئے گئے اساتذہ کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کے موثر نظام کا فقدان اوراسکولوں میں اساتذہ کی کمی بھی ہے ، اس صورت حال کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ اس وقت صوبے کیسیکنڈری اسکولوں میں اساتذہ کی 1800 اسامیاںخالی پڑی ہیں،بڑی تعداد میں سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری اسکولوں میں کوئی ہیڈ ٹیچر اور پرنسپل یہاں تک کہ متعلقہ مضامین پڑھانے والے استاد بھی نہیں ہیں ،حکومت سندھ نے ہیڈ ٹیچرز اور پرنسپلز کی یہ اسامیاں پر کرنے کیلئے گزشتہ دنوں 1039 ہیڈ ٹیچرز اور ہیڈ مسٹریس کا تقرر کیا تھا لیکن ان کے ذریعہ کراچی اور حیدرآباد کے اسکولوں میں خالی عہدوں کو ہی پر نہیں کیا جاسکا اور اندرون سندھ کے سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری اسکول بالکل ہی محروم وہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات اساتذہ کی کمی کے خلاف احتجاج کرتے ہی رہ گئے لیکن محکمہ تعلیم کے متعلقہ حکام اس کمی کو پورا کرنے کیلئے مناسب اقدام کرنے کے بجائے چین کی بنسری بجارہے ہیں۔
جہاں تک کاغذی خانہ پری کاتعلق تو یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت سندھ نے صوبے میں تعلیم عام کرنے اور تعلیم کی بہتری کیلئے صوبے کے رواں سال کے بجٹ میں تعلیم کی مد میں رکھی جانے والی رقم میں 14فیصد اضافہ کرتے ہوئے یہ رقم176.39 بلین یعنی 176 ارب 39 کروڑ روپے سے بڑھا کر 202.69 بلین یعنی 202 ارب 69 کروڑ کردی ہے ، جو کہ افراط زر کی سرکاری شرح کے مقابلے میں بھی کم وبیش 5 فیصد زیادہ اور صوبے کے پورے بجٹ کا19 فیصد حصے کے مساوی ہے، اس طرح صوبے میں تعلیم کی بہتری کے حوالے سے حکومت پر انگشت زنی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی لیکن المیہ یہ ہے کہ اس رقم کی منظوری کے باوجود جیسا کہ میں نے اوپر لکھا کہ نگرانی کاکوئی معقول اور موثر انتظام نہ ہونے کے سبب یہ پورا محکمہ افراتفری اورطوائف الملوکی کاشکار ہے،اسکول ہیں تو اساتذہ نہیں ہیں اور جہاں اساتذہ موجود ہیں وہاں وہ اپنے فرائض کی دیانتداری کے ساتھ ادائیگی کو ضروری نہیں سمجھتے۔ کراچی سمیت صوبے میں سیکڑوں ایسے اسکول موجود ہیں جہاں اساتذہ کی بڑی تعداد بایو میٹرک سسٹم کے نفاذ کی وجہ سے صرف حاضری لگانے کیلئے آتی ہے اور حاضری لگانے کے بعد غائب ہوجاتی ہے۔جو اساتذہ اسکول میں موجود رہتے ہیں ان کی اکثریت بھی بچوں کو پڑھانے کے بجائے ٹیچرز روم میں بیٹھ کر گپ شپ کرنے یا ذاتی کام نمٹانے کو ترجیح دیتی ہے۔
سندھ کے اسکولوں کانظام سنبھالنے کے ذمہ دار محکمہ تعلیم کی جانب سے فراہم کئے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پورے سندھ کے سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری اسکولوں میں مجموعی طور پر اساتذہ کی 1800 اسامیاں یعنی عہدے خالی پڑے ہیں جن میں گریڈ 20 کے پرنسپلز کے 33 عہدے، گریڈ 19 میں ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی 513 اسامیاں،گریڈ 17 کے اسسٹنٹ پروفیسرز کی 749 اسامیاں،اور مختلف مضامین پڑھانے والے اسپیشلسٹ کے 500 سے زیادہ خالی پڑے ہیں۔یہاں المیہ یہ ہے کہ مختلف اسکولوں میں اساتذہ کے یہ عہدے اس لئے خالی نہیں ہیں کہ محکمہ تعلیم کے پاس ان عہدوں پر تقرری کی صورت میں ان کو تنخواہوں اور دیگر الائونسز دینے کیلئے رقم نہیں ہے ، محکمہ تعلیم کے پاس اس مد میں خاصی رقم موجود ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے محکمہ جاتی ترقی کیلئے پراونشیل سیلکشن بورڈ ون اور ٹو کے اجلاس عرصہ دراز سے نہیں بلائے گئے اور ان کو کسی معقول وجہ کے بغیر ہی تعطل میں رکھاجارہاہے جبکہ موجودہ ترقی کے حقدار اساتذہ کی ترقی کافیصلہ نہ ہونے کے سبب نئے اساتذہ کی تقرری بھی نہیں ہوپارہی ہے۔
یونائیٹڈ ٹیچرز ویلفیئر آرگنائزیشن کے عہدیداروں کاکہنا ہے کہ سندھ کے وزیر تعلیم نے اس محکمہ کی بہتری کی جانب سے مکمل چشم پوشی اختیار کررکھی ہے سیاسی بنیادوں پر میرٹ کو نظرانداز کرکے نااہل اورکام چور افراد کی بھرتی کی وجہ سے پہلے سے موجود اساتذہ میں بھی احساس محرومی بڑھتاجارہا ہے جس کی وجہ سے یہ محکمہ روز بروز بد سے بدتر صورت حال کاشکار ہوتاجارہاہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے گزشتہ دنوں سندھ میں تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے اور زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم کی سہولت فراہم کرنے کیلئے صوبے کے مختلف مقامات پر2 ہزار نئے سرکاری اسکول قائم کرنے اور ان اسکولوں کیلئے 6 ہزار اساتذہ بھرتی کرنے کا اعلان کیاتھا ،وزیر اعلیٰ کے اس اعلان سے اساتذہ کو یہ امید بندھ گئی تھی کہ نئے اساتذہ کی بھرتی اور نئے اسکولوں کے قیام کے اس اعلان پر عمل کی صورت میں ان کی ترقی کے رکے ہوئے معاملات بھی طے ہوجائیں گے اور بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع میسر آسکیں گے،وزیر اعلیٰ کے اعلان کے مطابق نئے اسکولوں کے قیام اور اساتذہ کی بھرتی کا یہ عمل مارچ میں پورا کرلیاجاناتھا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد ،اب تک اس اعلان پر عملدرآمد کی جانب کوئی پیش رفت نہیں کی گئی اور کسی نئے اسکول کے قیام کیلئے پہلی اینٹ بھی نہیں رکھی جاسکی ہے ،اور نہ ہی نئے اساتذہ کی بھرتی کیلئے کوئی پیش رفت سامنے آسکی ہے۔ حکومت مخالف حلقوں کاکہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ کا یہ اعلان اپنی جگہ موجود ہے اور حکومت انتخابات قریب آتے ہی انتخابات جیتنے کیلئے اپنے من پسند اور ایسے بااثر لوگوں کو اسکولوں کی تعمیر کے ٹھیکے دینے کااعلان کردے گی جو انتخابات جیتنے میں حکمران پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی مدد کرسکیں یعنی جن کی حمایت اور مالی اعانت کے ذریعے حکمراں پارٹی کے امیدوار ایک دفعہ پھر اسمبلی میں واپس آسکیں اسی طرح مختلف علاقوں کے بااثر پارٹی رہنمائوں کو اساتذہ کی اسامیوں کے کوٹے دئے جائیں گے تاکہ وہ نوجوانوں کو ملازمت کا لالچ دے کر ان سے انتخابی خدمات لے سکیں اور اس طرح ایک دفعہ پھر صوبے میں پارٹی کی حکومت کے قیام کویقینی بنایاجاسکے۔
حکمراں جماعت کے مخالفین کی یہ بات کس حد تک درست ہے اس بارے میں اگرچہ کوئی تبصرہ نہ کرنا ہی بہتر ہے لیکن موجودہ صورت حال کے پیش نظر عام آدمی کے سامنے مخالفین کے ان الزامات کو درست تسلیم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔اب اس بات کاانحصار متعلقہ محکمے کے ارباب اختیار اور بڑی حد تک وزیر تعلیم اور خود وزیر اعلیٰ سندھ پر ہے کہ وہ مخالفین کی ان باتوں اور الزامات کو غلط ثابت کریں اور محکمہ تعلیم کی حالت بہتر بنانے کیلئے بلاامتیاز کارروائی کرکے محکمہ میں موجود خامیوں کو دور کرنے اور محکمہ کو دیمک کی طرح چاٹنے میں مصروف کالی بھیڑوں کا صفایا کرنے کیلئے پر توجہ دیں۔
ایچ اے نقوی
انتخابات قریب آتے ہی