ایک افسر6عہدے،میٹرک بورڈ میں اندھیر نگری چوپٹ راج
شیئر کریں
(رپورٹ:ڈاکٹر فہیم دانش)میٹرک بورڈ میں اندھیر نگری چوپٹ راج ‘ ایک افسر کے پاس بیک وقت چھ عہدے ‘چیئرمین بورڈ کے منظورنظر پر نوازشات کی برسات دیگر افسران میں کھلبلی مچ گئی، تفصیلات کے مطابق ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی میں بدعنوانیوں کے ساتھ ساتھ اقربا پروری بھی بام عروج پر پہنچ چکی ہے بورڈ کے گریڈ17کے افسر حبیب اللہ سواگ پر چیئرمین بورڈ سید شرف علی شاہ نے عنایات کی برسات کردی ہے، مذکورہ افسر جو کہ اسسٹنٹ کنٹرولر کے عہدے پر تعینات ہے ڈپٹی کنٹرولر امتحانات کے عہدے کا چارج بھی دے رکھا ہے جس کے لیے چیئرمین سے گریڈ 18 میں ترقی حاصل کی ہے، اس کے علاوہ انچارج ٹرانسپورٹ اور پیٹرول انچارج جنریٹر اور ڈیزل انچارج اوٹی کلچرل گارڈن انچارج میٹرک سائنس کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات بھی اس کے سپرد ہیں، چیئرمین کے خاص آدمی ہونے کے سبب دیگر ملازمین بھی اس کے رعب میں رہتے ہیں، ادارے کے بیشتر ملازمین کو اس سے متعدد شکایت ہیں، لیکن کوئی بھی اس کی شکایات چیئر مین سے نہیں کرتا کہ یہ چیئرمین کا خاص الخاص ہے، جبکہ جو ملازمین حبیب اللہ سواگ کے معاملات سے اختلاف کرتے ہیں ان کو حبیب اللہ چیئرمین کے پاس بھی پیش کرچکا ہے۔ اس ضمن میں ملازمین ڈر اور خوف کے عالم میں رہتے ہیں ان کااندرون خانہ شدید احتجاج بھی سامنے آیا ہے، علاوہ ازیں حبیب اللہ سواگ نے بورڈ پر مکمل دسترس قائم کرنے کیلیے مستقبل کی بھرپور پلاننگ کررکھی ہے اس نے اپنے بیٹے امان اللہ کو بورڈ کے کمپیوٹرسیکشن میں ڈیلی ویجز پر بھرتی کروارکھا ہے، جبکہ افتخار نامی شخص جو کہ بورڈ آف یونیورسٹی کلفٹن میں تعینات ہے اس کو بورڈ کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ میں بحیثیت انچارج لانے کی تیاری بھی کررکھی ہے اس مقصد کے حصول کیلیے اس نے بورڈ کے آئی ٹی مینیجر عدیل کو اس سازش کے ذریعے نوکری سے برخاست کروایا، ان تمام تقرری کے بعد بورڈ کے انتہائی حساس شعبے پر اس کا قبضہ ہوگا ۔بورڈ کے تحت جاری نویںدسویں کے سالانہ امتحانات میں نقل کا بازار گرم کرنے اور امتحانی مراکز کی فروخت میں بھی مبینہ طور پر حبیب اللہ سواگ کا ہاتھ ہے، نوے فیصد امتحانی مراکز کی تبدیلی بیس ہزارسے تیس ہزار روپے لے کر کی گئی ہے، جبکہ خلاف ضابطہ 120 گز کے رہائشی علاقوں میں قائم اسکولوں کو امتحانی مراکز بنانے کی غرض سے کم از کم پچاس سے ساٹھ ہزار روپے لیے گئے ہیں، ان امتحانی مراکز میں بورڈ کی ٹیموں کے ساتھ بد سلوکی بھی کی گئی ہے جس کی شکایت کے باوجود ان مراکز کے سربراہان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔