انتخابی نشان اور سیاستدان
شیئر کریں
شیڈول کے مطابق تو2018 انتخابات کا سال ہے لیکن مرغ باد پیما بتا رہا ہے کہ انتخابات2017 میں بھی ہو سکتے ہیں، مرغ باد پیما کا کام ہی ہوا کا رخ بتانا ہوتا ہے اس میں سیاسی وغیر سیاسی ہواو¿ں کا فرق نہیں ہوتا۔ ایک جانب پیپلزپارٹی کے جیالے میاں نواز شریف کے سندھ کے دوروں پر سیخ پا ہیں اور اسے سیاسی مفاہمت کے نام پر ہونے والی سیاسی جاگیر کی تقسیم کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں لیکن دوسری جانب پہلے بھٹو زرداری نے پنجاب میں ناکہ لگایا اور اب آصف زرداری پنجاب فتح کرنے چلے ہیں۔ کون کہاںکتنا کامیاب ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا، اس فتح اور شکست سے عوام کو کیا فائدہ پہنچے گا اصل سوال یہ ہے۔ راقم نفسیات کاطالب علم ہے، زندگی کے 61 گرم وسرد موسم دیکھ چکا ہے، خزاں کا ذکر غیر مناسب ہے اور پاکستان میں متوسط طبقہ کے لیے بھی بہار نہیں آتی، یوں ان دو موسموں کا حوالہ نہیں دیا۔ قارئین عمر پر نہ جائیں، مسلمان تو ہر وقت حصول علم کے لیے سرگرداں رہتا ہے کہ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ ماں کی گود سے لحد کی آغوش تک علم حاصل کرو۔ نفسیات انسان کا ظاہر نہیں باطن بیان کرتی ہے۔
ایک دور تھا کہ بچے کھلونے کے طور پر گیند بلا، فٹبال اور ہاکی پسند کیا کرتے تھے پھر وقت بدلا اور بچوں کی پسند بھی۔اب بچوں کے پسندیدہ کھلونے کلاشنکوف، ماو¿زر اور ریپیٹر ہیں۔ یہی حال سیاسی قائدین کا ہے ،پہلے سیاسی جماعتیں انتخابی نشان کے طور پر گلاب کا پھول ،لالٹین اور ترازو پسند کرتی تھیں پھر 70 میں ہونے والے انتخابات میں ہتھیار بھی انتخابی نشان بنائے گئے۔ پیپلزپارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو نے تلوار پسند کی تو عوامی مسلم لیگ کے شیخ مجیب الرحمن کشتی ،تلوار کشت وخون کی علامت اور کشتی دریاو¿ں کے خطے میں نقل وحمل کا ذریعہ ۔ان دو پارٹیوں کے ساتھ جماعت اسلامی نے ترازو کا نشان چنا تھا جو عدل وانصاف کی علامت ہے۔ مسلم لیگ اس وقت بھی کئی دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی، یوں ہر مسلم لیگ جو کہ دراصل قائدین کے انا کے بت کی پیداوار تھی، اس نے اپنے اپنے قائد کے افتاد طبع کے مطابق ہی انتخابی نشان چنا تھا۔77 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے تلوار کے نشان کے ساتھ اور 9 جماعتوں کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد نے ہل کے نشان کے ساتھ الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ تلوار کی تعریف بیان کی جا چکی ہے ،ہل بھی انسانوں کی زندگی کے لیے اہم ترین اوزار کی حیثیت رکھتا ہے کہ ہل کے بغیر کاشت کا تصور بھی ممکن نہیں ۔ہل چاہے بیلوں کی جوڑی کے ذریعہ چلایا جانے والا ہو یا ٹریکٹر کے ذریعہ ہل ہل ہی ہوتا ہے، زندگی کی اہم ترین ضرورت پوری کرنے کا ذریعہ۔
1988 کے انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے تلوار ،ترازو اور ہل کے نشانات کو فہرست سے خارج کر دیاتھا، تلوار کی جگہ تیر نے لے لی تھی پیپلزپارٹی نے ان انتخابات کے لیے تیر کو اپنا نشان بنایا۔ اس وقت مسلم لیگ (نواز) وجود میں نہیں آئی تھی اور نواز شریف جونیجو لیگ کا حصہ تھے، مسلم لیگ جونیجونے ان انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا تھا اور انتخابی نشان سائیکل تھا ۔1993 کے انتخابات میں منظرنامہ تبدیل ہوچکا تھا، اسلامی جمہوری اتحاد اپنا وجود کھو چکا تھا یوں انتخابی نشانات کا معاملہ ازسرنو آیا اور مسلم لیگ جو اب نواز لیگ بن چکی تھی ،نے شیر کے نشان کا انتخاب کیا۔ ایم کیو ایم نے جو سندھ کی دوسری بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ،1988 سے ہی پتنگ کو اپنا انتخابی نشان بنایا۔
پیپلزپارٹی نے 1970 اور 1977 کے انتخابات تلوار کے نشان پر لڑے، 1970 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی سندھ ،بلوچستان ،پنجاب اور شمال مغربی سرحد (موجودہ کے پی کے)جو ملک کا مغربی بازو تھا، میں واضح اکثریت حاصل کی تھی۔ لیکن یہ اکثریت سندھ اور پنجاب کی بنیاد پر تھی، شمال مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان سے قومی اور صوبائی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی نمائندگی صفر تھی۔جب 1971 میں 25 مارچ کی خون آشام رات کے بعد سورج طلوع ہوا تو ڈھاکہ آپریشن جس میں عوامی مسلم لیگ کے دعویٰ کے مطابق 25 ہزار لیکن آزاد ذرائع کے مطابق تقریباً500 افراد کی ہلاکت کی خبروں پر پی پی کے چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا تھا کہ اللہ کا شکر ہے پاکستان بچ گیا،تب کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں تھا کہ خون بہا کر لاشیں گرا کر دل جیتے جا سکتے ہیں؟ بھٹو کے منہ میں خون آشامی تھی جس کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد کی شہادت پر بھی کیا اور خواجہ رفیق احمد سمیت فکس اپ کا نشانہ بننے والے ہر شخص کی شہادت پر ان کا انداز ظالمانہ ہوتا تھا ۔یہ بھٹو ہی تھے جس نے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی دم توڑتی چنگاری کو آتش فشاں بنایا۔ 1972 کا آپریشن کس کو یاد نہیں اس ہی دور کے لگائے گئے زخم آج ناسور بن چکے ہیں، اب بھی وقت ہے کہ ان کا علاج نشتر نہیں مرہم سے کیا جائے۔
عوامی مسلم لیگ کے شیخ مجیب الرحمن صلح جو اور معاملات کو کنارے لگانے والے شخص تھے، یوں ان کا انتخابی نشان کشتی تھا۔ اتھاہ گہرے پانیوں میں کنارے تک بحفاظت پہنچنے کی امید کا مرکز کشتی۔ جماعت اسلامی نے عدل وانصاف کی علامت ترازو کو اپنا انتخابی نشان قرار دیا۔1988 میں منظرنامہ بدل چکا تھا، اب پی پی کا نشان تلوار نہیں تیر تھا جو پارٹی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو سے نصرت بھٹو کی طرف منتقل ہونے اور عملاً بے نظیر بھٹو کے ہاتھوں میں ہونے کے باوجود اسی ذہنی کیفیت کا شکار تھی۔ ان انتخابات میں ایم کیو ایم پہلی مرتبہ پارٹی کے طور پر حصہ لے رہی تھی اور اس کے قائد نے بھی اپنی افتاد طبع کے باعث انتخابی نشان کے طور پر پتنگ کا انتخاب کیا۔ پتنگ کتنی بھی بلندی پر اُڑتی رہے لیکن ڈور اُڑانے والے ہاتھوں میں ہی رہتی ہے، 22اگست 2016 تک ایم کیو ایم کے ایم این ایز ،ایم پی ایز اور سینیٹر کا یہی حال تھا۔ لیکن22 اگست کی را ت سانحہ کچھ ایسا تھا کہ پتنگ کٹ گئی اور جب پتنگ کٹتی ہے تو پھر ڈور والا صرف ڈور لپیٹ ہی سکتا ہے ۔1993 کے انتخابات سے مسلم لیگ نواز نے شیر کا انتخابی نشان چنا تھا جس کے بعد کئی واقعات شیر کی درندگی کی مثال سناتے ہیں، سانحہ ماڈل ٹاو¿ن ہو یا ٹارگٹ کلرز کو سیاسی اتحاد ی بنانا، مسلم لیگ نے شیر کی فطرت کا ہی مظاہرہ کیا ہے۔ شیر کی ایک فطرت یہ بھی ہے کہ شکار میں سے ایک مرتبہ جتنا کھا سکتا ہو کھالیتا ہے باقی شکار دیگر گوشت خور جانوروں کے لیے چھوڑ دیتا ہے اور گیڈر شیر کے چھوڑے اس شکار سے ضیافت اُڑاتے ہیں ،یہ سرکس کا شیر ہے جو کچھ ملے خود ہی کھا جاتاہے ۔(دیگر جماعتوں کے انتخابی نشان پر تبصرہ آئندہ )
٭٭….٭٭