جعلی ادویہ سازو فروخت کنندگان اور سرکاری عہدیداروں کے گٹھ جوڑ سے مقدس شعبہ بدنام
شیئر کریں
(رپورٹ: باسط علی) ادویہ سازی اور ادویہ فروخت کا کاروبار دراصل ایک بھیانک مافیا کا روپ دھار چکا ہے۔ انسانی جانوں اور رشتوں ناطوں کے احساسات و جذبات سے جڑا صحت کا شعبہ ایک مقدس نوعیت کا حامل ہے مگر اِسے سستے کاروباری مفادات کے لیے استعمال کرنے والے مافیا نے مفادات اور دولت بٹورنے کا ایسا خطرناک جال بنادیا ہے جس میں مریض ایک صارف بن گیا ہے۔ اور اس حیثیت میں کاروباری مفادات رکھنے والے اس سفاک مافیا کے دلوں میں کوئی دھڑکن باقی نہیں رہی۔ اُن کے سینوں میں دل کی جگہ دولت کا حساب کتاب رکھنے والا کیلکیولیٹر جگہ بنا چکا ہے۔ مریضوں کی گنتی سے لے کر اُنہیں ادویات ٹھونسنے تک کے اس پورے بکھیرے میں مریض کا علاج نہیں جیب کا وزن دیکھا جاتا ہے۔
پاکستان فارما مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے نام پر غیر معیاری اور جعلی ادویات بنانے والی کمپنیوں کی سرپرستی کرنے والاقیصر وحید ایک طرف تو بریف کیس کھلاڑی اور اس کے سابق باس قلب حسن رضوی کی مدد سے اپنے اس مکروہ دھندے کو فروغ دے رہا ہے تو دوسری جانب مشہور سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کو تحائف دے کر، خوشامد کرکے تصاویر بنوانے کے شوقین اور کچھی گلی مافیا کے سرغنہ غلام ہاشم نورانی کی مدد سے اپنی غیر معیاری اور جعلی ادویات کی پورے ملک میں سپلائی کر وا رہا ہے۔
اور یہ سب فارموسٹیکل کمپنیوں سے لے کر ادویات فروخت کرنے والے گروہ مل جل کر کرتے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان کے اندر غلام ہاشم نورانی تو ایک منفرد مثال ہے جن کے ایک ہاتھ میں مذہب کی چھڑی ہے تو دوسرے ہاتھ میں تعلقات کی دستی گھڑی۔ سستے ، ہلکے اور تحائف بٹورنے والے نامہ نگاروں کی مٹھی گرم کرکے اخبارات میں اپنی جعلی رفاہی خدمات کی پبلسٹی بٹورنے کے شوقین غلام ہاشم نورانی کی پوری زندگی دراصل اس مافیا کی سرپرستی میں گزری ہے۔ دوسری طرف ادویہ سازی کا ایک گھناؤنا عمل ہے۔ جہاں پر قیصر وحید کا نام اُبھرتا ہے۔
فارما انڈسٹری میں ہر قسم کے دونمبر کاموں کے ماہر سمجھے جانے والے قیصر وحید کو بریف کیس کھلاڑی اور کچھی گلی مافیا کے ڈان غلام ہاشم نورانی کی بھرپور معاونت حاصل
ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر( ؟) قیصر وحید نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز تقریبا دو دہائیوں قبل ایک کثیر القومی ادودیہ ساز ادارے میں میڈیکل ریپ کی حیثیت سے کیا۔ شروع سے ہی دولت کو اپنا دین ایمان سمجھنے والے قیصر وحید نے ادویہ سازی اور اس کی فروخت کے داؤ پیچ سیکھنے کے بعد لاہور، کراچی میں بننے والی غیر میعاری ادویات کی فرنچائز لے کر اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ 1992میں قیصر وحید نے گلشن معمار میں پارٹنر شپ پر Medisure لیباریڑیز کے نام سے ایک ادویہ ساز کمپنی قائم کی۔ قیصر وحید کی کمپنی (کمپنی قائم کرنے کے لیے قیصر وحید کے پاس سرمایہ کہاں سے آیا اس کے تفصیلات اگلی اشاعت میں شامل کی جائیں گی) نے جلد ہی ان رجسٹرڈ ادویات بنانے کا دھندا شروع کردیا۔ جس کی شکایت ان کے پارٹنر نے ڈرگ کنٹرول اتھارٹی میں کردی، اس شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے ایک خاتون فیڈرل ڈرگ انسپکٹر نے کچھی گلی میں چھاپہ مار کر Medisure لیباریڑیز اور اس کمپنی میں بننے والی ان رجسٹرڈ ادویات کو سیل کردیا۔ تاہم قیصر وحید نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں پیسے اور اپنے ’ تعلقات ‘ استعمال کرتے ہوئے اس کیس کو دبا دیا۔
قیصر وحید نے گلشن معمار میں پارٹنر شپ پر Medisure لیباریڑیز کے نام سے ایک ادویہ ساز کمپنی قائم کی۔ قیصر وحید کی کمپنی نے جلد ہی ان رجسٹرڈ ادویات بنانے کا دھندا شروع کردیا۔ جس کی شکایت ان کے پارٹنر نے ڈرگ کنٹرول اتھارٹی میں کردی، اس شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے ایک خاتون فیڈرل ڈرگ انسپکٹر نے کچھی گلی میں چھاپہ مار کر Medisure لیباریڑیز اور اس کمپنی میں بننے والی ان رجسٹرڈ ادویات کو سیل کردیا۔
حیرت انگیز طور پر یہ چھاپہ مارنے والی خاتون ڈرگ انسپکٹر کے طرز زندگی میں بھی ایک بہت بڑی تبدیلی آگئی، اس چھاپے سے قبل نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں رہنے والی وفاقی ڈرگ انسپکٹر اس کیس کے بعد ڈیفنس کریک وسٹا میں منتقل ہوگئیں۔ ایک طرف خاتون ڈرگ انسپکٹر پر اتنی مہربانیاں تو دوسری طرف صرف یہی نہیں قیصر وحید کی رشورت کی پیش کش اوردباؤ میں نہ آنے والے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل تنویر عالم کے خلاف جھوٹی رپورٹ کروا کر انہیں گھر بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ پاکستان فارما مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور موجودہ عہدے دار اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پیسے اور طاقت کے زور پر ہٹانے کا گُر خوب اچھی طرح سے جانتا ہے ۔ پاکستان فارما مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے نام پر غیر معیاری اور جعلی ادویات بنانے والی کمپنیوں کی سرپرستی کرنے والاقیصر وحید ایک طرف تو بریف کیس کھلاڑی اور اس کے سابق باس کی مدد سے اپنے اس مکروہ دھندے کو فروغ دے رہا ہے تو دوسری جانب مشہور سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کو تحائف دے کر، خوشامد کرکے تصاویر بنوانے کے شوقین اور کچھی گلی مافیا کے سرغنہ غلام ہاشم نورانی کی مدد سے اپنی غیر معیاری اور جعلی ادویات کی پورے ملک میں سپلائی کر وا رہا ہے۔ فارما انڈسٹری میں ہر قسم کے دونمبر کاموں کے ماہر سمجھے جانے والے قیصر وحید کو بریف کیس کھلاڑی اور کچھی گلی مافیا کے ڈان غلام ہاشم نورانی کی بھرپور معاونت حاصل ہے۔
قیصر وحید نے ادویہ سازی اور اس کی فروخت کے داؤ پیچ سیکھنے کے بعد لاہور، کراچی میں بننے والی غیر میعاری ادویات کی فرنچائز لے کر اپنے کاروبار کا آغاز کیا
عدنا ن رضوی اور قیصر وحید کے ’باہمی مفادات ‘ کا اندازا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عدنان رضوی کی ایما پر قیصر وحید نے ڈرگ ٹیسٹنگ لیباریٹری سندھ کو ٹھیکے پر حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ تاہم اس وقت کے سیکریٹری صحت ڈاکٹر فضل اللہ پیچو ہو نے قیصر وحید کے مجرمانہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے عدنان رضوی کے توسط سے کی گئی اس درخواست کو بھی رد کردیا۔ ڈرگ کورٹ میں مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے داخل ہونے والے فارما انڈسٹری کا ڈان قیصر وحید، جعلی لائسنس اور جعلی ادویات بنانے والوں کی سرپرستی کرنے والا بریف کیس کھلاڑی عدنان رضوی اور اس کا سابق باس قلب حسن رضوی، مشہور شخصیات کے ساتھ تصاویر کھنچوا کر اپنے پروردہ صحافیوں ( جن کے نام مکمل ثبوتوں کے ساتھ جلد ہی شائع کیے جائیں گے ) ا ور ڈرگ ریگولیٹری حکام کو مرعوب کرنے کی گھٹیا حرکات کرنے والا کچھی گلی کا ڈان غلام ہاشم نورانی مل کر نہ صرف شہر قائد بلکہ پورے پاکستان میں دواؤں کی آڑ میں اپنے کالے دھندے کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف تو یہ تین کا ٹولہ ( غلام ہاشم نورانی، عدنان رضوی، قلب حسن رضوی) غریب عوام کو دوا کے نام پر زہر بنانے اور فروخت کرنے والوں کی سرپرستی کر رہا ہے تو دوسری جانب یہ شہر میں فوڈ سپلیمنٹ کے نام پر مہنگے داموں ’اسٹیرائیڈز‘ فروخت کرنے والی کمپنیوں کی سرپرستی بھی کر رہے
ہیں۔ منافقت کی اوج پر موجود غلام ہاشم نورانی کی دُہری شخصیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف تو یہ شہر میں موجود سیاسی اور غیر سیاسی مذہبی جماعتوں اور اداروں کو تقریبات کے لیے چندہ دیتا ہے تو دوسری جانب اس کے زیر سایہ کچھی گلی، ڈینسو ہال، زینت میڈیسن مارکیٹ میں فری سیمپل ( مریضوں کو مفت دینے کے لیے ڈاکٹر حضرات کو دی جانے والی ادویات ) اور سرکاری اسپتالوں میں غریب عوام کے علاج کے لیے دی جانے والی ادویات کی خرید و فروخت کا کام کھُلم کھُلاجاری ہے۔ خاص طور پر زینت میڈیسن مارکیٹ اس کام کا گڑھ سمجھی جاتی ہے۔ قیصر وحید نے صرف جعلی اور غیر معیاری ادویات کے کاروبار کو عروج بخشا بلکہ کاپی رائٹ اور ٹریڈ مارک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی ادویات کے نام رکھے۔ بریف کیس کھلاڑی نے کس طرح طارق روڈ پر واقع ایک کمپنی پر چھاپہ مار کر برآمد ہونے والی جعلی ادویات ی دو سوزوکیوں میں غائب کی، اور کچھی گلی مافیا کے ڈان نے ایسٹرائیڈ پر مبنی اس جعلی فود سپلیمنٹ کو کس طرح فروخت کیا، جعلی ادویہ سازی سے میڈیکل سپریٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز ہونے والے ایک ڈاکٹر کی کرپشن کہانی، یہ سب تفصیلات آئندہ شمارے میں شائع کی جائیں گی۔