سندھ پولیس کے ناکارہ تفتیشی نظام میں بہتری اشد ضروری
شیئر کریں
وحید ملک
سندھ پولیس کے حوالے سے لکھنے والے تو لکھتے ہی رہتے ہیں اور بولنے والے بھی بولتے ہی رہتے ہیں لیکن سندھ پولیس عمل درآمد کے معاملے میں سیاست دانوں کی طرح ٹال مٹول کرتی رہتی ہے ۔اس میں اعلی عہدوں پر فرائض انجام دینے والے افسران کا اتنا زیادہ قصور ہوتا بھی نہیں ہے ،وہ بیچارے تو اس محکمے کے لئے کچھ بہتر کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمیشہ آڑے آتے ہیں ہمارے سیاسی رہنما۔ جن کی اپنی انا، پسند و ناپسند، ضد اور اقرباءپروری سندھ پولیس کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔
سپریم کورٹ سے ڈیمورٹ ہونے والے افسران کا معاملہ کوئی بھی نہیں بھولا ہوگا کہ کس طرح ایس ایس پی رینک رکھنے والے افسران انسپکٹر اور سب انسپکٹر بنا دیئے گئے اور انسپکٹر کس طرح سپاہی بن گئے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ان افسران کو آو¿ٹ آف ٹرن پروموشن دیا گیا تھالیکن اگر اس معاملے کی کھوج کی جائے تو ایک حیرت انگیز انکشاف یہ سامنے آتا ہے کہ ان رینکر افسران کو پروموشن بھی ان ہی پی ایس پی افسران نے دلوایا لیکن جب انہیں ڈیموٹ کیا گیا تو کسی پی ایس پی افسر کو نہ تو کوئی سزا دی گئی اور نہ ہی کوئی تنبیہہ کی گئی ۔حالانکہ انعامی رقوم میں ان پی ایس پی افسران نے بڑا حصہ وصول کیا اور اعلی افسران سے داد و تحسین الگ سمیٹی۔ پولیس کی تفتیش کے بارے میں کیا کہنا کہ پانچ اکتوبر 2016 کو کراچی کی تاریخ کے سب سے بڑے اسلحے کے ذخیرے کو پکڑنے کی دعویدار پولیس نے خود ہی عدالت سے درخواست کردی ہے کہ اس مقدمے کو ہی داخل دفتر کردیا جائے، کیس کے تفتیش کرنے والے افسر کا کہنا ہے کہ اس کیس میں اب تک کوئی گرفتاری نہیں ہوسکی ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں کسی گرفتاری کا امکان ہے، حالانکہ جب عزیز آباد کے علاقے میں نائن زیرو کے قریب واقع ایک مکان پر چھاپہ مار کر اتنی بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد کیا تھا توایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق احمد مہر نے اپنی پریس کانفرنس کے د وران فوری طور پر ایک سیاسی جماعت کو تقریبا ذمہ دار قرار دے دیا تھا اور کہا تھا کہ آئندہ چند روز میں اس حوالے سے اہم گرفتاریاں متوقع ہیں، لیکن وہ چند روز تاحال پورے نہیں ہوئے بلکہ کیس کے تفتیش کرنے والے افسر نے انسداد دہشت گردی کی عدالت جو کہ اس کیس کی سماعت کررہی ہے ، کو درخواست کردی ہے کہ اس کیس کو داخل دفتر کردیا جائے۔ یہ کراچی پولیس کا تفتیش کے حوالے سے ناقص کارکردگی کے حوالے سے کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے، ماضی قریب میں سی ٹی ڈی نے 9 ہائی پروفائل کیسوں میں دو ملزمان عاصم کیپری اور اسحاق بوبی کی گرفتاری بھی پرہجوم پریس کانفرنس میں ظاہر کی تھی اور بظاہر غیر حل شدہ تمام بڑے کیسز ان دونوں ملزمان پر ڈال دیئے تھے حالانکہ ملزم عاصم کیپری کو جب 2013 میں شہید ایس پی اسلم خان نے گرفتار کیا تھا تو اس پر 26 کیسز تھے اور مارچ 2015 میں ان تمام کیسز میں ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے ضمانت پر رہا ہوگیا اور حالیہ گرفتاری کے بعد اس پر 28 کیسز بتائے جارہے ہیں تو اس بات کی گارنٹی کون سا پولیس افسر لے گا کہ ملزم ناقص تفتیش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوبارہ ضمانت پر رہا نہیں ہوجائے گا۔