سفر یاد۔۔۔قسط20
شیئر کریں
شاہد اے خان
ہمعجیب شش وپنچ میں پڑے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر کااسسٹنٹ دروازے کے بیچ میں کھڑا ہمیں گھور رہا تھا۔ ہم نے کہا ہماری شرٹ ڈاکٹر کے کمرے میں ہے ہمیں وہ لینی ہے۔ اسسٹنٹ بولا واپس جاتے ہوئے آپ شرٹ پہن کر ہی جائیں گے ابھی جائیں یورین پاس کریں، ہم نے کہا بھائی تم خود ہی شرٹ لادو ہمیں ضروری کام ہے۔ اسسٹنٹ غصے میں آگیا کہنے لگا جلدی کرو ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں تمہارے علاوہ اور بھی لوگ ہیں جن کا میڈیکل ہونا ہے اس لئے جلدی کرو۔ ناچار ہم واش روم کی جانب چل دئے۔ ہم نے فوری وطن واپسی کے جتنے خواب دیکھے تھے سب چکنا چور ہوا چاہتے تھے۔ میڈیکل میں پاس ہونے کا مطلب تھا اقامہ بننا اور اقامے کا مطلب تھا تین سال کی قید با مشقت۔ یہ ایسی قید ہوتی جس میں ہم نے کسی جیل کے چھوٹے سے سلاخوں لگے کمرے میں نہیں رہنا تھا بلکہ یہ کیمپ اور کالج کے درمیان دن رات کرنے کی سزا تھی، بظاہر ہم آزاد ہوتے لیکن ایک غیر مرئی زنجیر ہمارے پیر جکڑے رکھتی۔ اپنے گھر میں کوئی ایمرجنسی ہوجاتی تو کیا ہوتا، کیا ہم کوگھر جانے کیلئے پاسپورٹ مل جاتا۔ لگتا تو ایسا تھا کہ کمپنی تین سال سے پہلے واپسی کا ٹکٹ اور پاسپورٹ دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ کیونکہ کمپنی کا کہنا تھا کہ اس نے ہمارے ویزے اور ٹکٹ کے لئے پانچ ہزار ریال خرچ کیے ہیں اور کمپنی اپنے پیسے ہماری تنخواہ میں سے ہر ماہ ایک مخصوص رقم کاٹ کر پورے کر رہی تھی تو اگر ایک بار ایمرجنسی میں ہی ہم کو یا کسی بھی کارکن کو پاسپورٹ واپس کردیا جاتا تو کمپنی کے پیسے رسک پر آجاتے اور اگر وہ کارکن واپس نہ آتا تو کمپنی اپنے پیسے کس سے وصول کرتی۔ غلامی کی یہ ایک جدید ترین شکل ہے جو خلیجی ملکوں میں رائج ہے۔ یہاں آنے کے بعد بندہ اپنے کفیل کے مکمل رحم وکرم پر ہوتا ہے، کسی کو قسمت سے اچھا کفیل مل گیا تو سمجھو اس کی زندگی کچھ آرام و سکون سے بسر ہوجائے گی ورنہ نوکری کے لئے یہاں آنے والے خود پر بیتنے والے واقعات اور اپنے دیگر ساتھیوں کا احوال بتاتے ہیں تو خوف اور دکھ ان کی آنکھوں سے چھلکنے لگتا ہے۔ سعودی عرب میں کفالت سے متعلق قانون کے مطابق کوئی بھی غیرملکی مزدور اپنے کفیل کی مرضی کے بغیر کوئی نئی ملازمت بھی اختیار نہیں کر سکتا، جب کہ کنٹریکٹ کی مدت مکمل ہونے سے قبل اسے اپنے کفیل کو بتانا پڑتا ہے کہ وہ ملازمت تبدیل کرنا چاہتا ہے، بعض تارکین وطن اس پورے چکر میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ آج کل عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی کے سعودی عرب پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بحران کی شکار سعودی معیشت، جس کا بڑا حصہ تیل کی آمدن پر مشتمل ہے، ہزاروں تارکین وطن کی ملازمتیں ختم کر چکی ہے۔ کئی ہزار جیسے تیسے اپنے ملکوں کو واپس جا چکے ہیں جبکہ ہزاروں غریب مزدور سعودی عرب میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔
ہم یورین پاس کرکے واپس آئے، بوتل اسسٹنٹ کے حوالے کی جس نے اس پر پرچی لگا کر ایک ٹرے میں رکھ دیا۔ ہماری حالت اس وقت ہارے ہوئے جواری کی طرح ہو رہی تھی جس نے اپنی سب سے قیمتی چیز داو¿ پر لگا دی ہو اور آخری باری میں پانسہ پلٹ جائے، قسمت اس کے خلاف ہو جائے۔ ہمارے پتے پٹ چکے تھے۔ وطن واپسی کا ٹکٹ ہماری انگلیوں کے بہت پاس آکر ایک دم غائب ہو گیا تھا۔ ہارا ہوا جواری۔۔ جیسے کوئی بھکاری۔۔ اے سائبان دیکھ لے۔۔ قسمت کی وفا داری۔۔ ہم تھکے ہوئے قدموں سے ڈاکٹر کے کمرے میں گئے ،اپنی شرٹ پہنی اور دروازے سے باہر نکل آئے۔ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتے ہوئے اسپتال کے ریسیپشن پر پہنچے، سب کچھ ویسا ہی تھا جیساہم کچھ دیر پہلے چھوڑ کر گئے تھے، نرسیں بھی ویسے ہی یہاں وہاں اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف تھیں۔ ہم نے انہیں آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا، کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھابلکہ اپنا ہونا بھی برا محسوس ہو رہا تھا، کسی نے سچ ہی کہا ہے، دل میں مزہ نہ ہو تو کسی چیز میں مزہ نہیں آتا۔ ہم اسپتال سے باہر نکل کر پارکنگ ایریا میں آگئے۔ گاڑی وہاں نہیں تھی جہاں ہمارے ڈائیور نے کھڑی کی تھی، پارکنگ کافی بڑی تھی ہم نے اپنی گاڑی کی تلاش میں پارکنگ کی خاک چھاننی شروع کی ، مگر نہ گاڑی نظر آئی نہ ڈرائیورکا کوئی نشان ملا۔ ہمارے ڈپریشن میں اضافہ ہو رہا تھا، تیز دھوپ میں پارکنگ میں ادھر سے ادھر آتے جاتے حالت اور بر ی ہو رہی تھی۔ پیاس نے بھی تنگ کرنا شروع کردیا تھا، ہم نے کسی بقالے سے پانی کی بوتل لینے کا سوچا اور پارکنگ سے باہر نکل کر بقالے کی تلاش میں لگ گئے۔۔۔ جاری ہے
٭٭