میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سانحۂ کربلا اور شہادت امام حسین ص

سانحۂ کربلا اور شہادت امام حسین ص

ویب ڈیسک
هفته, ۳۰ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

(نویں اور آخری قسط)
سبط ابن جوزیؒ نے روایت کیا ہے کہ: ’’ایک بوڑھا آدمی امام حسین ص کے قتل میں شریک تھا، وہ دفعتاً نابینا ہوگیا، لوگوں نے اُس سے اس طرح اچانک نابینا ہونے کی وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ: ’’میں نے رسول اللہا کو خواب میں دیکھا کہ آستین مبارک چڑھائے ہوئے ہیں، ہاتھ میں تلوار ہے، اور آپ ا کے سامنے چمڑے کا وہ فرش ہے جس پر کسی کو قتل کیا جاتا ہے، اور اِس پر قاتلانِ حسینص میں سے دس (۱۰) آدمیوں کی لاشیں ذبح کی ہوئی پڑی ہیں، اِس کے بعد آپ ا نے مجھے ڈانٹا، اور خونِ حسینص کی ایک سلائی میری آنکھوں میں لگادی، چنانچہ صبح جب میں اُٹھا تو اندھا ہوچکا تھا۔‘‘ (اسعاف)
امام ابن جوزیؒ نے نقل کیا ہے کہ: ’’جس شخص نے امام حسینص کے سر مبارک کو اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکایا تھا،اِس کے بعد اُسے دیکھا گیا کہ اُس کا منہ تارکول کی طرح سیاہ ہوگیا، لوگوں نے اُس سے دریافت کیا کہ: ’’تو تو سارے عرب میں خوش رو آدمی تھا تجھے کیا ہوگیا؟ اُس نے کہا کہ: ’’جس روز سے میں نے امام حسینص کا سر اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکایاہے ، جب ذرا سوتا ہوں تو دو آدمی میرے بازو پکڑتے ہیں اور مجھے ایک دہکتی ہوئی آگ میں لے جاکر ڈال دیتے ہیں اور وہ مجھے جھلس دیتی ہے۔‘‘ چند دن بعد وہ بھی اسی حالت میں مرگیا۔
امام ابن جوزیؒ نے سدی سے نقل کیا ہے کہ: ’’اُنہوں نے ایک شخص کی دعوت کی، مجلس میں یہ ذکر چھڑ پڑا کہ امام حسینص کے قتل میں جو بھی شریک ہوا اس کو دُنیا میں بھی بہت جلد سزا مل گئی ، اُس شخص نے کہا کہ: ’’یہ بالکل غلط ہے، میں خود اُن کے قتل میں شریک تھا، میرا کچھ بھی نہیں بگڑا۔‘‘ یہ شخص مجلس سے اُٹھ کر گھر گیا، اور گھر جاکر جب چراغ کی بتی درست کرنے لگا تو اُس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اور وہ وہیں جل بھن کر راکھ ہو گیا۔ سدی کہتے ہیں کہ: ’’میں نے خود صبح اس کو دیکھا کہ وہ جل بھن کر کوئلہ بن چکا تھا۔‘‘
جس شخص نے امام حسین صکے تیر مارا تھااور پانی نہیں پینے دیاتھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے پیاس کا ایسا عذاب مسلط کیا کہ اُس کی پیاس کسی بھی طرح بجھتی نہ تھی، پانی کتنا ہی پی لیتا، لیکن پھر بھی پیاس سے تڑپتا رہتا ، یہاں تک کہ اُس کا پیٹ پھٹ گیا اور وہ بھی مرگیا۔ (شہید کربلا: ص۱۱۰، ۱۱)
شہادتِ امام حسینص کے بعد یزید کو ایک دن بھی چین کا نصیب نہ ہوا ،اور تمام اسلامی ممالک میں شہدائے اہل بیت کے خون نے شدید مطالبہ پکڑا اور بغاوتیں ہونا شروع ہوگئیں، شہادتِ امام حسینص کے بعد یزید کی زندگی تقریباً دو سال، آٹھ ماہ، اور ایک روایت کے مطابق تین سال اور آٹھ ماہ رہی ، دُنیا ہی میں اللہ تعالیٰ نے اِس کو ذلیل و رُسوا کیا اور اسی ذلت و خواری کی حالت میں وہ ہلاک ہوگیا۔ (شہید کربلا: ص ۱۱)
الغرض قاتلانِ حسینص پر طرح طرح کی آفاتِ ارضی وسماوی کا ایک سلسلہ تو تھا ہی، لیکن واقعہ شہادت سے پانچ ہی سال بعد ۶۶ ؁ھ میں جب مختار نے قاتلانِ حسینص سے قصاص لینے کا ارادہ ظاہر کیا تو عام مسلمان اس کے ساتھ ہوگئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں اس کو یہ تقویت ہوگئی کہ کوفہ اور عراق پر اس کا تسلط ہوگیا، اُس نے اعلانِ عام کردیا کہ: ’’قاتلانِ حسینص کے سوا سب کو امن دیا جاتا ہے۔‘‘ اور قاتلانِ حسین صکی تفتیش و تلاش پر اُس نے اپنی ساری قوت و طاقت خرچ کردی، اور ایک ایک کو گرفتار کرکے سب کو قتل کردیا،حتیٰ کہ ایک روز میں دو سو اڑتالیس (۲۴۸) آدمی اِس جرم میں قتل کیے گئے کہ وہ قتل حسین صمیں شریک تھے،اِس کے بعد خاص لوگوں کی تلاش اور گرفتاری شروع ہوئی۔
عمرو بن حجاج زبیدی پیاس اور گرمی میں بھاگا، پیاس کی وجہ بے ہوش ہوکر گر پڑا، اور اسی حالت میں ذبح کردیا گیا۔شمر ذی الجوشن جو امام حسینص کے بارے میں سب سے زیادہ شقی اور سخت تھا اس کو قتل کرکے اِس کی لاش کتوں کے آگے ڈالی گئی۔عبد اللہ بن اسید جہنی، مالک بن بشیر بدی اور حمل بن مالک کا محاصرہ کرلیا گیا، اُنہوں نے رحم کی اپیل کی، مختار نے کہا: ’’ظالمو! تم نے جگر گوشۂ رسول پر رحم نہ کھایا، تم پر کیسے رحم کھایا جائے؟ چنانچہ سب کو قتل کردیا گیا۔ مالک بن بشیر جس نے امام حسینص کی کلاہِ مبارک اُٹھا رکھی تھی اُس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر کاٹ کر میدان میں ڈال دیا گیا اور وہیں تڑپ تڑپ کر مرگیا۔عثمان بن خالد اور بشیر بن شمیط کہ جنہوں نے امام حسینص کے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلص کے قتل میں یزیدی فوج کی مدد کی تھی ، اِن کو قتل کرکے جلا دیا گیا۔عمرو بن سعد جو امام حسینص کے مقابلہ پر لشکر کی کمان کر رہا تھا، اس کو قتل کرکے اس کا سر مختار کے سامنے لایا گیا، اور مختار نے اس کے لڑکے حفص کو پہلے ہی سے اپنے دربار میں بٹھا رکھا تھا، جب یہ سر مجلس
میں آیا تو مختار نے حفص سے کہا کہ: ’’تو جانتا ہے کہ یہ سر کس کا ہے؟۔‘‘ اُس نے کہاکہ: ’’ہاں! اور اِس کے بعد مجھے بھی اپنی زندگی پسند نہیں۔‘‘ مختار نے حکم دیا کہ: ’’ اِس کا بھی سر قلم کردیا جائے۔‘‘ چنانچہ اِس کو قتل کردیا گیا ۔ اِس کے بعد مختار نے کہاکہ: ’’عمرو بن سعد کا قتل تو امام حسین صکے قتل کے بدلے میں ہے اور حفص کا قتل علی بن حسینص کے بدلے میں ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ پھر بھی برابری نہیں ہوئی، اگر میں تین چوتھائی قریش کو بھی بدلہ میں قتل کردوں تب بھی امام حسینص کی ایک اُنگلی کا بھی بدلہ نہیں ہوسکتا۔‘‘حکیم بن طفیل کہ جس نے امام حسین صکے تیر مارا تھااِس کا بدن تیروں سے چھلنی کردیا گیایہاں تک کہ وہ بھی تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوگیا۔زید بن رفاد نے امام حسینص کے بھتیجے اور مسلم بن عقیلص کے صاحب زادے عبد اللہص کے تیر مارا، اُس نے ہاتھ سے اپنی پیشانی چھپائی، تیر پیشانی پر جا لگااور ہاتھ پیشانی کے ساتھ بندھ گیا، اِس کو گرفتار کرکے اوّل اِس پر تیر اور پتھر برسائے گئے پھر زندہ جلادیا گیا۔ سنان بن انس کہ جس نے امام حسینص کا سر مبارک تن سے جدا کیا تھا کوفہ بھاگ گیا اِس کا گھر منہدم کردیا گیا۔(شہید کربلا: ۱۱۴)
عبد الملک بن عمیر کوفی کا بیان ہے کہ جس وقت حضرت مصعب بن زبیرص کا سر لاکر عبد الملک بن مروان کے سامنے رکھا گیا تو اس وقت میں عبد الملک کے پاس کوفہ کے مشہور محل ’’دار الامارہ ‘‘ میں موجود تھا ،عبد الملک نے مجھے لرزہ اندام دیکھ کر کہا : ’’ تجھے کیا ہوا ؟ ‘‘ میں نے کہا :’’ اے امیر المؤمنین ! اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت کرے ، ایک مرتبہ میں اسی محل میں اسی جگہ عبید اللہ بن زیاد کے ساتھ موجود تھا ، تو میں نے اس جگہ امام حسین ص کا سر مبارک عبید اللہ بن زیاد کے سامنے رکھا دیکھا ، پھر ایک مرتبہ اسی محل میں اسی جگہ مختار بن ابی عبید ثقفی کے ساتھ تھا ، تو عبد اللہ بن زیاد کا سر مختار کے سامنے رکھا دیکھا، اس کے بعد ایک مرتبہ اسی محل میں اسی جگہ میں حضرت مصعب بن زبیر ص کے ساتھ تھا ، تو مختار بن ابی عبید کا سر مصعب ص کے سامنے رکھا دیکھا، اب کی بار میں آپ کے ساتھ مصعب بن زبیر صکا سر آپ کے سامنے رکھا ہوا دیکھ رہاہوں۔
عبد الملک کا بیان ہے کہ: ’’ یہ سنتے ہی عبد الملک بن مروان اُس جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا اور جس محراب میں ہم بیٹھے ہوئے تھے ، اِس کو ڈھا دینے کا حکم نافذ کردیا ، چنانچہ ا ِس کے بعد اِس گھر کو گرا دیا گیا ۔‘‘( وفیات الاعیان : ج ۱ ص ۴۰۵ )
حضرت ابو ہریرہ ص کو شاید اِس فتنہ کا پہلے سے ہی علم ہوگیا تھا، اس لئے وہ آخری عمر میں دُعاء کیا کرتے تھے کہ: ’’یا اللہ! میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں ’’ساٹھویں سال‘‘ اور ’’نوعمروں کی امارت‘‘ سے ۔‘‘ ہجرت کرکے ساٹھویں سال ہی یزید پلید جیسے نو عمر کی خلافت کا قضیہ چلا اور یہ فتنہ پیش آیا۔
(ختم شد)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں