لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا-پاکستان کو دھمکی دینے والے بھارت کی اپنی 2 ریاستوںمیں آبی جنگ چھڑ گئی
شیئر کریں
بھارتی صوبے کرناٹک کا دریائے کاویری خشک ہوگیا‘کسانوں کو یہ خوف کھائے جارہاہے کہ بارش نہ ہونے کی صورت میں ان کی کھڑی فصل سوکھ کر تباہ ہوجائے گی٭ بھارتی سپریم کورٹ
نے کرناٹک کو دریا کا پانی تامل ناڈو کوبھی دینے کے احکامات دیے تھے ۔جس کے بعد کسان سڑکوں پر نکل آئے تھے ‘ایک 22سالہ لڑکی کی قیادت میں مظاہرین نے 42بسوں کو آگ لگادی
(پربھو ملیکر جونان)
جنوبی بھارت کے صوبہ کرناٹک میں قحط کی صورت حال پیداہوگئی ہے،بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے کرناٹک کے بعض اضلاع جس میںدریائے کاویری کے کنارے واقع ضلع ماندیا شامل ہے ،میں کھڑی فصلیں سوکھ رہی ہیں۔ 31اگست کی رات کو ماندیہ میں شدید بارش ہوئی جس سے علاقے کے کاشتکاروں کے چہرے کھل اٹھے لیکن صبح ہوئی تو چمکتی ہوئی دھوپ نکل چکی تھی اوررات کوہونے والی بارش سے زمین پوری طرح سیراب نہیں ہوسکی تھی اس کے بعد سے علاقے کے کسان مزید بارشوں کاانتظار کرتے کرتے اب ناامیدی کاشکار ہورہے ہیںاور ان کو یہ خوف کھائے جارہاہے کہ بارش نہ ہونے کی صورت میں ان کی کھڑی فصل سوکھ کر تباہ ہوجائے گی اور انھوں نے فصلوں کی بوائی کیلیے بیج اور کھاد پر جو خرچ کیا ہے اس کاقرض چکانا بھی ان کیلیے ممکن نہیں رہے گا۔
کرناٹک کاضلع ماندیا چاروں طرف سے نہروں سے گھرا ہوا ہے لیکن بارشیں نہ ہونے سے نہ صرف یہ کہ تمام نہریں خشک ہوچکی ہیں بلکہ ان نہروں کوپانی کی فراہمی کا ذریعہ دریائے کاویری جو کہ اس صوبے کامنہ زور دریا تصورکیاجاتاتھا بھی اب خشک ہوچکا ہے۔
یہ وہی دریائے کاویری ہے جس کے پانی کے تنازع پر کرناٹک اور تامل ناڈوو کے درمیان باقاعدہ جنگ ہوچکی ہے ،اس جنگ کاآغاز سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ہوا تھا جس میں بھارتی سپریم کورٹ نے کرناٹک کو دریا کا پانی تامل ناڈو کوبھی دینے کے احکامات دیے تھے ۔سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد کرناٹک کے کسان سڑکوں پر نکل آئے تھے کیونکہ ان کاموقف تھا کہ دریائے کاویری میں اب اتنا دم نہیں رہا کہ وہ دو صوبوں کے کسانوں کی ضروریات پوری کرسکے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں صوبے پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔اس صوبے کے لوگوں کی اکثریت کا گزر بسر کاشتکاری پر ہوتا ہے اور انھیں خود اپنے اور اپنے اہل وعیال کیلیے اناج کے ساتھ ساتھ اپنے مویشیوں کیلیے چارے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔اس صورتحال می فصلیں سوکھ جانے کی صورت میںان کے مویشی بھی چارے سے محروم ہوکر موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔کرناٹک اور تامل ناڈوو کے عوام کے شدید احتجاج کے باوجود بھارتی حکمران ان دونوں صوبوںکو کاشتکاری اورپینے کے پانی کی سہولتوں کی فراہمی کیلیے کوئی متبادل انتظام کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔کرناٹک کا ضلع ماندیہ چاول کی کاشت کیلیے مشہور ہے او ر چاول کی کاشت کیلیے پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے کیونکہ چاول وہ فصل ہے جس کاپودا چاہتاہے کہ اس کے پیر یعنی جڑیں پانی میں ڈوبی رہیں اور سر چمکتی ہوئی دھوپ سے دمکتا رہے، لیکن اب چمکتا ہوا سورج اس کے سر کو جھلسا تو رہاہے لیکن اس کی جڑوں کو سیراب کرنے کیلیے پانی کاکہیں پتہ نہیں ہے۔
حکام کاکہنا ہے کہ کرناٹک کے 4اضلاع ماندیہ، میسور ،چمن جانگر اورراما نگر میں نصف اراضی نہری ہے اور نصف کی آبیاری کاانحصار بارشوں پر ہوتاہے لیکن اس مرتبہ نہ تو دریا اور جھیلوں اورنہروں میں پانی ہے اور نہ ہی بارش ہورہی ہے اس لیے چاروں اضلاع کی وسیع عریض قابلِ کاشت اراضی پر دھول اڑ رہی ہے اور ان اضلاع کے کاشتکار مستقبل کے خوف سے لرزہ براندام ہیں۔کیونکہ مقامی حکام نے کاشتکاروں کوصاف صاف بتادیا ہے کہ انھیں کاشت کیلیے اس سال پانی ملنے کاکوئی امکان نہیں ہے۔اگست میں کرناٹک میں بارش کم ہونے اور بعض علاقوں میں بالکل بارش نہ ہونے کی وجہ سے ان اضلاع میں پانی کے 41فیصد سے زیادہ ذخائر ختم ہوچکے ہیںاور دریائے کاویری کا پانی ذخیرہ کرنے کیلیے تعمیر کیے گئے 4ریزروائر بھی تقریبا ً خشک ہوچکے ہیں اور ان میں پانی کی سطح معمول کی نسبت ایک چوتھائی سے بھی کم رہ گئی ہے۔
کرناٹک صوبے کے قدرتی آفات کی مانیٹرنگ کرنے والے ادارے کے سربراہ سری نواس ریڈی کا کہنا ہے کہ لوگوں سے پانی احتیاط سے استعمال کرنے کی اپیل کی گئی ہے کیونکہ ابھی تو کاشت کیلیے پانی نہ ملنے کامسئلہ ہے لیکن بارش نہ ہونے کی وجہ سے اب کرناٹک کے لوگوں کو پینے کیلیے پانی کی فراہمی بھی مشکل ہوجائے گی۔
2ستمبر کو بھارتی سپریم کورٹ نے کرناٹک کی حکومت کو حکم دیا کہ خود بھی زندہ رہو اور دوسروں کو بھی زندہ رہنے دو کے اصول پر عمل کیاجائے اور تامل ناڈوو کوکاویری ندی سے پانی فراہم کیا جائے جس پر کرناٹک نے تامل ناڈو کو 5 دن تک روزانہ 10ہزار مکعب فٹ پانی فی سیکنڈ کی شرح سے فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن 5ستمبر کو سپریم کورٹ نے ایک دوسرے حکم میں کرناٹک کو حکم دیا کہ تامل ناڈو کو 10دن تک روزانہ15ہزار مکعب فٹ پانی فی سیکنڈ فراہم کیاجائے ،بعد میں دریا میں پانی کی کمی کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں ترمیم کرتے ہوئے 20ستمبر تک15 ہزار مکعب فٹ پانی فی سیکنڈ کی جگہ 12 ہزار مکعب فٹ پانی فی سیکنڈ کی رفتار سے فراہم کرنے کاحکم جاری کیاتھا۔اس کے بعد سے کرناٹک کا ماندیہ ضلع احتجاج کا مرکز بن چکا ہے ،پانی کے حصول کیلیے مظاہروں کے دوران متعدد گاڑیوں کو آگ لگادی گئی اور سڑکیں بلاک کردی گئیں جس پر درجنوں افراد کوگرفتار کرلیاگیا لیکن ان گرفتاریوں کے باوجود پانی کے لیے فسادات کاسلسلہ رکنے میں نہیں آرہا او ر بھارتی حکومت پر پانی کی سیاست کرنے کے الزامات عاید کیے جارہے ہیں۔
پانی کے مسئلے پر ہونے والے مظاہروں نے ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پوری دنیا میں مشہور شہر بنگلور کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیاہے جہاں ہنگامہ آرائی اور فسادات کی وجہ سے دفاتر بند کرناپڑے اور ٹریفک کی آمدورفت میں بھی خلل پڑا۔بنگلور پولیس کے مطابق ایک 22سالہ لڑکی مظاہرین کی قیادت کررہی تھی جس نے شہر اور اس کے نواح میں 42بسوں کو آگ لگادی ۔فسادات سے نمٹنے کیلیے پولیس نے ہنگامی صورت حال کااعلان کرتے ہوئے لوگوں کے اجتماع پر پابندی عاید کردی ہے اور فسادیوں سے نمٹنے کیلیے 15ہزار افسران اور اہلکار وں کوتعینات کردیاگیاہے۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے کرناٹک کو تامل ناڈوو کو مزید 7دن تک یومیہ 6ہزار مکعب فٹ پانی فراہم کرنے کاحکم دیاتھا لیکن کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدھر مایا نے یہ حکم تسلیم کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس حکم پر عملدرآمد ممکن نہیں کیونکہ اب صوبے کے پاس اگلے سال مئی تک صرف پینے کی ضرورت کے مساوی پانی باقی رہ گیا ہے۔کرناٹک نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہ کرتے ہوئے تامل ناڈو کیلئے مزید پانی جاری نہیں کیا،خیال کیاجاتاہے کہ سپریم کورٹ کاحکم تسلیم نہ کرنے کے اس فیصلے سے ایک آئینی بحران پیدا ہوگا اور ان دونوں صوبوں کے درمیان تلخیوں میں اضافہ ہوگا جس سے ان دونوں صوبوں میں امن وامان کی صورتحال خراب ہوگی جس سے مرکزی حکومت کوبھی مشکلات کاسامنا کرنا پڑ سکتاہے۔