آئی پی پی سے مہنگے معاہدے عوام کو لے ڈوبے
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ واپڈا پاکستانی قوم پر ڈرون حملے کررہا ہے۔ ساری دنیا میں امیروں سے لے کر غریبوں کو دیا جاتا ہے، پاکستان میں غریبوں سے لے کر امیروں کو دیا جاتا ہے۔ ایک طرف لوگ بھوکے سوتے ہیں اور دوسری طرف مراعات یافتہ طبقے کو 17ارب ڈالر کی مراعات دی جاتی ہیں۔ ہم آئی پی پی کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی چاہتے ہیں۔ ہم سولر پر ٹیکسوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ مفت بجلی استعمال کرنے والے سرکاری ملازموں کی اس سہولت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بیوروکریسی، وزیر مشیراربوں کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن،امیرجماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ بجلی کے بلوں میں اضافے ، ظالمانہ ٹیکسز کے خلاف عوام میں شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم فیصلہ کریں نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بجلی کے بلوں میں ظالمانہ اضافہ اور ناجائز ٹیکسز فوری واپس لیںاور پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کریں ۔تنخواہ دار ملازمین کے ساتھ جاگیردار وں اور وڈیروں پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے ۔سرکاری افسران اور اعلیٰ عہدیداران کی مراعات ختم کی جائے۔ لوگ اب سڑکوں پر آچکے ہیں،اگر اضافہ واپس نہ لیا گیا تو حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی ۔ انہوں نے عوام سے اپیل ہے کہ جماعت اسلامی کے مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا حصہ بنیں، کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اسی ضمن میں جناب سراج الحق،امیر جماعت اسلامی نے بجلی بلوں میں ظالمانہ اضافہ کے خلاف 2ستمبر( ہفتہ) کو ملک گیر ہڑتال کی کال دیتے ہوئے کہا کہ کرپٹ حکومتوں نے کمیشن کیلئے کوئلہ، فرنس آئل اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کے مہنگے معاہدے کیے۔ پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی سابقہ حکومتوں نے آئی ایم ایف سے معاہدے کرکے عوام کے لیے بارودی سرنگیں بچھائیں۔ ان معاہدوں کا نتیجہ تھا کہ نگران کابینہ کی تشکیل سے قبل ہی پٹرول کی قیمت میں 20روپے لٹر اضافہ کردیاگیا۔وکلا و تاجر تنظیموں نے بھی ہڑتال کی حمایت اور اس میں شرکت کا اعلان کیا ہے۔
کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام بجلی کے بلوں میں ظالمانہ اضافے کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔حکومت ظالمانہ اضافے کے خلاف اپنا کوئی کردار ادا نہیں کررہی ۔نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی دانشوارانہ باتوں سے لوگوں کے بجلی کے بل جمع نہیں ہوسکتے۔ متوسط طبقہ سے وابستہ لوگوں کے لیے بجلی کے بھاری بل جمع کروانا مشکل ہوگیا ہے۔دوسری طرف حکمران طبقے میں 90فیصد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کبھی بھی پیٹرول اور بجلی کے بل اپنی جیب سے جمع نہیں کروائے،یہی طبقہ 5ارب روپے کی بجلی مفت استعمال کررہا ہے،حکمران طبقہ جتنا جلد نوشتہ دیوار پڑھ لے اتنا اچھا ہے۔ بجلی کی قیمتیں بڑھنے کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں جو احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اس سے واضح طور پر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عوام اب اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ سے تنگ آچکے ہیں، لہٰذا وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں ایسا نہ ہو کہ عوام گھروں سے نکل کر محلوں کا رخ کریں اور بیرون ملک جانے کا موقع بھی نہ مل سکے۔ حکمرانوں کے لیکچر اب بے اثر ہوچکے ہیں ۔ حکمران طبقہ عوام پر آئی ایم ایف کی ایماء پر بجلی بم گرارہا ہے لیکن ان کی عیاشیاں ختم نہیں ہورہی۔ اس وقت ملک میں معاشی ادارے نہیں طاغوتی ادارے کام کررہے ہیں جو 76سال سے ملک پر مسلط ہیں ۔ عوام دشمن فیصلوں کے نتیجے میں شہریوں کے لیے زندگی گزارنا مشکل کردی گئی ہے۔ 70سال میں اربوں روپے ڈالر ز کے قرضے لینے والوں نے ملک کو تباہ و برباد کردیا ۔حکمران عوام پر اربوں روپے کا بوجھ ڈال کر کہتے ہیں کہ عوام قربانیاں دیں۔حکمران بتائیں کہ عوام تو 70سال قربانیاں دے رہی ہے ، حکمران بتائیں کہ انہوں نے کتنی قربانیاں دیں،عوام جاننا چاہتے ہیں کہ ملک میں موجود بیوروکریٹ، عدلیہ ، اعلیٰ افسران نے کتنی قربانیاں دیں۔
یہ صورتحال ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری اشرافیہ پر ہے جو سیاسی قیادت سے گٹھ جوڑ کر کے اپنے لیے ہر طرح کی سہولیات اور مراعات کا راستہ نکال لیتی ہے اور عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نگران حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر عوام کے جائز مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں ریلیف فراہم کرے ورنہ حالات اس حد تک بگڑ سکتے ہیں کہ پھر وہ کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ گریڈ17 سے 21 تک کے پندرہ ہزار آٹھ سو اکتہر ملازمین ماہانہ 70 لاکھ یونٹس بجلی استعمال کرتے ہیں جبکہ گریڈ ایک سے سولہ تک کے ایک لاکھ تہتر ہزار دو سو ملازمین ماہانہ 33 کروڑ یونٹس استعمال کرتے ہیں۔مفت میں ملازمین کو فراہم کی جانے والی بجلی اور گیس کے پیسے صارفین سے وصول کئے جاتے ہیں۔
دو ہفتے پہلے تک حکومت کے مزے لینے والی پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار میں ہوتے ہوئے عوام کا ہرگز کوئی احساس نہیں تھا اور ان کی جانب سے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے طرح طرح کے جواز پیش کیے جاتے تھے لیکن اب اقتدار کے ایوانوں سے نکلنے کے بعد ان جماعتوں کے رہنما کہیں تو اپنے کارکنوں کو بجلی کے بلوں کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے عوامی احتجاج میں شرکت کی ہدایت کررہے ہیں۔ سولہ مہینے تک جب یہ لوگ حکومت میں تھے اس وقت ان کی کارکردگی نے پوری طرح واضح کردیا کہ انھیں عوام کا کتنا احساس ہے۔
٭٭٭