میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حسین نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی

حسین نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی

ویب ڈیسک
منگل, ۳۰ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیراعظم نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کے رُوبرو اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے، جب کہ اطلاعات کے مطابق جے آئی ٹی نے حسین نواز کو 30 مئی کو دوبارہ طلب کر لیا ہے۔پاناما کیس کی جے آئی ٹی نے وزیراعظم نوازشریف کے صاحبزاد ے حسین نواز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں پیش ہونے کی ہدایت کی تھی جس پر اپنے پہلے ردعمل میں حسین نواز نے جے آئی ٹی کے دو ارکان کی غیر جانبداری پر سوال اٹھاتے ہوئے اپنے اعتراض کی بنیاد سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی لیکن بعد میں انہوں نے عمل کرتے ہوئے حسین نواز جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد پہنچے اور جے آئی ٹی کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرا کے میڈیا سے بات کیے بغیر واپس چلے گئے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے تقریباً دو گھنٹے تک حسین نواز سے پوچھ گچھ کی اور انہیں سوالنامہ بھی فراہم کیا۔ جے آئی ٹی نے حسین نواز سے سوالنامے کے تفصیلی جوابات طلب کرتے ہوئے انہیں 30 مئی کو دوبارہ طلب کر لیا۔قبل ازیں جوڈیشل اکیڈمی پہنچنے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے حسین نواز کا کہنا تھا کہ مجھے جے آئی ٹی کی جانب سے گزشتہ روز نوٹس ملا جس میں 24 گھنٹوں کے اندر پیش ہونے کا کہا گیا، اپنے وکیل فضل غنی ایڈووکیٹ کے ہمراہ جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہو کر اپنا مو¿قف پیش کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے مجھے کسی قسم کا کوئی سوالنامہ پیش نہیں کیا گیا بلکہ صرف پیش ہونے کا کہا گیا۔واضح رہے کہ جے آئی ٹی نے حسین نواز کو اس سے قبل 25 مئی کو طلب کیاتھا جس میں انہیں تمام دستاویزات ساتھ لانے کی ہدایت کی گئی تھی جس پر حسین نواز نے جے آئی ٹی کے 2 ممبران پر اعتراض کرتے ہوئے ایک درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان ممبران کی سیاسی جماعت سے وابستگی ہے۔ وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پاناما کیس میں جے آئی ٹی کی تحقیقات شفاف ہونی چاہیے ۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ حسین نواز کو گزشتہ روز جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا نوٹس ملا اور آج وہ پیش ہو گئے، جس طرح نواز شریف نے تمام آئینی و قانونی حق ادا کیے بالکل اسی طرح حسین نواز بھی آج جے آئی ٹی میں 2 لوگوں پراعتراضات کے باوجود بھی پیش ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات شفاف ہونی چاہیے، حسین نوازکی جانب سے جن لوگوں پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں، سب جانتے ہیں کہ وہ کیسے ہیں، لیکن ہم ان پر سیاست نہیں کرنا چاہتے، فیصلہ تو اب سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے۔دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ (ن) لیگ قانونی اور آئینی اداروں کا احترام کرتی ہے، وزیراعظم نواز شریف نے پہلے خود اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا اور پھر اپنے بچوں کو بھی احتساب کے لیے پیش کیا جب کہ عمران خان پر جے آئی ٹی بنی مگر وہ آج تک پیش نہیں ہوئے کیونکہ وہ اشتہاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام اندازہ لگا سکتے ہےں کہ ملک میں کون احتساب کے عمل کو آگے بڑھانا چاہتا ہے اور کون احتساب سے بھاگ رہا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کے روبرو اپنا بیان ریکارڈ کر اکر اپنی قانونی ذمہ داری پوری کی ہے، اگرچہ انہوںنے پیشی سے بچنے کے لیے جے آئی ٹی کے ارکان پر تحفظات کااظہار کرکے ان کے خلاف سپریم کورٹ میں اعتراض بھی داخل کردیے تھے لیکن بعد میں اپنے وکلا کے مشورے پر انہوں نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ ایک واضح امر ہے کہ اگر حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہ ہوتے تو جے آئی ٹی کے ارکان ان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کاحکم دے سکتے تھے اس طرح انہیں ہی نہیں ان کے والد یعنی وزیر اعظم کو بھی ندامت وشرمندگی کاسامنا کرنا پڑسکتا تھا، اس اعتبار سے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا ان کا فیصلہ بلاشبہ صائب فیصلہ تھا ۔
توقع کی جاتی ہے کہ حسین نواز شریف جے آئی ٹی پر اپنے تمام تر اعتراضات کے باوجود اس کے ساتھ تعاون کاسلسلہ جاری رکھیں گے اور اس طرح احتساب کے اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں گے تاکہ اس ملک میں ایک اچھی مثال قائم ہوسکے اور آئندہ کوئی بھی بااثر فرد ملک کی دولت لوٹ کر محض اپنے اثر ورسوخ کی بنیاد پر بیرون ملک محلات کھڑے کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
بجلی کا ایک اور بڑا بریک ڈاﺅن
جامشورو میں ایکسٹراہائی ٹینشن لائن ٹرپ ہونے سے کراچی اور اندرون سندھ بجلی کا بڑا بریک ڈاﺅن ہوگیا جس کے باعث پہلی سحری میں آدھے سے زیادہ شہر کی بجلی معطل ہوگئی۔کے الیکٹرک کے تمام دعووں کا پول کھل گیا اور گلستان جوہر، گلشن اقبال ،نارتھ ناظم آباد ، اورنگی ٹاون، لیاقت آباد ، کھارادر،کیماڑی،شاہ فیصل کالونی، ملیر، ایئرپورٹ سمیت متعدد علاقوں میں بجلی غائب ہونے کے باعث شہریوں نے اندھیرے میں روزہ رکھا ، بہت سے تو سحری سے ہی محروم رہ گئے۔ملیر کے مختلف علاقوں کے علاوہ معین آباد، النور، سرسید ٹاون، نارتھ کراچی، سعود آباد، سپرہائی وے میں بھی بجلی غائب رہی۔سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد، میرپورخاص ، جامشوروسمیت دیگراضلاع میں بھی سحری کے وقت بجلی کا بڑا بریک ڈﺅن ہو گیا۔حیسکو ریجن کے13اضلاع کے76 گرڈ اسٹیشن بند ہوگئے، شہریوں نے موم بتیوں کی روشنی میں سحری کی۔ترجمان حیسکو محمد صادق کا کہنا ہے حیسکو ریجن کے13اضلاع کے76 گرڈاسٹیشن بند ہوئے تھے تاہم اب ا ن کا دعویٰ ہے کہ 76 گرڈ اسٹیشن میں سے22گرڈ اسٹیشنوں پربجلی بحال کردی گئی ہے۔ ذرائع این ٹی ڈی سی کے مطابق جامشورو کے3پاور ہاﺅس رات 3بجے سے پہلے بند ہوئے تھے۔ ٹنڈوالہ یار، مٹیاری اور دیگراضلاع میں بھی شہریوں نے موم بتی کی روشنی میں سحری کی۔
بجلی کے بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت بجلی کا بحران ختم نہیں کر سکتی، اس وقت بجلی کی پیداور اتنی نہیں ہے جتنی 2013ءمیں تھی، بجلی کے بحران کا حل صرف سندھ میں ہے۔انہوں نے ٹنڈو الہ یار میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات کہی۔
کے الیکٹرک کی جانب سے شہریوں کو شدید گرمیوں میں بجلی سے محروم کرنے کا یہ اپنی نوعیت کاپہلا واقعہ نہیں ہے، کے ای ایس سی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور تجربہ کار ملازمین کی بڑے پیمانے پر چھانٹی کرکے من پسند لوگوں کی بھرتی کے فوری بعد اس ادارے نے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے اپنے تمام تر وعدوں کو بالائے طاق رکھ کر من مانیاں شروع کردی تھیں، لیکن اس وقت کی حکومت نے بوجوہ اس پر کوئی تعرض نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بڑھتے گئے اور وہ اس شہر کے عوام کے مصائب میں اضافہ کرکے اووربلنگ اور دیگر حربوں کے ذریعے اپنی دولت میں اضافہ کرتے چلے گئے اور جب انہوںنے یہ محسوس کرلیا کہ اب اس شہر کے لوگوں کو مزید نچوڑنا ممکن نہیں رہا تو انہوں نے اس ادارے کا خاموشی کے ساتھ چین کے ایک ایسے ادارے کے ساتھ سودا کرنے کااعلان کردیا جس کاپچھلا ریکارڈ صاف نہیں ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے وزیر اعلیٰ سندھ اس معاملے میں مداخلت کریں اور کے الیکٹرک کے کرتادھرتاﺅں کو کے ای ایس سی کے وسائل غیر قانونی طورپر فروخت کرنے، اس کے تانبے کے تار مہنگے داموں فروخت کرکے ایلمونیم کے تا ر لگا کر لائن لاسز میں اضافہ کرنے اور یہ خسارہ عوام سے وصول کرنے اور کے ای ایس سی کے اثاثہ جات مبینہ طور پر فروخت کرکے اور گروی رکھ کر بھاری رقوم بیرون ملک منتقل کرنے کے الزامات کی تحقیقات کرائیں اور جب تک یہ لوگ تمام الزامات سے بری نہیں ہوجاتے یعنی ان پر عاید کئے جانے والے یہ تمام الزامات غلط ثابت نہیں ہوجاتے اس وقت تک ان کو یہ ادارہ فروخت کرنے اور ملک چھوڑ کر باہر جانے کی اجازت نہ دی جائے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ اس حوالے سے کب اپنی اتھارٹی استعمال کرنے کی کوشش کریں گے اور اس شہر کے لوگوں کو مصائب کا شکار کرنے والوں کامکمل احتساب کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں