دارالصحت یا دارالموت،معصوم نشوہ کے قاتل کون کون؟
شیئر کریں
(جرأت انوسٹی گیشن سیل) نو ماہ کی ننھی پری نشوہ ابدی نیند سو گئی، اسے اس پُرفریب دنیا کے تمام مسائل سے نجات مل گئی، سولہ دن زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار نشوہ کے ساتھ اسپتال کے ظالم عملے نے کیا سلوک کیا یہ بات شاید اب کبھی سامنے نہیں آسکے گی، لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسے بھی ہنستی مسکراتی بچی کے بجائے ایک ’سبجیکٹ‘کے طور پر، ایک تجربے کے طور پر استعمال کیا گیا، نشوہ کے والد کی جانب سے سات اپریل کو درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق نشوہ کو اسپتال کے عملے نے پوٹاشیئم کلورائیڈ کی زائد خوراک دے دی، جبکہ اس طرح کے انجکشن کو ڈرپ میں حل کرکے آہستہ آہستہ جسم میں داخل کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ انجکشن لگنے کے چند منٹ بعد ہی بچی کے ہونٹ نیلے پڑ گئے اور اس کی سانس اکھڑنے لگی، نشوہ کی حالت بگڑنے پر اسے انتہائی نگہداشت کے کمرے میں منتقل کردیا گیا۔ سفید کوٹ میں ملبوس ان مسیحاؤں کی بربریت اور سفاکیت کا سلسلہ صرف یہی تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس نو ماہ کی پھول جیسی معصوم بچی کی سانس بحال کرنے کے لیے 45 منٹ تک سی پی آر(Cardiopulmonary resuscitation) دینے کے بعد پیسے بنانے کی مشین (وینٹی لیٹر) پر منتقل کردیا گیا۔ نشوہ کے والد قیصر علی نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں ڈاکٹروں نے کہا کہ 45 منٹ تک سی پی آر دینے کی وجہ سے بچی کے دماغ کو نقصان پہنچا اور آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے وہ ”ہائپوکسیا“کا شکار ہوکر جزوی طور پر مفلوج ہوگئی۔
نجی اسپتالوں میں اوسطاً ہر دوسرے، تیسرے دن کوئی نہ کو ئی مریض اتائیوں اور نجی اسپتالوں کی لالچ اور بد ترین پیشہ ورانہ غفلت کا نشانابن کر نشوہ جیسے انجام سے دوچار ہوتا ہے، مگر کوئی متعلقہ ادارہ اس پر توجہ دینے کو تیار نہیں
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر نشوہ کی آنکھ سے بہتے آنسوؤں نے ہر درد مند انسان کو رونے پر مجبور کردیا۔ جو کچھ نشوہ کے ساتھ ہوا وہ کل ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے، لیکن ہم میں سے ہر فرد روایتی خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپائے بیٹھا ہے۔ اصل خرابی بنیادی سماجی رویوں کے اندر پلتی ہے، نشوہ کا کیس اس نوعیت کا پہلا کیس نہیں، ایسے واقعات مسلسل منظرعام پر آتے رہے اور ہم وقتی طور پر نظام کو درست کرنے کے بلند بانگ دعوے کر کے انہیں بھولتے رہتے۔ ہمارے اندر اس رویّے کی جڑیں دور تک پھیلی ہوئی ہیں، ہم کسی ایک واقعے پر خوب شور مچاتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، پھر خواب غفلت میں غرق ہو جاتے ہیں۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ نشوہ والے واقعے پر ہمارے سرشرم و ندامت سے جھک گئے ہیں۔ درست، یہ واقعہ ہمارے طبی نظام کا ایک انتہائی افسوناک اور شرم ناک واقعہ ہے، لیکن کیا یہ سر پہلی بار شرم سے جھکا ہے، اگر ہم نجی اسپتالوں میں ہونے والے اس طرح کے واقعات کا اوسط نکالیں تو کم و بیش ہر دوسرے، تیسرے دن کوئی نہ کو ئی مریض اتائیوں اور نجی اسپتالوں کی لالچ اور بد ترین پیشہ ورانہ غفلت کا نشانابن کر نشوہ جیسے انجام سے دوچار ہوتا ہے، مگر کوئی متعلقہ ادارہ اس پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ ہم پچھلا حساب کتاب سب بھول جاتے ہیں، جو سکھایا جاتا ہے، بھول جاتے ہیں۔ لیکن مریضوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے اس مکروہ دھندے کے ذمہ دار صرف نجی اسپتال ہی نہیں، بلکہ ادویہ ساز اداروں، اسپتال اور وفاقی اور صوبائی ڈرگ انسپکٹرز کے اشتراک سے بننے والی ایک ’کاروباری‘ مافیا ہے۔ اس مافیا کی جڑیں ہمارے معاشرے میں اندر تک سرایت کر چکی ہیں، ان کے خلاف بغاوت فرض ہو چکی ہے۔ہنگامی طبی امداد کے انتظار میں مریض ڈاکٹر کے انتظار میں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں، لیکن ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف مالکان کے حکم کے سامنے بے بس ہونے کی وجہ سے اس وقت اسے ہاتھ نہیں لگاتے جب تک وہ ابتدائی طبی امداد کے لیے خطیر رقم جمع نہ کر وادے۔ یہ مارکیٹنگ کا ایک ایسا گور کھ دھندا ہے جس میں معاشیات کے ’طلب و رسد‘ کے قانون کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا تا ہے۔ مریض تکلیف سے، بیماری سے جس قدر تڑپے گا، اس کے لواحقین اتنی ہی زیادہ رقم خرچ کریں گے۔ اس قسم کے خوف ناک طبی رویّوں کی بہت ہی خوف ناک مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ مسیحائی کے نام پر انسانیت کا ننگا ناچ ناچنے والے قدم قدم پر اپنی مکروہ اور غلیظ صورت دکھاتے ہیں۔
مریضوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے اس مکروہ دھندے کے ذمہ دار صرف نجی اسپتال نہیں، بلکہ ادویہ ساز اداروں، اسپتال اور وفاقی اور صوبائی ڈرگ انسپکٹرز کے اشتراک سے بننے والی ایک پوری ’کاروباری‘ مافیا ہے
ادویہ سازی سے مسیحائی تک ہر شعبے میں کسی ناسور کی طرح پھیلے زر پرستی کے اس مکروہ دھندے کا نشانا صرف غریب عوام ہی نہیں بلکہ کئی مشہور شخصیات بن چکی ہیں، ان ناموں کی فہرست پیپلز پارٹی کی خاتون رہنما فوزیہ وہاب سے پیر پگاڑا تک درجنوں نامو ں تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ وہ شخصیات ہیں جو با ہوش و حواس، معمولی سی بیماری کے علاج کے لیے اپنے قدموں پر چل کر اسپتال گئیں اور موت سے ہم کنار ہونے کے بعد دوسروں کے کاندھوں پر واپس آئیں (اس بارے میں تفصیلی رپورٹ جلد ہی شامل اشاعت کی جائے گی)۔ معصوم نشوہ بھی اسی مافیا کا نشانا بننے والوں کی فہرست میں شامل ہوگئی ہے، آنے والا کل کتنی ماؤں کی گود اجاڑے گا، کتنی سہاگنوں کو بیوہ کرے گا، کتنے بوڑھے کاندھیں جواں لاشوں کے بوجھ سے نڈھال ہوں گے، یہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا، لیکن موت کے یہ ہرکارے کسی نہ کسی کو اپنا نشانا ضرور بنائیں گے، کیونکہ یہ مافیا ایک گدھ کی طرح غریب مریضوں کے جسموں سے ایک ایک بوٹی نوچ کر کھانے کو تیار بیٹھی ہے۔ نشوہ کے کیس میں دارلصحت اسپتال کے عملے نے سفاکیت کا مظاہرہ کیا، اصولاًتو یہ اسپتال اسی دن سیل کردینا چاہیے تھا، لیکن ہم اس ہیلتھ کیئر کمیشن سے انصاف کی توقع کیسے کر سکتے ہیں، جو شہر قائد کے ایک گنجان آبادی والے علاقے گلستان جوہر میں بنا رجسٹریشن چلنے والے دارلصحت اسپتال کی موجودگی سے ہی لاعلم رہا، دو سو سے زائد بیڈ کا ایک ایسا اسپتال جس نے طب کی تعلیم کے لیے میڈیکل کالج بھی کھول رکھا ہے۔
درحقیقت نشوہ کی موت انسانی غفلت کا نتیجہ نہیں یہ ایک منظم قتل ہے، نشوہ کی موت کو محض ایک سانحہ، ایک انسانی غفلت قرار دے کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی، نشوہ کے قتل میں ملوث ہر ایک فرد کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔ نشوہ کا قاتل کوئی ایک نہیں، دارلصحت کا مالک اور متحدہ قومی موومنٹ کے نام پر انسانی جانوں سے کھیلنے والا عامر چشتی بھی نشوہ کا قاتل ہے، بنا رجسٹریشن جیتے جاگتے انسانوں کو پل بھر میں موت سے ہم کنار کرنے والے اسپتال دارلصحت کی رجسٹریشن اور غفلت سے لاعلم رہنے پر پورا ہیلتھ کیئر کمیشن نشوہ کا قاتل ہے، جس نے اپنی انکوائری رپورٹ میں نشوہ کو لگائے گئے انجکشن کا نام تک دینے کی زحمت نہیں کی، جعلی اور غیر معیاری انجکشن تیار کرنے والے ادویہ ساز ادارے نشوہ کے قاتل ہیں، نہ صرف دارلصحت بلکہ پورے علاقے میں فارمیسی اور میڈیکل اسٹورز پر جعلی اور غیر معیاری انجکشن اور ادویات کی خرید و فروخت کی اجازت دینے والا علاقہ ڈرگ انسپکٹر غلام علی لاکھو نشوہ کا قاتل ہے۔ اصولا تو علاقہ ڈرگ انسپکٹر غلام علی لاکھو کو دارلصحت اسپتال کی فارمیسی پر چھاپہ مار کر نشوہ کو لگائے گئے انجکشن کو اٹھا کر جانچ کے لیے لیبارٹری میں بھیجنا اور تحقیقات مکمل ہونے تک فارمیسی کا لائسنس معطل کردینا چاہیے تھا، لیکن خود کو ایف آئی اے کا افسر ظاہر کرنے والے بدنام زمانہ ڈرگ انسپکٹر غلام علی لاکھو نے ایک بار بھی دارلصحت کی فارمیسی میں جانے کی زحمت نہیں کی کیونکہ اس نے مالی مفادات کے لیے صرف دارلصحت اسپتال ہی نہیں بلکہ اپنے علاقے میں قائم ہر اسپتال اور میڈیکل اسٹور کو ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی پالیسی کے تحت کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ قومی احتساب بیور سکھر کو مطلوب اس ڈرگ انسپکٹر نے نشوہ کے معاملے میں کس طرح عامر چشتی کو مکھن میں بال کی طرح نکالنے کی کوشش کی، دارلصحت اسپتال بنا رجسٹریشن کیسے چلتا رہا، دوا ساز کمپنیاں ں اسپتالوں کی فارمیسی میں اپنی ادویات فروخت کروانے کے لیے کیا ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں، اس پر تفصیلی رپورٹیں آئندہ اشاعتوں میں شائع کی جائیں گی۔ (جاری ہے)