ڈان لیکس ‘وزیر اعظم کے اقدامات فوجی ٹویٹر کے ذریعے مسترد،سول ملٹری تعلقات میں پھر تناؤ
شیئر کریں
اعلان انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ، نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آرکا ٹویٹر پیغام
میڈیا نے طوفان کھڑا کیا،وزیر داخلہ۔ وزیر اعظم کے ماتحت فوج ان کانوٹیفکیشن کیسے مسترد کرسکتی ہے ،تجزیہ کارمخمصے کا شکار
پاکستان کے ایک انگریزی روزنامے ڈان نے 6 اکتوبرکو ایک رپورٹ پیش کی جس میں ادارے کے اسسٹنٹ ایڈیٹر اور کالم نگار سرل المیڈا نے 3اکتوبر کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں سول و عسکری قیادت میں ہونے والے مبینہ مکالمے کی تفصیلات کا انکشاف کیا تھا۔ جس کے بعد فوج نے اہم سکیورٹی اجلاس کی خبر کے افشاءہونے کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے سخت تشویش کا اظہار کیا۔مذکورہ رپورٹ میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ حکومت نے پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے اس مشترکہ اجلاس میں انتہائی محتاط اور غیر معمولی طور پر واضح طریقے سے عسکری قیادت کو یہ پیغام پہنچادیا کہ عالمی سطح پر تیزی سے پاکستان تنہا ہورہا ہے جبکہ ریاستوں کی جانب سے کئی اہم معاملات پر کارروائیوں کے لیے اتفاق رائے کا بھی تقاضا کردیا گیا۔رپورٹ کے مطابق حکومت نے عسکری قیادت سے مطالبہ کیا تھا کہ بعض ایسے گروپس جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ فوج کے زیر سایہ کام کرتی ہیں، ان کے خلاف سول حکومتوں کو دہشت گردی کی روک تھام کے سلسلے میں ایکشن کی اجازت ہونی چاہئے،گفتگو میںبھارت میں پٹھان کوٹ حملے اور اس میں بھارت کی جانب سے پاکستان پر الزام کے مطابق پاکستان میں موجود جہادی گروہوں سے تفتیش پر بھی زور دیا گیاتھا ۔فوجی اور سول قیادت نے اس اخباری رپورٹ کی سختی سے تردید کی تھی اوراس طرح کی گفتگو اجلاس سے باہر آنے اور خبر کا حصہ بن جانے پر فوج نے تشویش کا اظہار کیا تھا جس پر تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں سول و عسکری اداروں کے افسران بھی شامل تھے ،یہ خبر اسکینڈل ’ڈان لیکس‘کے نام سے مقبول ہوا ۔
اس سلسلے میں پچھلے کئی دنوں سے تحقیقات مکمل ہونے ، سفارشات کو عوام کے سامنے لانے اور اقدامات کی خبریں اور افواہیں زیر گردش تھیں۔کل جب وزیر اعظم ہاﺅس سے تحقیقات کے بعض حصوں کی منظوری کی خبر جاری ہوئی اور خارجہ امورمیں وزیر اعظم کے مشیر خاص طارق فاطمی سے عہدہ واپس لینے کا اعلان ہوا تو اسکے بعد حیرت انگیز طور پر پاک فوج کے ترجمان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اسے مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ اعلان انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے ،اس نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہیں ،جس کے بعد ہلچل مچ گئی۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ فوج وزیر اعظم کے نوٹیفکیشن کو کیسے مسترد کرسکتی ہے جبکہ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ایسے معاملات ٹویٹر پرطے نہیں ہوتے اور اس معاملے پر میڈیا نے طوفان کھڑا کیا۔
سرل المیڈا کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق پیر 3 اکتوبر کو آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر ہونے والی ایک خفیہ ملاقات میں کم سے کم دو اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔پہلا یہ کہ (سابق) ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے ہمراہ چاروں صوبوں کا دورہ کریں گے اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں اور آئی ایس آئی کے سیکٹرز کمانڈرز کو ایک پیغام دیں گے۔وہ پیغام یہ ہوگا کہ فوج کے زیر انتظام کام کرنے والی خفیہ ایجنسیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کالعدم شدت پسند گروہوں اور ان گروپس کے خلاف کارروائیوں میں مداخلت نہیں کریں گی جنہیں اب تک سویلین ایکشن کی پہنچ سے دور سمجھا جاتا تھا۔دوسرا یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہدایات دی تھیں کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کو کسی نتیجے پر پہنچانے کے لیے نئے اقدامات کیے جائیں جبکہ ممبئی حملہ کیس سے متعلق مقدمات راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں دوبارہ سے شروع کیے جائیں۔یہ فیصلے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور(سابق ) ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان ہونے والی زبردست بحث کے بعد کیے گئے۔
سرل المیڈا نے دعویٰ کیا تھا کہ زیر نظر مضمون(6اکتوبرکوڈیلی ڈان میں شائع شدہ) ان شخصیات سے ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے جو اس اہم اجلاس میں شریک تھے۔تاہم ان تمام افراد نے آن ریکارڈ بات کرنے سے انکار کیا اور انہوں نے جو باتیں کیں ان کی تصدیق متعلقہ افراد کی جانب سے بھی نہیں کی گئی۔رپورٹ کے مطابق آل پارٹیز کانفرنس میں سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے وزیر اعظم ہاو¿س میں سول و عسکری حکام کو خصوصی پریزینٹیشن دی۔اس اجلاس کی سربراہی وزیر اعظم نواز شریف کررہے تھے جبکہ کابینہ اور صوبائی حکام بھی اس میں موجود تھے اور عسکری نمائندوں کی سربراہی اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کررہے تھے۔سیکریٹری خارجہ نے پاکستان کی جانب سے حالیہ سفارتی کوششوں کے نتائج کا خلاصہ پیش کیا اور بتایا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا ہے اور حکومت پاکستان کے موقف پر دنیا کے بڑے ملکوں نے بے اعتنائی کا اظہار کیا۔
امریکا کے حوالے سے سیکریٹری خارجہ نے کہا تھاکہ باہمی تعلقات خراب ہوئے ہیں اور اس کے مزید زوال پزیر ہونے کا امکان ہے کیوں کہ امریکا کا مطالبہ ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے۔بھارت کے حوالے سے اعزاز چوہدری نے کہا تھا کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات اور جیش محمد کے خلاف موثر کارروائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔اس کے بعد سیکریٹری خارجہ نے شرکاءکو بتایا تھا کہ چین نے پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تاہم ترجیحات میں تبدیلی کا اشارہ بھی دیا۔انہوں نے بتایا کہ خاص طور پر جب چینی حکام نے جیش محمد کے رہنما مسعود اظہر پر اقوام متحدہ کی پابندی کے خلاف تکنیکی اعتراض برقرار رکھنے پر آمادگی ظاہر کی تو ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ بار بار ایسا کرنے کی منطق کیا ہے۔
سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے بعد (سابق )ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر سول عہدے داروں کے درمیان حیرت انگیز اور غیر معمولی تبادلہ خیال شروع ہوگیا۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے رد عمل میں رضوان اختر نے استفسار کیا تھا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟اس پر اعزاز چوہدری نے جواب دیا کہ عالمی برادری کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید ،لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔(سابق )ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جسے ضروری سمجھتی ہے گرفتار کرے تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے یہ بات مذکورہ افراد اور تنظیموں کے حوالے سے کہی یا پھر عمومی طور پر کالعدم تنظیموں کے ارکان کے حوالے سے کہی۔
اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے غیر متوقع طور پر مداخلت کی گئی اور انہوں نے رضوان اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی سول حکام ان گروپس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں رہا کرانے کے لیے پس پردہ کوششیں شروع کردیتی ہے۔شہباز شریف کا یہ موقف سن کر شرکاءششدر رہ گئے تاہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے خود وزیر اعظم نواز شریف نے رضوان اختر کو مخاطب کیا اور کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا، وہ ریاستی پالیسیاں تھیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جارہا۔اس اہم اجلاس کے متعدد عینی شاہدین کا یہ ماننا ہے کہ سیکریٹری خارجہ کی پریزینٹیشن اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی مداخلت وزیر اعظم نواز شریف کا تیار کردہ منصوبہ تھا تاکہ فوج کو کارروائی کے لیے تیار کیا جاسکے اور اس کے بعد(سابق) ڈی جی آئی ایس آئی کو بین الصوبائی دوروں پر بھیجنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔رپورٹ کے مطابق (سابق) ڈی جی آئی ایس آئی اور سول حکام کے درمیان بحث ہونے کے باوجود معاملہ تلخ کلامی تک نہیں پہنچا۔ قبل ازیں اجلاس میں(سابق) ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ فوج کی پالیسی ہے کہ وہ شدت پسند گروہوں کے درمیان فرق نہیں کرتی اور فوج اس پالیسی کو رائج رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔
تاہم(سابق) آئی ایس آئی چیف نے مختلف شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے وقت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تھااور کہا تھاکہ ان کارروائیوں سے ایسا تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ بھارت کے دباو¿ پر کی جارہی ہیں یا ہم نے کشمیریوں سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے۔
رضوان اختر نے وزیر اعظم کی ہدایت پر چاروں صوبوں کا دورہ کرنے کی بھی بخوشی حامی بھرلی تھی جہاں وہ آئی ایس آئی سیکٹر کمانڈرز کو تازہ احکامات جاری کریں گے اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں سے بھی ملاقات کریں گے تاکہ ان مخصوص اقدامات کا خاکہ تیار کیا جاسکے جو مختلف صوبوں میں اٹھائے جانا ضروری ہیں۔متعدد حکومتی عہدے داروں کے مطابق اجلاس میں سول اور عسکری حکام کے درمیان بحث وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے کھیلا گیا بڑا ج±وا تھا جو انہوں نے مزید بین الاقوامی دباو¿ کو روکنے کے لیے کھیلا۔
اس کے علاوہ شرکاءنے بتایا کہ (سابق) آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے علیحدہ ملاقاتوں میں وزیر اعظم نواز شریف زیادہ پر جوش نظر آئے اور انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اگر پالیسی میں موجودہ حالات کے مطابق تبدیلی نہ کی تو پاکستان کو حقیقی تنہائی کا سامنا ہوسکتا ہے۔رپورٹ میں لکھا ہے کہ حکومتی عہدے دار اس بات پر منقسم تھے کہ آیا نواز شریف کا کھیلا گیا ج±وا کامیاب ہوگا یا نہیں۔ایک عہدے دار نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے عزم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’ہم اپنی ساری زندگی یہ سننے کی دعا کرتے رہے ہیں اب دیکھنا ہے کہ واقعی ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں‘۔ایک اور سرکاری عہدے دار نے کہا تھاکہ ’اقدامات کیے جارہے ہیں یا نہیں یہ دیکھنے کے لیے نومبر تک انتظار کرنا ہوگا کیوں کہ نومبر تک کئی معاملات طے ہوجائیں گے(نومبر میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت مکمل ہوئی )۔فوجی حکام کی جانب سے اس معاملے پر کوئی تبصرہ یا موقف نہ مل سکا۔
اس رپورٹ کے بعد ملک میں ایک طوفان کھڑا ہوگیا تھا کہ ایسے موقع پر جب بھارت نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کا سلسلہ روزانہ کی بنیاد شروع کر رکھا ہے ، سرحد پر ہمارے جوان شہید ہورہے ہیں اور عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان کی عسکری و سول قیادت ایک صفحے پر ہے اور عالمی برادری کے سامنے جمہوری و عسکری حوالے سے اچھا امیج بن چکا ہے ،تو اس وقت ڈیلی ڈان کی خبر نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا،عوام اور سیاسی حلقے اس موقع پر منقسم ہوگئے تھے کہ آیا واقعی صورتحال یہی ہے یا پھر حکومتی و عسکری چپقلش کا ماضی کا قصہ ابھار کر قوم کے بھارت کے خلاف عزائم کو پست کیا جارہا ہے؟؟بعد ازاں اس اسکینڈل پر تحقیقاتی کمیٹی قائم ہوئی ،وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید سے حکومت نے استعفیٰ لیا ،پھر تحقیقات کے خاتمے پر گزشتہ دنوں اعلان ہوا کہ تحقیقات میں موجود سفارشات عوام کے سامنے پیش کی جائیں گی۔
پھر تازہ صورتحال یہ پیش آئی کہ کل وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ طارق فاطمی کو ڈان لیکس کے کیس میں برطرف کرنے کا اعلان ہوا اور کچھ مزید سفارشات کی منظوری کا اعلان ہوا تاہم ساتھ ہی فوج کی جانب سے اس اقدام کوناکافی یا خلاف سفارش قراردیتے ہوئے اقدامات کو مسترد کردیا ہے ۔
٭٭٭٭
اداروں میں ٹوئٹس کے ذریعے ایک دوسرے کو مخاطب نہیں کیا جاتا،چوہدری نثار کا شکوہ
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ ڈان کی خبر کی تحقیقات کا معاملہ کوئی ایشو نہیں تھا، لیکن میڈیا نے ہنگامہ برپا کرکے اسے ایشو بنا دیا۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار نے آئی ایس پی آر کی ٹوئٹس کے حوالے سے کہا کہ ’ٹوئٹس کسی بھی ادارے کی طرف سے ہوں پاکستان کے نظام اور انصاف کے لیے زہر قاتل ہیں، اداروں میں ٹوئٹس کے ذریعے ایک دوسرے کو مخاطب نہیں کیا جاتا، جبکہ ابھی معاملے سے متعلق نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں ہوا تو بھونچال کیسے آیا۔انہوں نے کہا کہ جسے نوٹیفکیشن بناکر پیش کیا جارہا ہے وہ وزارت داخلہ کی سفارشات تھیں، جبکہ جو سفارشات ملیں ان ہی کی روشنی میں نوٹیفکیشن جاری ہوگا۔