میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیر اعظم نواز شریف بھارتی تاجر سے خفیہ ملاقات پر قوم کو اعتماد میں لیں

وزیر اعظم نواز شریف بھارتی تاجر سے خفیہ ملاقات پر قوم کو اعتماد میں لیں

ویب ڈیسک
اتوار, ۳۰ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیر اعظم پاکستان اور بھارتی تاجر سجن جندال کے درمیان ہونے والی غیر اعلانیہ ملاقات نے مختلف قیاس آرائیوں کو جنم دے دیا ہے۔ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ ملاقات مستقبل قریب میں پاک-بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات کا سبب بن سکتی ہے۔سجن جندال بھارتی بزنس گروپ ’جے ایس ڈبلیو‘ کے مالک ہیں اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھی ہیں جبکہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ بھی ان کے دوستانہ تعلقات ہیں۔کچھ تجربہ کاروں کا ماننا ہے کہ سجن جندال کا یہ دورہ پس پردہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کا حصہ ہوسکتا ہے۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ سجن جندال بھارتی سویلین اور انٹیلی جنس ایجنسی کے علم میں لائے بغیر پاکستان کا دورہ کریں۔سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے سجن جندال کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے دورے پس پردہ سفارتکاری کا حصہ ہوتے ہیں، انہوں کہا کہ اس کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جانا چاہیے۔خورشید قصوری نے یہاں تک کہا کہ ‘بیک چینل رابطوں کی وجہ سے بہترین نتائج بھی حاصل ہوتے ہیں’۔پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں جمعرات کو سجن جندال کی ملاقات کی خبریں گرم تھیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق سجن جندال کے ساتھ ان کا وفد اسلام آباد کے بے نظیر انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر پہنچا تو وزیراعظم کے بیٹے حسین نواز اور مریم نواز کے داماد راحیل منیر نے ان کا استقبال کیا۔بعد ازاں وزیراعظم مری میں گورنمنٹ ہاو¿س پہنچے اور سجن جندال سے ملاقات کی، اس موقع ہر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔تاہم ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں مریم نواز نے بتایا کہ ’سجن جندال وزیراعظم کے پرانے دوست ہیں اور ان کی وزیراعظم سے ملاقات خفیہ نہیں، اس لیے اس بات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جانا چاہیے۔‘دوسری جانب اپوزیشن رہنماو¿ں نے سجن جندال کے دورہ¿ پاکستان اور وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو خفیہ رکھنے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھارتی تاجر کی وزیراعظم سے ملاقات کے خلاف سندھ اور پنجاب اسمبلیوں میں قراردادیں جمع کروا دیں۔پنجاب اسمبلی میں جمع کرائی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ بھارتی وفد نے نواز شریف کو مری میں مودی کا پیغام پہنچایا، پاکستانی عوام کو اس ملاقات کے اغراض و مقاصد سے آگاہ نہیں کیا گیا جس سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔سندھ اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی کے رکن خرم شیر زمان نے مذمتی قرارداد جمع کرائی، جس میں کہا گیا کہ دشمن ملک کے تاجر سے وزیراعظم کی ملاقات باعث تشویش اور قابل مذمت ہے۔واضح رہے کہ سجن جندال اسٹیل، توانائی اور سیمنٹ سمیت دیگر شعبوں میں کاروبار کرتے ہیں.۔
جہاں تک بیک ڈور سفارتکاری کا تعلق ہے تو عالمی برادری میںیہ کوئی معیوب بات نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں یہ طریقہ رائج ہے، جب دو ملکوں کے درمیان کسی مسئلے پر کشیدگی عروج پر پہنچ جاتی ہے تو دونوں ملکوں کے مشترکہ دوست اور ہمدرد عام طورپر پس پردہ رہتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے اور انہیں قریب لانے اور ایک دوسرے کے مو¿قف کوسننے پر رضامند کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے اور جیساکہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے بھی اس ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی کوششوں کے بعض اوقات بہترین نتائج سامنے آتے ہیں۔
نواز شریف اور جندال کے درمیان اس ملاقات کو خود وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں نے پراسرار بنایا جس کی وجہ سے لوگوں، خاص طوپر اپوزیشن کو انگلیاں اٹھانے کا موقع ملا ، اگر یہ دلیل درست تسلیم کرلی جائے ،وزیر اعظم نواز شریف نے اشارتا ً بھی جس کا ذکر نہیں کیاہے کہ جندال مودی کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے نریندر مودی کاکوئی خاص پیغام لے کر پاکستان آئے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا استقبال وزارت خارجہ کے کسی اعلیٰ افسر یا خود نواز شریف نے کیوں نہیں کیا اور ان کا استقبال کرنے کے لیے مریم نواز کے داماد اور حسین نواز کو کیوں بھیجا گیا اور وزیر اعظم نے ان سے ملاقات ایوان وزیر اعظم میں کرنے کے بجائے مری کی پہاڑیوں پر جاکر کرنے کو ترجیح کیوں دی۔
مریم نواز نے اپنی ٹوئٹ میں بھی اس بات کاکوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ جندال پاک بھارت تعلقات میں تناﺅ کم کرنے کے حوالے سے مودی کا کوئی پیغام لے کر آئے تھے یا انہوں نے وزیراعظم سے اس حوالے سے کوئی گفتگو کی ہے۔یا وزیرا عظم کے دیرینہ دوست کی حیثیت سے اوربھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے اپنے تعلقات کی بنیادپر انہوںنے وزیر اعظم نواز شریف اور مودی کے درمیان کسی ملاقات کااہتمام کرنے کی پیشکش بھی کی ہے،کیونکہ سیاست اور خاص طورپر عالمی پس منظر پر نظر رکھنے والے حلقے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں اورپاکستان کے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے رہنما بھی اس بات سے بے خبر نہیں ہوں گے ، کہ چین بہت پہلے سے پاکستان اوربھارت کے درمیان تناﺅ کم کرنے کے لیے پس پردہ سفارت کاری میںمصروف ہے اور چین کی ان کوششوں کے نتیجے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے مجوزہ اجلاس کے دوران نواز مودی ملاقات کو تقریباً آخری شکل دی جاچکی ہے ، اس لیے یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کہ جندال کی اسلام آباد آمد کامقصد نریندر مودی ملاقات کااہتمام کرنا یا دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ تناﺅ کو کم کرنے کی کوششوں کاحصہ ہے تو یہ جندال نواز خفیہ ملاقات پر پردہ ڈالنے اور اسے ملک وقوم کے مفاد کے مطابق ظاہر کرنے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔اس لیے بہتر تو یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اس ملاقات کی تفصیلات خفیہ رکھ کر اس معاملے کو مزید الجھانے اور پراسرار بنانے کے بجائے اس کی تفصیلات سامنے لاکر عوام کو اعتماد میں لیں۔ورنہ ان پر اختیارات سے تجاوز اور منی لانڈرنگ جیسے الزامات کے ساتھ ہی دشمن پڑوسی ملک سے ساز باز کرنے کا سنگین الزام بھی لگ سکتاہے جو نواز شریف جیسے رہنما اور ان کے خاندان کے لیے مناسب بات نہیں ہوگی۔
امید کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اس معاملے کی سنگینی کا سنجیدگی سے جائزہ لیں گے اور جندال کے دورہ پاکستان اور ان سے ملاقات کے حوالے سے قوم کو اعتماد میں لینے میں تاخیر نہیں کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں