میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
رسوائیاں اور پولیس

رسوائیاں اور پولیس

ویب ڈیسک
هفته, ۳۰ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

کسی اِدارے کی ساکھ تباہ کرنامقصود ہوتواُسے رسواکردیناہی کافی ہے کیونکہ عوام کی نظروں میںعزت و توقیر ختم ہوجائے توعوامی نفرت کی بناپراہلکاربددل ہوجاتے ہیں اور اُن کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ کسی اِدارے کے سربراہ ہی ا گر رسوائیاں سمیٹنے کے متمنی ہوں توکسی اورکو الزام دینا درست نہیں۔ پنجاب پولیس میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ آئی جی عثمان انور جومنصب سے سبکدوشی کی تیاریوں میں ہیں۔ انھوں نے دورانِ تعیناتی ناقص ترین کارکردگی کے باوجودسوشل میڈیا پر دادوتحسین لینے کی ہر ممکن کوشش کی ۔وہ کام کے بجائے ہمہ وقت سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر نظر آتے رہے۔ اُن کی دیکھا دیکھی اب چھوٹے بڑے اہلکاربھی فیس بک ،انسٹاگرام ،واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر عام نظر آتے ہیں ۔پولیس میں مشہورہونے کا جنون اِ س قدربڑھ گیا ہے کہ مجرموں کی گرفتاری کی بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر خاص طور پر تشہیر کی جاتی ہے جیسے فرائض سے کچھ بڑھ کرکیاہو ۔یہ اطوارکسی طورلائقِ تحسین نہیں بلکہ اِدارے کی رسوائی کا سبب ہیں ۔
صوبہ پنجاب کے طول و عرض میں بدامنی کا راج ہے۔ کوئی شریف شہری جرائم پیشہ عناصر سے محفوظ نہیں۔ لیکن چوروں ،بدمعاشوں اور ڈکیتوں سے متاثرہ لوگ پولیس کے ہتک آمیز رویے کی وجہ سے تھانوں کا رُخ نہیں کرتے ۔میں نے درجنوں ممالک کا سفر کیا ہے اِس دوران قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے کام کرنے کا طریقہ اور کارکردگی جاننے کا موقع ملا۔ دنیا کے کسی ملک میں کسی شہری کو جان و مال کوئی مسئلہ درپیش ہو تو انصاف کے حصول کے لیے پولیس سے رجوع کرتا ہے مگر پنجاب پولیس رسوائیوں کی وجہ سے عوام کی نظروں میں اِس حد تک بے توقیر ہو چکی ہے کہ پولیس کے آنے سے قبل ہی فریقین تصفیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مبادا پولیس کی مداخلت سے معاملات مزید بگڑنہ جائیں۔
پولیس کا فرض ہے مدد آپ کی جیسا نعرہ یکسر فراموش کردیا گیا ہے ۔مددکی بجائے اب شرفا کی تھانوں میں جی بھر کر تذلیل کی جاتی ہے۔ گالی گلوچ اور مارپیٹ وتیرہ ہے۔ تھانہ آنے والے سائلین کو شک کی نظر سے دیکھنا اور بے عزت کرنا روزکا معمول ہے۔ گجرات پولیس تو اِس حد تک خودسر ہوچکی ہے کہ کسی اصول وضابطے کو خاطر میں نہیں لاتی۔ پولیس چوکی گڑھی احمد آبا د میں دونوجوانوں کو ڈکیتی کے شبہ میں گرفتار کیا گیا ۔ اِس دوران زیرحراست ایک پر اِتنا تشدد کیا کہ وہ جان کی بازی ہارگیا ۔ اِس بابت ڈی پی او اسد مظفر کو پتہ چلتا ہے تو تشدد سے جاں بحق ہونے والے نوجوان کی ہلاکت کا مقدمہ تھانہ لاری اڈامیں پولیس کی مدعیت میں درج کر تے ہوئے دوسرے گرفتار نوجوان کوخاموش رہنے کی یقین دہانی کرانے پر رہا کر دیا جاتا ہے۔ اِس کیس میں کسی وارث کومدعی نہیں بنایا جاتا ۔خیر گجرات میں اگر قتل و غارت عام ہے تو پولیس کے کارنامے بھی کسی جرائم پیشہ گروہ یامافیاسے کم نہیں ۔ظاہر ہے یہ سب کچھ ضلعی پولیس آفیسر کی تائیداور مرضی و منشا سے ہو رہا ہے وگرنہ عزت سے محروم پولیس مزید رسوائیوں کا ہرگز انتخاب نہ کرتی ۔
ملک بھر میں پی ٹی آئی کے عہدیداران و کارکنا ن آجکل عتاب کا شکار ہیں لیکن گجرات میں تو پولیس حماقتوں کے پہاڑ بنانے میں مصروف ہے ۔کچہری چوک میں ایک احتجاجی ہواجس کا مقدمہ درج کرتے ہوئے درجن بھر سے زائد وکلا کونامزد کر نے پرقانون دانوں میںغم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ ڈسٹرکٹ بار گجرات اپنا احتجاجی اجلاس طلب کرلیتی ہے تاکہ پولیس گردی کے خلاف ہڑتال کا لائحہ عمل مرتب کیا جا سکے کیونکہ مجرم اورجھوٹا شخص بزدل ہوتا ہے اسی لیے وکلا کی طرف سے ہڑتال کی تیاریوں کی بھنک پڑتے ہی ڈی پی او اسد مظفرنہ صرف تمام وکلا کو بے گناہ لکھنے کا حکم دیتا ہے بلکہ چالاکی و ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند ایک اہلکاروں پر ملبہ ڈال کر معطل بھی کر دیتا ہے۔ چوری و سینہ زوری اورحماقت کا ایسا مظاہرہ گجرات میں عام ہے جوپولیس کی رسوائیاں بڑھانے کابڑا سبب ہیں۔
ساروکی سے ایک معصوم اور بے گناہ محمد مسعودنامی شخص کو کئی افراد کی موجودگی میں گرفتارکیا گیا لیکن ڈھیروں گواہوں کی موجودگی کے باوجود پولیس گرفتاری سے صاف مُکر جاتی ہے۔ محمد مسعود ایک پڑھالکھا اورعزت دار بزرگ تھاجو صوبائی وزیر کے ساتھ بطور پی ایس او فرائض ادا کرتے آخرکار گریڈ سترہ میں ملازمت سے سبکدوش ہوا۔ڈنمارک میں مقیم اُس کا بیٹا تنویر مسعود روتا،بلکتا اور تڑپتا کئی ایک سیاسی اور سماجی شخصیات سے رابطہ کرتا اور پولیس حراست سے بیمار والد کو چھڑانے کی التجائیں کرتا رہا مگر کہیں شنوائی نہ ہوئی ۔کئی ہفتے بغیر کسی مقدمہ تھانے میں بندرکھنے سے ضعیف العمرمحمدمسعود حراست کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا لیکن پولیس کارویہ عجیب رہا۔اہلِ خانہ کو مجبور کیاگیا کہ شورشرابہ کیے بغیرخاموشی سے دفن کردیں۔ وگرنہ مزید پریشانیوں کا شکار ہوجائوگے ۔خانہ پُری کے لیے چند اہلکار معطل کیے گئے۔ ایسا مکاری و ہوشیاری کا مظاہرہ ڈی پی اوگجرات کی سرپرستی میں آئے روز ہوتا ہے۔ اپنی سفاکی اورسنگدلی کی پردہ پوشی کے لیے ڈی پی اوگجرات آئے روز اخبارات و جرائد میں اپنی قصیدہ خوانی کراتا ہے لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کوئی شخص کسی کے لکھے جھوٹ پر اعتبار کر سکتا ہے؟ظاہر ہے نہیں ظالم و جابرفرمائشی تعریفیں لکھواکرکبھی معتبر نہیں بن سکتا ۔
گجرات پولیس آئے روز اپنے سربراہ کی قیادت میںظلم و ستم کی داستانیں رقم کرتے ہوئے رسواہورہی ہے، لیکن ڈی پی او اپنی حرکات و سکنات میں تبدیلی لانے پر آمادہ نہیں ۔ظاہر ہے موصوف کے پاس کوئی تگڑی سفارش ہو گی ۔اسی لیے بلا خوف و خطر جسے چاہتا ہے ماتحتوں کے ذریعے اُٹھوا لیتا ہے۔ کیونکہ محاسبے کا اندیشہ نہیں۔ تبھی بے رحم اورظالمانہ کارروائیوں میں مصروف ہے۔ اسد مظفر بظاہر سید کہلواتا ہے لیکن رحم یا انصاف دونوں صفات سے محروم ہے اگر کوئی عام سائل آجائے تو سرِ عام تذلیل کرنامعمول ہے۔ البتہ زمینوں کے کاروبار سے وابستہ صاحب ِ ثروت افراد سے علیحدہ ملنا نیز راز ونیاز کرنابہت پسندہے۔ حالانکہ یہ ملنے والوں میں سے اکثرپر زمینوں پر قبضے کرنے اورغریب افراد کوبے گھرکرنے جیسے سنگین الزامات ہیں اور کاروبار میں دیانتداری وشفافیت کا فقدان ہوتا ہے۔ اِس کے باجود التفات ناقابلِ فہم ہے ۔
گجرات میں ایک نوجوان ڈاکٹر زیشان انور کو صبح سویرے مصروف ترین شاہراہ پر قتل کر دیا گیا لیکن قاتل گرفتار کرنے کی بجائے پولیس روایتی طریقہ کار سے مقتول کے ورثا کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی رہی ۔دن دیہاڑے ایک ڈاکٹر کی ہلاکت پر ڈاکٹر کمیونٹی میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے قاتلوں کی جلد گرفتاری کے لیے ڈاکٹرزڈی سی دفتر کے باہر دھرنادیتے ہیں اِس دوران بار بار ڈی پی او اسد مظفر سے مذاکرات بھی ہوتے ہیں۔ وہ جلد گرفتاری کی یقین دہانی بھی کراتے ہیں لیکن نتیجہ صفر رہتا ہے۔ کئی ہفتوں تک قاتلوں کی عدم گرفتاری پر ڈاکٹرز میں اشتعال بڑھنے لگتا ہے جسے بھانپ کر پولیس ایک دن اچانک اعلان کردیتی ہے کہ مقتول ڈاکٹرذیشان انورکے قاتل گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ مقتول کی والدہ اور ڈاکٹرز کویہ کہانی سنائی جاتی ہے کہ ڈاکٹرذیشان انور کا قتل روڈ پر ہونے والی ایک معمول کی ڈکیتی تھی اور بھتے کی محض قیاس آرائیاں ہیں جونہی ورثا اور ڈاکٹرز کا دبائو کم ہوتا ہے تو گرفتاردونوں افرادکو پولیس مقابلے میں مار دیتی ہے بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ گرفتار افراد لاوارث قسم کے خانہ بدوش تھے۔ گجرات پولیس کچھ اِس طرح کی ہی کارکردگی دکھانے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ کارکردگی نہیں بلکہ رسوائیوں میں اضافے کے سواکچھ نہیں ۔ابھی رواں ہفتے ہی تھانہ کڑیانوالہ میں گرفتار ایک شخص کو ڈکیت ہونے کے الزام پر پولیس مقابلے میں ماراگیا ہے جس کے بارے معلوم ہواہے کہ اسی تھانہ میں چند ماہ قبل گرفتار بھی رہا اورپھر بے گناہ ثابت ہونے پر رہا ہو چکا تھا۔اب ارباب و بست و کشادسے سوال ہے کہ کیاکوئی بے لگام گجرات پولیس کے ظلم و بربریت کا حساب لے گا یا اسی طرح قتل وغارت کی کُھلی چھٹی ملی رہے گی اور وہ رسوائیوں کی پاتال میں گرتی چلی جائے گی؟ متوقع آئی جی بلال صدیق کمیانہ کو اِس بارے میں سوچناہوگا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں