ووٹرز کی بے قدری
شیئر کریں
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی منافع خوروں نے لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کرنا شروع کردیے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی تھیں لیکن رمضان آتے ہی ملک بھرمیں مہنگائی کی نئی لہر آ گئی ہے۔ آٹے چاول دال اورمختلف اقسام کی سبزیوں کی قیمتیں بڑھنے سے غریب طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔ عوام کی اکثریت دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں اور بے رحم منافع خوروں نے موجودہ رمضان المبارک کو ملکی تاریخ کا سب سے مہنگا مہینہ بنا دیا ہے۔ اوپر سے حکمرانوں کی ناکام اور بدترین پالیسیوں کی وجہ سے کسان بدحال، عوام مایوس اور نوجوان بے روزگار ہیں۔
پورے ملک میں ہر طرف غربت ناچ رہی ہے اور اسی غربت کو ختم کرنے کے لیے حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کررکھا ہے جس کے پیسے حاصل کرنے والی خواتین کو تو ذلیل وخوار ہوتے دیکھا ہی تھا۔ اب آٹے کی قطاروں میں انہیں پیروں تلے مرتے بھی دیکھ رہا ہوں ۔ عوام کے ووٹوں سے آنے والی یہ کیسی جمہوری حکومت ہے جو اپنے ووٹروں کو ہی مارنے پر تلی ہوئی ہے، کیسے حکمران ہیں جنہیں احساس ہے نہ ہی شرم۔ صبح سے شام 4بجے تک روزے کی حالت میں مجبور خواتین کو اے ٹی ایم مشینوں کے باہر رلتے دیکھ کر سر شرم اور ندامت سے جھک جاتا ہے اور پھر جب آٹے کے تھیلے کے ساتھ انکی لاش دیکھتا ہوں تو ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے، کتنے بے حس حکمران ہیںجو چند سو روپے کی خاطر غریبوں کا مذاق اڑا رہے ہیں حالانکہ یہ اتنا آسان طریقہ ہے کہ بغیر کوئی وقت ضائع کیے پیسے مستحق افراد تک پہنچ سکتے ہیں۔ آج کل موبائل میں ہر انسان بنک لیے پھرتا ہے حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے غریبوں کو اگر دینے میںمخلص ہے تو پھر ان کے موبائل اکائونٹ میں ٹرانسفر کردیے جائیں لیکن جو حالت اے ٹی ایم مشینوں کے باہر میں نے خواتین کی دیکھی وہ انتہائی قابل افسوس ہے۔ کیا یہ کسی کی مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں نہیں ہیں جو انہیں اس طرح سڑکوں پر خوار کیا جارہا ہے۔ حکمران بننے والے کیوں اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ وہ خاندانی بادشاہ نہیں ہیں جو صدیوں تک انکا یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔آج اگر یہ حکمران بنے ہوئے ہیں تو کل پھر انہیں اسی عوام کے پاس جانا پڑے گا اور اسی خوف سے تو یہ الیکشن نہیں کروا رہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ الیکشن سے عوام کی توجہ اِدھر اُدھر کرنے کے لیے یہ سارے تماشے کیے جارہے ہیں۔ اقتدار ہے ہی ایسی چیز جس کے پاس ہو وہ چھوڑنے کا نام نہیںلیتا لیکن وقت بھی بڑا ظالم ہے، جب کسی کو اقتدار سے نکالنے پہ آتا ہے تو پھر اسکا نام ونشان بھی مٹ جاتا ہے۔
پاکستان کے طاقتور ترین سیاسی حکمرانوں میں ذوالفقار علی بھٹو تخت سے تختہ دار تک پہنچ گیا ،بینظیر بھٹو کو ا قتدار سے فارغ کیا ۔میاں نواز شریف کو وزیر اعظم ہائوس سے جیل بھیجا گیا اور عمران خان کو اقتدار سے چٹکیوں میں فارغ کردیا گیا اور جو فوجی آمر آئے وہ بھی اپنے دور کے مضبوط ترین حکمران تھے لیکن کہاں گئے اور گم ہو گئے کسی کو یاد نہیں۔ عراق کے مضبوط ترین صدر صدام حسین کو بھی جب اقتدار سے فارغ کیا گیا تو پھر اسے بھی چھپنے کی جگہ نہیں ملی۔ اسی طرح آج کل ہمارے حکمران بھی ہر قیمت اور حربے پر اقتدار کی کرسی سے چِمٹے رہنا چاہتے ہیں۔
آئین پر عمل کی بجائے اسے بھی مذاق بنایا جارہا ہے ۔ وقت پر الیکشن نہ کروانے کی ضد کی وجہ سے اس وقت جمہوریت، سیاست، معیشت سمیت سب کچھ دائو پر لگ چکا ہے تو دوسری طرف ملک میں ڈھائی کروڑ بچے غربت کی وجہ سے ا سکولوں سے باہرہیں 80 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم اور لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی بنجر پڑی ہوئی ہے معیشت تباہ، بیروزگاری عام اور مہنگائی نے لوگوں کے ہوش اڑاکے رکھے ہیں اور حکمرانوں نے کراچی سے لے کر چترال تک عوام کو ریوڑ کی طرح آٹے کی ٹرکوں کے پیچھے لگا رکھا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے جھوٹے وعدوں اور نعروں کے سوا کچھ نہیں ہے جس کی وجہ سے ملک بند گلی میں، ادارے بے توقیر اور ایوان تماشابنا ہوا ہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ تمام ادارے مکمل طور پر غیر جانبدار ہوجائیں تاکہ صاف اور شفاف انتخابات ہوں سکیں ۔ اگر وقت پر آئین کے مطابق الیکشن نہ ہوئے تو ملک میں رہی سہی جمہوریت بھی ختم ہو جائے گی۔ اسی لیے تو سپریم کورٹ نے الیکشن التوا کیس میں حکومت کی جانب سے فنڈز نہ ہونے اور دہشت گردی کے سبب انتخابات ملتوی کرنے کے موقف کو مسترد کردیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے لیے قانون کی حکمرانی لازمی اور انتخابات ضروری ہیں۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی ۔سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے ۔ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے معاشی حالات دیکھیں آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں اور اداروں کو بے توقیر کیا جارہا ہے۔ ایک ایک بندے پر درجنوں کیس کیے جارہے ہیں اور پولیس کی کارستانیاں دیکھیں وہ کیسے اپنے آپ کو تباہ کررہی ہے۔ حسان نیازی پر کیسوں کی بھر مار کردی اور پھراسکے بعد اسلام آباد کچہری میںوکلاء نے پولیس کا داخلہ بند کردیا ۔لاہور میںحالات ابھی تک کشیدہ ہیں۔ حکمران سمجھتے ہیں کہ شاید عوام بیوقوف ہیں لیکن انہیں سب علم ہے کہ حکمران طبقہ کی جنگ کرسی، ذات اور مفادات کے لیے ہے جو کرپٹ نظام کے محافظ بھی ہیں ۔ان سب نے توشہ خانہ لوٹا قومی خزانہ اور ملکی وسائل پر ہاتھ صاف کرکے اندرون بیرون ملک اربوں کی جائیدادیں بنائیں ۔ ملک کے صرف اٹھارہ بڑوں کے چار ہزار ارب کے اثاثے ہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ جس ملک میں عوام آٹے کی لائنوں میں ہوں وہاں حکمرانوں نے اتنی دولت کہاں سے کمائی؟جبکہ قوم کی گردنوں پر مسلط ظالم جاگیرداروں اور کرپٹ سرمایہ داروں کو کوئی ادارہ، نیب یا عدالت کرپشن پر نہیں پوچھتی اور رہی سہی کسر نیب قوانین میں تبدیلی کرکے پوری کردی گئی ہے۔ اس گھسے پٹے جمہوری بادشاہی نظام سے جان چھڑوانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ الیکشن کروائے جائیں کیونکہ ووٹ کی طاقت سے ہی ان کا احتساب ممکن ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو اداروں کا وقار ختم ہو جائیگا اور جو حالات شروع ہوچکے ہیں اس کا انجام کیا نکلے گا،سوچ کر وحشت ہوتی ہے۔ ان تمام باتوں سے ہٹ کر نگران وزیر اعلی محسن نقوی دن رات کچھ نہ کچھ ایسا کرنے کی فکر میں رہتے ہیںکہ جس سے عوام کا فائدہ ہوسکے اور اسی مقصد کے لیے انہوں نے صوبہ بھرمیں شہریوں کی سہولت اور رش کم کرنے کیلئے مفت آٹے کے سینٹرزکو صبح 6 بجے کھولنے کاحکم دیا ہے اور اب تک لاہور ہی وہ شہر ہے جو آٹے کی تقسیم میں پر امن ہے کیونکہ یہاں پرکمشنر علی رندھاوا اور سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ کی براہ راست نگرانی شامل ہے۔ اسی طریقہ کارکو باقی شہروں والے بھی اپنا لیں تو حالات کسی حد تک قابو میں رہیں گے اور لوگوں کا وقت بھی بچے گا، ویسے تو حکومت کو چاہیے کہ عوام کو اتنا ذلیل وخوار کرنے کی بجائے اتنے ہی پیسے ان کے موبائل اکائونٹ میں ڈال دیں تاکہ وہ گھر پر بیٹھ کر اپنا کوئی اور کام کرلیں ۔
٭٭٭