میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پیکا قانون تحفظ یا عدم تحفظ

پیکا قانون تحفظ یا عدم تحفظ

ویب ڈیسک
جمعرات, ۳۰ جنوری ۲۰۲۵

شیئر کریں

میری بات/روہیل اکبر

آج کل حکومت نے صحافیوں کو مصروف رکھنے کے لیے پیکا بل منظور کرلیا گیاہے جو تحفظ کے ساتھ ساتھ عدم تحفظ بھی ہوگا ۔میں سمجھتا ہوں کہ جو کام حکومت کے کرنے والے ہیں ان پر توجہ نہیں بلکہ خوامخواہ عوام کو مصروف رکھنے کے لیے کبھی عدالتی نظام کو چھیڑا جاتا ہے تو کبھی صحافتی نظام کو حالانکہ یہ دونوں نظام وہ کام کررہے ہیں جو حکومت کو کرنا چاہیے۔ صحافی اور جج نہ تو عوام کے ووٹوں سے آتے ہیں اور نہ ہی ایرے غیرے اور نتھو خیرے ہوتے ہیں ،بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ،حساس ذہنوں کے مالک اور سمجھ بوجھ رکھنے والے اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں جو اپنی محنت اور قابلیت کی وجہ سے دن رات عوام کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر یہ دونوں قسم کے لوگ پاکستان میں نہ ہوں تو پھر آپ کو ہر طرف غلامی کی زنجیروں میںجکڑے ہوئے انسان نظر آئیں ۔عوام کی جان ومال کا تحفظ اور انہیں عزت دینا ہمارے حکمرانوںکا کام ہے جوکم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے انہوں نے ہی عوام کو سسکنے ،بلکنے اور
مار کھانے کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔ اس وقت ہر ادارے میں عوام کو ذلیل ورسوا کیا جارہا ہے۔ خاص کر پولیس نے تو غنڈہ گردی کی اخیر کررکھی ہے اور رہی سہی کسر ہماری سی آئی اے نے پوری کررکھی ہے۔ جس کوجہاں سے مرضی اٹھا لیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور تو اور پکڑنے کے بعد بدترین تشدد تو ہوتا ہی ہے ،ساتھ میں اس کی اطلاع بھی کئی کئی دن نہیں دی جاتی ۔اس لیے حکومت کو چاہیے کہ صحافت کو پابند سلاسل کرنے کی بجائے اداروں کا قبلہ درست کرے، جبکہ پیکا بل کو اتنا سخت نہ بنائے کہ عام لوگوں کی آواز اٹھنا ہی بند ہوجائے ۔
ویسے پیکا ایکٹ ترمیمی بل2025 کیا ہے؟ پیکا قوانین میں ترامیم سوشل میڈیا پرغلط خبروں کے پھیلاؤ کوروکنے کے لیے کی گئی ہیں تاکہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص یا ادارے کو بدنام نہ کرے ایوان سے منظورشدہ پیکاآرڈیننس بِل کو دی پریوینشن آف الیکٹرنک کرائمز (ترمیمی) بل 2025 کا نام دیا گیا ہے۔پیکاقوانین کے مجوزہ ترمیمی بل کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ اتھارٹی کا مرکزی دفتراسلام آباد میں ہوگااور ذیلی دفتر صوبائی دارالحکومتوں میں بھی قائم کیا جائے گا ۔ترمیمی بل میں کہا گیا کہ اتھارٹی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کرے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا صارفین کے تحفظ اورحقوق کویقینی بنائے گی اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی رجسٹریشن کی مجازہوگی۔ پیکاترمیمی قوانین کے مطابق سوشل میڈیا پرغیرقانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہوگا۔ اتھارٹی کل 9 اراکین پرمشتمل ہوگی، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا ایکس آفیشواراکین ہوں گے بیچلرز ڈگری ہولڈراورمتعلقہ فیلڈمیں کم ازکم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا۔ چیئرمین اورپانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لئے کی جائے گی، حکومت کی جانب سے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے ۔ایکس آفیشل اراکین کے علاوہ دیگرپانچ اراکین میں دس سالہ تجربہ رکھنے والاصحافی، سافٹ وئیرانجینئر، ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔ بل کے مطابق چیئرمین اتھارٹی سوشل میڈیا پرکسی بھی غیرقانونی موادکو فوری بلاک کرنے کی ہدایت دینے کامجازہوگا۔ اتھارٹی کا چیئرمین اوراراکین کسی دوسرے کاروبارمیں ملوث نہیں ہوں گے۔ نئے ترمیم شدہ پیکا آرڈیننس کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اتھارٹی سے رجسٹرکرانا لازمی قراردیا گیا ہے۔ اتھارٹی نظریہ پاکستان کے برخلاف، شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنیکی مجازہوگی۔ اتھارٹی آرمڈ فورسز، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیرقانونی مواد کو بلاک کرنیکی مجاز ہوگی ۔پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران حذف کیے گئے ۔مواد کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیںکیا جا سکے گا۔ پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات سوشل میڈیا پربھی اپلوڈ نہیںکیے جا سکیں گے ترمیم کے تحت سوشل میڈیا شکایت کونسل قائم کی جائے گی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی ٹربیونل سے رجوع کرے گی پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے تحت ٹربیونل کا قیام لایا گیا ہے۔ ترمیمی ایکٹ پرعملدرآمد کے لئے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی۔ ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہوگا ،ٹربیونل کے فیصلے کوسپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں میں چیلنج کیا جا سکے گا۔ پیکاترمیمی بل کے تحت فیک نیوزپھیلانیوالے شخص کو تین سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔ سوشل میڈیا پرغیرقانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لئے وفاقی حکومت قومی سائبرکرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی ۔ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہوگا جس کی تعیناتی تین سال کے لیے ہوگی، اتھارٹی کے افسران اوراہلکاروں کے پاس مساوی پوسٹ کے پولیس افسران کے اختیارات ہوں گے۔ نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کا سائبرکرائم ونگ تحلیل کردیا جائے گا۔
منظورشدہ بل میں پیکا ایکٹ میں ایک نئی شق سیکشن 26 (اے) کو شامل کیا گیا ہے جو آن لائن فیک نیوز پھیلانے والوں کیخلاف سزاسے متعلق ہے۔ فیک نیوز یعنی جعلی خبریں سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر اب نہ صرف پانچ سال تک کی قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتاہے بلکہ اسے ناقابل ضمانت جرم بھی قراردیا گیا ہے اس قانون کے تحت کارروائی کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو گرفتاری کے لیے کسی وارنٹ کی بھی ضرورت نہیں ہوگی جبکہ پیکا آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس ترمیم میں فیک نیوزکی تشریح نہیں کی ہے جس سے اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے ۔واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں الیکٹرانک کرائم روکنے کیلئے پیکا ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے جبکہ صحافتی تنظیموں نے پیکا ایکٹ میں ترامیم کا بل مسترد کردیا ہے جبکہ حکومت کی کسی بھی اتحادی جماعت کی جانب سے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کی مخالفت نہیں کی گئی، صرف اپوزیشن کی جانب سے بل پیش کیے جانے سے قبل ہی واک آؤٹ کیا جا چکا تھا ۔پیکاترمیمی بل کیخلاف صحافتی تنظیموں نے احتجاج کیساتھ واضح اعلان کیا ہے کہ عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جائیگا جہاں سے انصاف کی توقع ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں