شہری سے مہنگا پلاٹ سستا خریدنا مہنگا پڑ گیا
شیئر کریں
پولیس افسر اور صحافی کی منصوبہ بندی ایڈیشنل آئی جی کراچی ثناءاللہ عباسی نے ناکام بنادی
عقیل احمد راجپوت
سرکاری ملازمین میں کرپشن کرکے کروڑ پتی‘ ارب پتی بننے اور پھر سیاست میں آنے کی بنیاد سابق بیورو کریٹ امتیاز شیخ نے ڈالی۔ جنہوں نے 1986 ءمیں سرکاری ملازمت اسسٹنٹ کمشنر کے طو رپر شروع کی اور پھر 2002 ءمیں استعفیٰ دے کر سیاست کی وہ سولہ سالوں میں کھرب پتی بنے اور پھر مہنگے وکیل کرکے عدالت سے اجازت نامہ لے لیا کہ اب وہ سرکاری ملازم نہیں رہے اور پھر سیاست میں آگئے۔ پہلے سندھ ڈیموکریٹک الائنس بنایا۔ پھر اس کو مسلم لیگ (ق) میں ضم کیا ‘ پھر مسلم لیگ فنکشنل میں گئے اور اب وہ پی پی میں شامل ہوکر ”ترقی “کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
امتیاز شیخ کو آئیڈیل بنا کر پولیس افسر یا پھر سویلین افسر بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے پیٹرول پمپ بنائے‘ شاپنگ سینٹر بنائے‘ زرعی زمینیں حاصل کیں۔ دبئی‘ امریکا‘ کینیڈا‘ ملیشیا میں سرمایہ کاری کی۔ اس وقت سندھ کے 250 سے زائد ایسے افسران ہیں جو سرکاری پیسہ لے کر ملک سے بھاگ گئے اور وہاں کاروبار کرکے بقیہ زندگی عیاشی سے گزاررہے ہیں۔ ان میں ثاقب سومرو‘ فرحان نبی جونیجو‘ لئیق میمن ایسے نام شامل ہیں جو ملازمت کے دوران میں کرپشن کر کے ملک سے فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو گئے اور اب وہاں مزے سے کاروبار کررہے ہیں۔ اس دوڑ میں پولیس افسران بھی پیچھے نہیں ہیں۔ آج سے دس سال قبل چند پولیس افسران کے نام درجنوں پیٹرول پمپ سامنے آئے تب ان پولیس افسران کو پیٹرولیم سروس آف پاکستان (پی ایس پی کا مخفف بگاڑ کر) پکارا جانے لگا۔ حالانکہ پی ایس پی کا مخفف پولیس سروس آف پاکستان ہے۔ جب وفاقی حکومت اور حکومت سندھ نے ان کے خلاف کارروائی نہ کی تو پھر وہ پولیس افسر تو شیر بنے ہی تھے مگردوسروں کی بھی حوصلہ افزائی ہونے لگی۔ بعدمیں ایک نئی کھیپ نے کرپشن کلب کی رکنیت حاصل کی ۔سندھ کے آئی جی پولیس غلام حیدر جمالی کی اس کی سب سے شرمناک مثال ہے۔ اس کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ سکھر کے ایک پیٹرول پمپ کا بل منظور کیا کہ اس پیٹرول پمپ سے سات کروڑ روپے کا جہاز کا تیل خریدا گیا۔ اس سے بڑا لطیفہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ سکھر میں 7 کروڑ روپے کا ہیلی کاپٹر وہاں کیا کررہا تھا؟ جب سپریم کورٹ نے اسپر اُن کی سخت گوشمالی کی ، تب کہیں جاکر انہوں نے عہدے کی جان چھوڑی خیر سے اب غلام حیدر جمالی نے اپنے بیٹے کو ملیشیا میں کاروبار منظم کرکے دیا ہے۔ وہ اس سال میں ریٹائرڈ ہوجائیں گے اس کے بعد وہ یا تو کاروبار کریں گے یا پھر سیاست کریں گے۔ اسی طرح کراچی پولیس میں بھی ایسے افسران آگے بڑھتے جارہے ہیں جو خیر سے غلام حیدر جمالی کی کرپشن کو ابھی سے مات دے رہے ہیں۔ ایسے کئی ناموں میں دو اشرافیہ کے نام پیر محمد شاہ اور اظفر مہیسر بھی ہیں۔ اظفر مہیسر کا ایک کاروباری شراکت دار سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر بنا تھا مگر سپریم کورٹ نے ان کا آﺅٹ آف ٹرن پروموشن ختم کرکے انسپکٹر بنا دیا۔ خیر پیر محمد شاہ اور اظفر مہیسر کا ایک فرنٹ میں صحافی بھی ہے جو شاید زمینوں‘ فلیٹوں اور بنگلوں پر قبضے کرنے کے لئے صحافت میں آیا ہے، ورنہ اس کو تو ایک صفحہ بھی لکھنا نہیں آتا۔ یہ صحافی پچھلے تین سالوں سے گلستان جوہر میں ظلم کی رات گرم کیے ہوئے ہیں۔
آج سے چھ ماہ قبل محکمہ اینٹی کرپشن نے آصف شیخ کو گرفتار کیا تو اظفر مہیسر خیرپور سے کراچی آئے اور اس صحافی کو لے کر چیئرمین اینٹی کرپشن کے گھر گئے اور وہاں نذرانہ پیش کیا۔ اس وقت چیئرمین اینٹی کسی اور ہی دنیا میں مگن تھے مگر جیسے ہی لکشمی کا دیدار ہوا تو ان کا خمار ٹوٹ گیا۔ اظفر مہیسر اور پیر محمد شاہ زمینوں پر قبضوں‘ گھروں پر قبضوں‘ فلیٹوں پر قبضوں میں اس صحافی کو آگے رکھتے ہیں۔ آج سے ایک ہفتہ قبل پیر محمد شاہ اور اظفر مہیسر نے ایک شہری حسین میاں سے رابطہ کیا اور ملیر کینٹ کے قریب چار کروڑ روپے کا ایک پلاٹ 45 لاکھ روپے میں خریدنا چاہا۔ حسین میاں کی اولاد اور اہل خانہ نے مزاحمت کی تو دونوں ایس ایس پیز نے مذکورہ صحافی کو ملیر کینٹ تھانے بھیج دیا اور ایس ایچ او راﺅ دلشاد نے حسین میاں کو گرفتار کرلیا اور اس پر پوری رات دباﺅ ڈالا گیا کہ وہ فوری طور پر یہ پلاٹ دونوں ایس ایس پیز اور صحافی کو فروخت کریں لیکن اس نے انکار کیا۔ ایس ایچ او راﺅ دلشاد نے حسین میاں کو مقابلہ میں مارنے کی دھمکی دی۔ علی الصبح قائم مقام ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس ثناءاللہ عباسی نے حکم جاری کرکے حسین میاں کو رہا کرا دیا اور تحقیقات کرکے دو روز بعد ایس ایچ او راﺅ دلشاد کو معطل کردیا۔ تحقیقات میں یہ بات سامنے آگئی کہ دونوں ایس ایس پیز اور صحافی کے 45 لاکھ روپے ڈوب گئے۔ مذکورہ صحافی نے درجنوں مرتبہ ایڈیشنل آئی جی ثناءاللہ عباسی کو فون کیے۔ ایس ایم ایس بھیجے مگر ثناءاللہ عباسی نے اس کا جواب نہیں دیا۔ اب اس پورے واقعہ کی تحقیقات ایس ایس پی ایسٹ فیصل چاچڑ کو دے دی گئی ہے جس کے بعد دونوں ایس ایس پیز اور صحافی کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔ الزام کی زد میں آنے والے مذکورہ صحافی مشتاق سرکی سے رابطہ کرنے کی متعدد بار کوشش کی گئی مگر اس نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔ اطلاعات کے مطابق وہ اس وقت ثناءاللہ عباسی کو راضی کرنے میں مصروف ہیں۔