سفر یاد۔۔۔ قسط49
شیئر کریں
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا الٹا دیر سے جانے کی وجہ سے کئی بار ٹیکسی کا کرایہ جیب سے دینا پڑتا تھا۔ ہم نے کئی بار مصری منیجر سے کہا کہ ہمیں اس مشکل سے نجات دلائی جائے لیکن اس نے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا۔ ہم نے جلال صاحب سے مشورہ کیا کہ ان حالات میں کیا کیا جائے، جلال صاحب کاکہنا تھا کہ ہمیں زیادہ سر کھپانے کی ضروت نہیں ہے جتنا کام ہو جائے کر لو باقی رہنے دو انہوں نے یہ بھی کہا کہ دفتر کا وقت ختم ہونے کے بعد یہاں بیٹھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں اپنی وین پکڑو اور ولا جاو¿۔ ہم نے کہا جلال صاحب بات اصل میں یہ ہے کہ ہم کام چور نہیں اور سیمی کا کام پہلے نمٹانے کی وجہ یہ ہے کہ کہیں یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم زمہ داری سے بھاگ رہے ہیں۔ ویسے ہمارے دل میں کہیں یہ خیال بھی موجود تھا کہ ہو سکتا ہے سیمی کے نہ آنے کی صورت میں ہمیں اس کی جگہ مستقل کر دیا جائے یعنی ہم اپنے شعبہ کے ہیڈ بن جائیں ایسا ہو جاتا تو تنخواہ بھی بڑھ جاتی اور ہمیں کمپنی کی طرف سے گاڑی بھی مل جاتی لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ سیمی آئے یا نہ آئے اس کا کام ہمیں کو کرنا ہے۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ سیمی نے اپنا استعفیٰ بھجوا دیا ہے کچھ گھریلو زمہ داریوں کی وجہ سے وہ واپس نہیں آسکتا تھا اس لئے اس نے فلپائن ہی میں رہنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ہم سمجھے کہ اب شائد ہماری بات بن جائے ہم نے مصری انجینئر سے بات کی لیکن وہ ہمیشہ کی طرح ٹال گیا۔ ہم نے پھر جلال صاحب سے مشورہ کیا کہ اب تو سیمی کے آنے کی کوئی امید ہی نہیں رہی اس نے نوکری چھوڑ دی ہے اب کیا کیا جائے۔ جلال صاحب نے مشورہ دیا کہ کمپنی کے ایم ڈی کو درخواست دی جائے وہاں سے کوئی اچھی خبر آنے کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ ہم نے جلال صاحب کا مشورہ مانا اور کمپنی کے ہیڈ آفس درخواست بھیج دی۔ اس دوران ایک مہینہ اور گزر گیا ہیڈ آفس سے ہماری درخواست کا کوئی جواب نہیں آیا۔ ہمارا دل کام سے اچاٹ ہو چکا تھا ایک تو دو الگ الگ زمہ داریاں دوسرے کوئی صلہ بھی نہیں۔ پیسے نہ ملتے شاباش ہی مل جاتی تو کچھ دل ہلکا ہو جاتا لیکن یہاں تو الٹا ہو رہا تھا۔ ہمارا کام میں دل نہ لگنے کی وجہ سے کام رکنے لگا تھا جس پر ہمیں مصری منیجر اور کالج انتظامیہ دونوں کی اچھی بری سننے کو مل رہی تھیں۔ ہم اس صورتحال سے بہت دلبرداشتہ ہو چکے تھے لیکن ہمارا کوئی بس نہیں چل رہا تھا، کنٹریکٹ ملازمت چھوڑ بھی نہیں سکتے تھے پاسپورٹ کمپنی کے پاس تھا اس لئے پاکستان واپس بھی نہیں جا سکتے تھے۔
ان حالات نے ہمیں چڑچڑا سا کر دیا تھا کھانے پینے کی روٹین تبدیل ہونے سے صحت پر بھی برے اثرات پڑنے لگے تھے۔ دن یوں ہی گزر رہے تھے ایسے میں ایک دن ہمیں معلوم ہوا کہ کمپنی نے سیمی کی جگہ دوسرا انجینئر بھرتی کر لیا ہے۔ اس خبر سے ہمیں خوشی بھی ہوئی اور مایوسی بھی ، خوشی اس بات کی تھی کہ اب سیمی کا کام ہمیں نہیں کرنا پڑے گا اور افسوس اس بات کا کہ سیمی کی جگہ اتنے عرصے تک کام کرنے کے بعد بھی ہمیں س کی جگہ پرموٹ نہیں کیا گیا تھا۔ دفتر سے معلوم ہوا کہ سیمی کی جگہ کسی بھارتی کو اپائنٹ کیا گیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ شخص ہفتےدس دن میں ریاض آکر کالج جوائن کر لے گا۔ یہ دس دن ہمیں زندگی کے طویل ترین دن لگنے لگے تھے۔ ایک ایک دن ایک ایک سال کی طرح گزر رہا تھا۔ خدا خدا کرکے دس دن بعد پتہ چلا کہ نیا انجینئر ریاض پہنچ چکا ہے اور کل سے کالج جوائن کر لے گا۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اگلے روز دوپہر کے وقت ایک سیاہ رنگ کا پستہ قد شخص دفتر میں داخل ہوا ہم کام میں لگے ہوئے تھے اس لئے زیادہ لفٹ نہیں کروائی وہ شخص ہمارے سر پر آکر کھڑا ہو گیا اور بولا میری سیٹ خالی کرو۔ ہم نے پوچھا جناب آپ کی تعریف تو کہا میرا نام شنکر کمار ہے اور میں نیا انجینئر ہوں۔ ہم نے فوری طور پر سیٹ اس کے حوالے کی اور سیدھا جلال صاحب کے پاس پہنچے ہم نے جلال صاحب سے کہا،یہ شخص تو بڑا بد دماغ ہے ہمیں بالکل پسند نہیں آیا جلال صاحب نے کہا وہ بھی شنکر سے ملے تھے اور انہیں بھی وہ شخص پسند نہیں آیا۔۔۔ جاری ہے۔
٭٭