
کیا تباہی سے بچنے کے راستے بندہیں؟
شیئر کریں
رفیق پٹیل
نو منتخب امریکی صدر کے نامزد نمائندے رچرڈگرینیل کے ٹوئٹس پر بعض پاکستانی وزراء اور دیگر بعض دیگر عہدیداروں کی جانب سے ردّعمل کے جوابات سے پاکستان میں ایک بھونچال پیدا ہو چکا ہے ،خطرہ ہے کہ معاملہ بڑھ جائے گا اور امریکی انتظامیہ ایسے اقدامات پر عمل درآمد کر سکتی ہے جو پاکستان کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کی پابندیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ حیرت ہے کہ پاکستان کے بعض اہم لوگوں نے رچرڈ گرینیل کو براہ راست جواب دے کر ایک قومی نقصان کی راہ ہموار کردی ہے، وجہ یہ ہے کہ اب وہ ہر امریکی امدادکے اخراجات کی تفصیل معلوم کرنا چاہتا ہے ۔اگر ابتدا سے ہی اس مسئلے پر خاموشی اختیا ر کی جا تی تو صورتحال اس قدر خراب نہ ہوتی رچرڈ گرینیل کے سلسلے میں جس قدر گفتگو کی جائے گی مسئلہ اس قدر الجھتا چلاجائے گا اور آنے ولی امریکی حکومت کو ماضی کی تمام کارروائیوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے اور تحقیقات کا بھی جواز مل جائے گا۔ پہلے ہی موجودہ حکومت نے عمران خان کو جیل میں رکھ کر اسے بے انتہا طاقتور کردیا ہے۔
جیل میں گزرنے والا ہر دن عمران خان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ یہی مقبولیت عمران خان کی اصل طاقت ہے موجودہ حکومت عوامی حمایت سے محرومی کے باعث ایسی غلطیاں کر رہی ہے جس کے نتیجے میں حکمراں جماعتوں کا وجود خطرے میں ہے۔ موجودہ سیاسی محاذآرائی سے عدم استحکام میں اضافہ ہوگیا۔
حکمراں جماعت کے خلاف عوام کاغصّہ عروج پرہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی مقبولیت صفر کے قریب پہنچ رہی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ بین الاقوامی مشوروں کو رد کرنے اور ممکنہ تجارتی اور دیگر پابندیوں کے نتیجے میںپیٹرول ایک ہزار روپے لیٹربھی ہوجائے گا تو حکمران جماعت کے اہم عہدیداروں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی اختیار نہیںہے اور طاقتور ادارے کو مورد الزام ٹہرائیں گے۔ ملکوں کی کامیابی کے فارمولے کی مختصر ترین تعریف ”اچھی حکمرانی” ہے اور اس کا بنیادی جزمنصفانہ ،غیر جانبدارانہ اورشفّاف انتخابات ہیں ۔اس کے بر عکس پاکستان میں موجودہ ناقص حکمرانی کی جڑ انتخابی دھاندلی ہے اس کے ردّعمل میں پاکستان کے عوام میں ایک آتش فشاں سلگ رہا تھا جو 26 نومبر کو پھٹا اور دنیا بھر سے پاکستان دبائو شروع ہوگیا ۔مزید خرابی فوجی عدالتوں کی سزائوں سے ہوگئی جسے مہذّب دنیادورجہالت سے تعبیر کرتی ہے ان سزاؤں کے بعد مزید دبائو بڑھتا جا رہا ہے جب تک فروری 2024 کے انتخابات میں ہونے والی وسیع پیمانے پر مبنی دھاندلی کی پردہ پوشی کی جائے گی اور اس جھوٹ کی بنیاد پر قائم کردہ مینڈیٹ سے محروم حکومت کے ذریعے سارانظام چلانے کی کوشش کی جائیگی پاکستان میں عدم استحکام، معا شی بحران کا خاتمہ ناممکن ہوگا۔ اس صورت حال کو برقرار رکھنے کے نتیجے میں ملک زوال اور تباہی کی جانب گامزن رہے گا۔ اس نقصان اور تباہی سے بچنے کے لیے عقلمندی کا تقاضا ہے کہ اس بحران کا سدّباب کیا جائے جس قدر زورموجودہ ناقص حکمرنی کو برقرار رکھنے کے لیے کیا جائے گا ،اس کے منفی نتائج حکمراں طبقے کے لیے بھی شدید نقصان کا باعث ہونگے۔ مسلسل عدم استحکام سے غیر محسوس انداز میں رفتہ رفتہ ملک بتدریج کئی سو سال پیچھے جاسکتاہے ۔محض اقتدار کی خاطر ملکی سالمیت کودائو پر لگا دینا قطعی داشمندی نہیں ہے ۔دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی عوام کی مدد اور تعاون کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی اور نہ ہی اندرونی خلفشاراور انتشار کو روک سکتی ہے۔ سیاسی کارکنوں اور اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف طاقت کے بلاجواز اور غیرقانونی استعمال سے عوام میں نفرت ،بغاوت اور انتہاپسندی پروان چڑھتی ہے۔ عوام کا جمہوریت اور جمہوری اداروں پر اعتماد ختم ہوجائے تو تباہی پھیلانے والی عسکریت پسند قوتّیں نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں جو ملک کے دفاع کو بھی خطرے سے دوچار کرسکتی ہے ۔بد قسمتی سے یہ عمل پاکستان میں جاری ہے۔ انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کا مقابلہ جمہوریت اور وعوامی مینڈیت رکھنے والی حکومت کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ جدید دور میںسیاسی مقاصد کے حصول کے لیے سرکاری طاقت کے منفی استعمال کے طرز عمل کی پردہ پوشی ممکن نہیںہے۔ پاکستان میں ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت کو طاقت سے کچلنے کے مسلسل عمل کا عالمی طاقتیں ،انسانی حقوق کی تنظیمیں اور میڈیا کے نمائندے باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور اس عمل پر مسلسل تنقید بھی کر رہے ہیں۔
موجود ہ دور میںرائے عامہ کو نظر انداز کرنا تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ انٹرنیٹ نے اطلاعات کی ترسیل کو انتہائی تیز رفتا ر بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہر شخص کو اپنی رائے کی اظہار کا موقع فراہم کردیا ہے ۔سوشل میڈیا کو روکنے کا بہترین طریقہ میڈیا پر پا بندیوں کا خاتمہ ہے ۔جب میڈیا آزاد ہوگا اور لوگوں کی اطلاعات تک رسائی ہوگی تو عوام کسی اور میڈیا کے بجا ئے ٹی وی چینلز کو قابل اعتبار سمجھیں گے۔ جب تک حکمران اس بات کا احساس نہیں کریں گے جدید ٹیکنالوجی کی دنیا میں رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے عوامی حمایت یافتہ منتظمین اور عوامی نمائندوں کا سامنے آنا ضروری ہے۔ عوامی حمایت سے محروم حکومت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تسلسل کے نتیجے میںعالمی مالیاتی اداروںپر بھی جو اثرا ت مرتب ہو ں گے۔ ان کو روکنے کے لیے بھی حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ پاکستان کے حالات میں تبدیلی ممکن نہیں ہے عمران خان کی رہائی کو مسلسل ٹالا جائے گا عالمی دبائو اور اندرونی خلفشار سے ملک کو نکالنے کے لیے حکمران قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہونگے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جو اقدامات کیے گئے جس سے ریاست کا ڈھانچہ انتہائی کمزور ہوگیا ہے ۔ریاست کے بنیا دی ستون پہلا ستون مقننہ (قانون ساز ادارے ) مینڈیٹ سے محروم ہیں۔ دوسرا ستون عدلیہ ہے جس کی آزادی حالیہ آئین ترمیم کے ذریعے ختم کردی گئی ہے۔ تیسری انتظامیہ جو احتساب سے بالا تر ہو کر قواعد ضوابط کے خلاف حدود سے آگے بڑھ کر کام کر رہی ہے یعنی ریاست کے تینوں ستون ختم ہورہے ہیں۔ ایک مصنوعی نظام کے ذریعے کیسے ملک کو چلایا جا سکتا ہے ؟ حکمران جب اپنے عہدوںکو ہی ملک سے بالاتصّور کرلیں اور کسی قسم کی قربانی کے لیے تیار نہ ہوں تو تباہی کو کون روک سکتا ہے ۔بیرونی دبائو سے مجبوری میں کچھ معاملات طے کرلیے جاسکتے ہیں لیکن موجودہ ملبے کے ڈھیرکی صفائی کا دائمی حل بڑے پیمانے پر اصلاحات کے ذریعے عوام کی خوشحالی اور انہیں بااختیا بنانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔