میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسرائیل کے خلاف اہل غزہ کی بے مثال استقامت

اسرائیل کے خلاف اہل غزہ کی بے مثال استقامت

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۹ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

اسرائیل کے ساتھ جنگ میں اکیس ہزار شہادتیں دینے کے بعد دنیا عالم پر اہل غزہ نے جو اثرات ڈالے ہیں وہ دو پہلووں پر مشتمل ہیں۔ ایک پہلو اہل غزہ کی عظیم استقامت اور پائیداری پر مبنی ہے جس نے دنیا بھر کے انسانوں کو ”مغربی اقدار” کی حقیقت سے آگاہ کر دیا ہے۔ دوسرا پہلو غاصب صیہونی رژیم کے خلاف اہل غزہ کی بے مثال مزاحمت پر استوار ہے جس کی روشنی میں انہوں نے گذشتہ دو ماہ کے دوران ایسے مناظر پیش کئے ہیں جس کا نتیجہ مغرب کی لبرل سرمایہ دارانہ اور مادہ پرستانہ سوچ کی موت کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔قلم کاروان،اسلام آبادکی ادبی نشست میں "اہل غزہ کی استقامت”کے عنوان سے جناب میرافسرامان نے اپنے مقالہ میں فلسطینی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان،ان کی استقامت اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی کارونارویا۔انہوں نے مسلمانوں کے شاندارماضی سے مثالیں دے کربتایا جب قیادت میں جرات تھی توکوئی بھی فرزندان توحیدکومیلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتاتھااوراب یہ صورتحال ہے کہ کل اسلامی ممالک کے حکمران مل کربھی کوئی فیصلہ نہ کرسکے۔ امت پوری طرح بیدارہے اور قربانی دینے کاجذبہ بھی رکھتی ہے لیکن قیادت کی کم ہمتی اور بزدلی و پست حوصلگی نے اقوام عالم میں امت کو رسواکررکھاہے۔ فلسطینی اسرائیلی درندگی، وحشت اور ظالمانہ سلوک کے خلاف سڑکوں پرہیں۔
شرکاء کا کہنا تھا کہ اہل فلسطین پر قیامت گزررہی ہے اور یہاں انتخابات اور اقتدارکی رسہ کشی اپنے عروج پرہے۔ اگرہم دیگرمسلمانوں کی مددکونہیں اٹھیں گے تو اللہ تعالی کی سخت گرفت میں آجائیں گے۔ دشمنوں کے ساتھ نبردآزماہونے میں اتحادبہت کارآمدہتھیارثابت ہوتاہے۔ دنیامیںہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن صرف ڈنڈے کی زبان ہے جوسب اقوام آسانی سے سمجھ لیتی ہیں،پس جس دن مسلمانوں نے ایٹمی قوت کی زبان بولی تو کشمیر،فلسطین اوربرماسمیت کل امت کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ ہم تب ہی یہودیوں کامقابلہ کرپائیں گے اوران پر غلبہ حاصل کرسکیں گے جب اسرائیلی مصنوعات کے مقابلے میں اپنی معیاری اشیاء میدان میں لائیں گے۔صرف معاشی مقاطعہ (بائیکاٹ) جیسے خالی وجذباتی نعروں سے دیگراقوام کامقابلہ نہیں کیاجاسکتا۔ شرکاء نے جماعت اسلامی کی اس مساعی جمیلہ کوسراہاکہ انہوں نے اہل غزہ کے دردکوسمجھتے ہوئے اس کیمپ کاانتظام کیااوراس میں قلم کاروان کواپنی نشست منعقد کرنے کی دعوت بھی دی۔
اللہ نے اہل ایمان کو واضح اور مستقل حکم دیا ہے کہ وہ اپنے دشمن کے حملوں سے کبھی غافل نہ ہوں۔ اسلامی ریاست اور معاشرے کا فرض ہے کہ وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق جنگی سازوسامان اور فوج کو تیار رکھیں۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمان جو مال و متاع خرچ کریں گے اللہ اس کا بدلہ ان کو دنیا و آخرت دونوں جگہ عطا فرمائے گا۔ نبی پاکۖ اور صحابہ نے ہمیشہ وسائل اور استطاعت کے مطابق جنگی سازوسامان کا اہتمام کیا۔ آج غزہ کے مسلمانوں اور حماس کے مجاہدین نے جرات و استقامت کی کمال مثال پیش کی ہے جس کی نظیر تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ وہ بے سروسامانی کے باوجود اپنے باہنر اور ٹیکنالوجی کے ماہر نوجوانوں کی مدد سے خودساختہ اسلحے سے ایک بڑی فوجی قوت کے مقابلہ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی درندوں نے ہزاروں ٹن بارود استعمال کر کے کئی ہزار بم گرا کر پورے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے مگر حماس نے اس کے ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں کو تباہ و برباد اور سیکڑوں مسلح فوجیوں کو جہنم رسید کر دیا ہے۔ اسرائیل نے جو اکیس ہزار قتل کیے ہیں ان میں بہت بڑی اکثریت معصوم بچوں، خواتین اور مریضوں کی ہے۔ اسرائیل اپنے امریکی اور یورپی سرپرستوں کی مکمل حمایت کے باوجود اس وقت مایوسی کا شکار ہے۔ ایک جانب اندھی قوت ہے اور دوسری جانب ایمان و استقامت ہے، اس جنگ میں ایمان جیتے گا اوراس کے مقابلے پر اندھی قوت اور درندگی مات کھائے گی، یہ اللہ کا وعدہ ہے۔
اہل غزہ ان الہی و الہامی تعلیمات پر عمل کے نتیجے میں ساری امت مسلمہ کے لئے صبر، ایثار اور شہادت، شجاعت، غیرت اور استقامت میں نمونہ اور ماڈل بن چکے ہیں اور اگر آج امت اسلامی کسی کو حافظان حرم اور خادمان حرم کا لقب دنیا چاہے تو یہ مقدس عنوانات صرف انہی جوانوں کا حق ہے جو اسلام اور مسلمین کی عزت و ناموس اور حرم بیت المقدس کا دفاع کر رہے ہیں چونکہ قرآن کریم نے بھی جب مومنوں کو اعزاز سے نوازا ہے تو وہاں پر بھی انکی کارکردگی اور قیام کو معیار قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو قیام اور جہاد نہ کرنے والوں پر فضیلت دی ہے۔ آج غزہ کے غیور جوان، مقبوضہ فلسطین کی راجدھانی اور اسکے دوسرے شہروں پر راکٹوں کی بارش برسا کر شدت پسند غاصب یہودیوں کی زندگی اور تجارت، بے آرام اور متزلزل کرکے ساری دنیا اور خصوصاً عرب غدار حکمرانوں سے اعلان کرتے ہیں کہ فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی ممکن ہے۔
کاش عرب ممالک کی تیل سے حاصل شدہ عظیم ثروت اس وقت حماس کے ان جوانوں کی کام آتی اور بجائے اس کے یہ دولت، شیعہ و سنی، سلفی و غیر سلفی، عیاشی و عیش پرستی پر خرچ ہو۔ یہ دولت اس وقت اسلام کے کام آ کر مسجد اقصی کے غاصب کے تجاوز کو روکتی۔ کاش اس وقت حماس کے پاس جنگی طیارے اور بڑے میزائیل وغیرہ ہوتے تاکہ عربوں کو اسرائیل کے مقابلے میں سرنڈر کرنے کی ذلت سے ہمیشہ کے لئے نجات ملتی اور ایک نئے عادلانہ نظام کی بنیاد پڑتی۔ آج اسرائیل کی 65 سالہ تاریخ میں پہلی بار، اسرائیل اس قدر شدید خوف و دہشت میں مبتلا ہوگیا ہے کہ تقریباً 5 سے لیکر 7 ملین تک کی اسرائیلی آبادی گزشتہ کہیں ہفتوں سے زیر زمین تہہ خانوں میں پناہ لینے کے لئے مجبور ہوگئی ہے اور حماس کے میزائیلوں سے مقبوضہ سرزمین میں اتنی ہلچل اور جنگی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ اسرائیلی حکومت کے تمام اہم دفاتر تعطیل ہوگئے ہیں اور نتین یاہو اپنے آفس میں کابینہ کی ایک بھی میٹنگ بلا نہیں سکے بلکہ ساری جنگی میٹنگیں کسی خفیہ مقام میں بلائی جارہی ہیں۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں