منشیات برآمدگی کیس، میں اپنی گرفتاری کا معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھائوں گا،رانا ثنااللہ
شیئر کریں
پاکستان مسلم لیگ (ن)پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ میں منشیات برآمدگی کیس میں اپنی گرفتاری کا معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھائوں گا اور اسپیکر قومی اسمبلی پر زور دوں گا کہ وہ اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کرتے ہوئے فیکٹ فائنڈنگ پارلیمانی کمیشن بنادیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ، میں اس کے سامنے بھی پیش ہونے کو تیار ہوں ، یا پھر پارلیمنٹ جوڈیشل کمیشن کی سفارش کرے ۔ مجھے امید ہے کہ ارکان پارلیمنٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی اس کا نوٹس لیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر میں عدلیہ سے بھی رجوع کروں گا۔ حکومت کے پاس اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے علاوہ ملک کی بہتری کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے ، میری گرفتاری کی بنیاد بھی یہی سوچ ہی ہے ۔ جس دن مجھے گرفتار کیا گیا اگر اس دن میری اپنی جماعت سے کمٹمنٹ 100فیصد تو آج میری اپنی جماعت اور میاں محمد نواز شریف سے کمٹمنٹ 1000فیصد ہے ۔میاں نواز شریف ہمارے لیڈر ہیں اور وہ آج بھی ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ پر قائم ہیں۔ ان خیالات کا اظہار رانا ثناء اللہ خان نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کو تمام جماعتوں نے قبول کیا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی، پی ایم ایل (ن) اور مولانا فضل الرحمان نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اے این ایف کی جانب سے مجھے گرفتار کرنا میرے لئے حیران کن واقعہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر احمد میمن نے ایک دو جگہ ذکر بھی کیا کہ وزیر اعظم نے میرا نام لے اُنہیں کہا کہ انہیں گرفتار کریں۔ میرے خیال میں جب ایف آئی اے ، نیب اور اینٹی کرپشن سے کوئی خاطر خواہ معاملہ سامنے نہیں آیا تو پھر انہوں نے یہ راستہ اختیار کیا جو کہ میرے خیال میں بدترین اور گھٹیا ترین انتقامی کاروائی ہے ،جس ملک میں یہ ہوسکتا ہے تو پھر اس ملک میں سب کچھ ہی ہو سکتا ہے اور پھر یہ جنگل کا قانون ہے اور یہاں پر کوئی آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں ہے ، اگر ایک پارلیمنٹ کے رکن کو سڑک سے پکڑ کر گودام سے 15کلو ہیروئن اس کے اوپر ڈال دیں اور وہیں سے اپنے گواہ یعنی کوئی انسپکٹر اور کوئی سب انسپکٹر کو گواہ بنا لیں، کوئی تفتیش اور کوئی انکوائری نہ کریں اور اگلے دن عدالت میں پیش کر کے جیل بھیج دیں، یہ کیسا کیس ہے جس میں کوئی انکوائری نہیں ہوئی، کوئی تفتیش نہیں ہوئی اور میرا کوئی بیان ریکارڈ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک کلوز اور بلائنڈ کیس ہے جس کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہئیں ، ہمیں بھی موقع ملنا چاہئے کہ ہم اپنا جواب فائل پر لا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ دوران گرفتاری مجھ پر تشدد تو نہیں کیا گیا تاہم جن حالات میں جیل میں مجھے رکھا گیا میںنہیں سمجھتا کہ اس جیل میں یا کسی اور جیل میں کسی اور کو ان حالات میں رکھا گیا ہوگا۔مجھے قید تنہائی میں رکھا گیا ، صرف میرے اہلخانہ کو مجھ سے ملنے کی اجازت تھی اور میں فرش پر سوتا رہا ہوں،گرفتاری کے دوران کوئی مجھ سے مل نہیں سکتا تھا تاہم میرے اہلخانہ کی حوصلہ افزائی کے لئے میاں نواز شریف خود رابطہ کرتے رہے حالانکہ وہ ان دنوں خود بڑے بیمار تھے ، میاں شہباز شریف دو تین دفعہ میرے گھر آئے ، مریم نواز شریف فیصل آباد میرے گھر آئیں، حمزہ شہباز، حسین نواز اور پارٹی کے تمام دوست اور کوئی چھوٹا بڑا لیڈر نہیں رہا جس نے میری فیملی کو حوصلہ نہ دیا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں غریب آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہے اور مہنگائی اس قدر ہے کہ لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں اور ملک کی معیشت چل نہیں رہی اور حکومت کے پاس ماسوائے اپوزیشن کو گالیاں نکالنے کے اور انتقامی کاروائی کے اور کوئی کام ہی نہیں ہے اس طرح سے نہ ملک چل سکتا ہے اور نہ حکومت چل سکتی ہے تو پھر دوسرا آپشن یقینا الیکشن ہی ہے اور دوسرا آپشن الیکشن ہی ہونا چاہئے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کے اندر تبدیلی نئے الیکشن کے لئے ہونی چاہئے ، شہریار آفریدی ہاتھ میں قرآن پاک پکڑ یں اور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر ان کے خلاف بات کریں ، وہ باالکل قسم نہیں اٹھاتا ، اس نے بالکل قسم نہیں اٹھائی ، وہ کہتا ہے جان خدا کو دینی ، جان تو سب نے خدا کو دینی ہے اس میں ہماری کوئی چوائس نہیں ، یہ تو خدا نے جان لینی ہے ، یہ ہے ہی اس کی۔ جان خدا کو دینی ہے میں نے ویڈیو دیکھی ہے ، لائے وہ ویڈیو کدھر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میرا رویہ باغیانہ نہیں ہے ، میں سیاسی اور جمہوری کارکن ہوں اور میں اپنی جماعت کے ساتھ ہوں اور میں اپنی کمٹمنٹ پر قائم ہوں، لوٹا کریسی کو میں لعنت سمجھتا ہوں ، یہ باغیانہ نہیں بلکہ جمہوری رویہ ہے ، اس جمہوری رویہ کو نہ صرف مجھے جاری رکھنا چاہئے بلکہ ہر شخص کو جاری رکھنا چاہئے ، ووٹ کی عزت سے یہ بالکل مراد نہیں ہے کہ ہمیںووٹ دو ، ہم کہتے ہیں عوام کے فیصلے کا احترام کریں ، تو اس سے ملک آگے بڑھے گا ، سلیکٹڈ اور کٹھ پتلیوں سے ملک آگے نہیں بڑھے گا۔ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کو تمام جماعتوں نے قبول کیا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی، پی ایم ایل (ن) اور مولانا فضل الرحمان نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا حکومت نے خود عدالت میں لکھ کر دیا کہ چھ ماہ میں قانون سازی کر لیں گے اور عدالت نے آپ کو اجازت دے دی تو پھر عدالت کا کون سا فیصلہ ہے جس کے خلاف آپ نظرثانی چاہتے ہیں ، میں سمجھتاہوں کہ حکومت نے اپنی نالائقیوں کی وجہ سے فوج کے ادارے کو اور آرمی چیف کے آفس کو لیٹ ڈائون کیا گیا ہے ۔حکومت نے جو نظرثانی درخواست دی گئی ہے میری ناقص رائے میں یہ بہت زیادتی کی ہے اور اس سے آرمی چیف کے آفس کو اور زیادہ متنازع بنائیں گے۔