میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کے جذبٔہ خیرسگالی کا بھارتی جواب

پاکستان کے جذبٔہ خیرسگالی کا بھارتی جواب

منتظم
جمعه, ۲۹ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

بھارتی حکومت نے پاکستان میں موت کی سزا پانے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے ان کی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات کے ایک روز بعدایک بیان جاری کیاہے جس میںالزام عاید کیاگیا ہے کہ پاکستان نے کلبھوشن کی فیملی کی ’توہین‘ کی اور ملاقات کا جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ طے شدہ اصولوں سے مختلف تھا۔بیان میں یہ الزام بھی عاید کیاگیاہے کہ کلبھوشن کی اہلیہ کا جوتا بھی واپس نہیں کیا۔ پاکستان نیبجا طورپر بھارت کے اس بیان کو مسترد کر تے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ الفاظ کی جنگ میں نہیں پڑنا چاہتا اگر کچھ تحفظات تھے تو انھیں دورے کے دوران یا میڈیا کے سامنے بیان کیا جانا چاہیے تھا جو ملاقات کے وقت دفتر خارجہ کے سامنے موجود تھا۔بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ایک بیان میںالزام لگایاگیاتھا کہ ’سیکورٹی کے نام پر کلبھوشن کی ماں اور بیوی سے مذہبی اور ثقافتی آداب کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔ ان کا منگل سوتر (جو شادی شدہ ہندو خواتین اپنے سہاگ کی علامت کے طور پر گلے میں پہنتی ہیں)، اتروائے گئے۔ ان کے کنگن اور بندی بھی اتروا لی گئی۔ یہی نہیں ان کے کپڑے بھی بدلوائے گئے جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی‘۔رویش کمار نے یہ الزام بھی لگایاکہ ’ اس کی کوئی وجہ ہماری سمجھ میںنہیں آرہی ہے کہ پاکستانی حکام نے میٹنگ ختم ہونے کے بعد کلبھوشن کی اہلیہ کا جوتا کئی بار درخواست کرنے کے باوجود واپس کیوں نہیں کیا۔ ہم انھیں متنبہ کرتے ہیں کہ وہ اس سے کوئی چال چلنے سے باز رہیں‘۔ترجمان نییہ بھی شکوہ کیا کہ کلبھوشن کی والدہ کو ان کی مادری زبان مراٹھی میں بات نہیں کرنے دی گئی اور جب بھی وہ مراٹھی میں بات کرنے کی کوشش کرتیں انھیں روک دیا جاتاتھا۔انھوں نے دعویٰ کیاکہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ ’میڈیا کو فیملی کے قریب نہیں آنے دیا جائے گا اس کے باوجود کئی مرحلوں پر میڈیا کو ان کے نزدیک آنے دیا گیا انھیں ہراس کرنے دیا گیا اور کلبھوشن کے بارے میں جھوٹے اور سوچے سمجھے فقرے کسے گئے‘۔
پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر بھارتی جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادو کی والدہ اور بیوی کو اس سے ملاقات کے لیے ویزا دیا اور ملاقات کرائی پاکستان کی، رحمدلی اورجذبہ خیرسگالی کی انتہا دیکھیں نصف گھنٹے ملاقات طے تھی پاکستان نے10 منٹ اور دے دیے اور 40 منٹ کی ملاقات کرائی گئی‘یہ اور بات ہے کہ بھارت نے اس جذبہ خیر سگالی کا جواب راولا کوٹ میں رکھ چکری کے مقام کو نشانہ بنایا اور گولہ باری سے 3جوان شہید کر دیے ، انڈیا ٹو ڈے نے تو پیغام واضح دے دیا ہے کہ اس ملاقات کے باوجود اس کی پاکستان کے خلاف پالیسی تبدیل نہیں ہو گی۔ پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے مظاہرے ماضی میں بھی کئی مرتبہ ہو چکے ہیں اور جواب ایسا ہی دیا گیا ہے۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ شاید آخری ملاقات کے طور پر یہ ملاقات کرائی گئی ہو لیکن دفتر خارجہ پاکستان نے تو یہی کہا ہے کہ یہ آخری ملاقات نہیں تھی۔

ایک جاسوس کے بارے میں تمام تفتیش مکمل ہو چکی اس کے بارے میں عدالت کا فیصلہ آچکا اب اس کی سزائے موت کے وقت کا انتظار تھا کہ پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے مظاہرے شروع ہو گئے‘ بھارت کے حکمرانوں کا رویہ یہ رہا کہ جب کشمیر پر لچک دکھائی تو وہ کشمیر کے پاکستانی زیر کنٹرول حصے پر بھی دعویٰ کر دیتا ہے۔ واجپائی نے دورہ لاہور سے لے کر آج تک بلکہ اس سے قبل بھی بھارتی رویہ ’’میں نہ مانوں‘‘ اور اٹوٹ انگ کی رٹ والا تھا۔ واجپائی نے لاہور میں زبر دست استقبال کے بعد دہلی پہنچتے ہی کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ کی رٹ لگا دی۔ اندرا گاندھی تو نہرو کی بیٹی تھی لیکن راجیو اور یگر حکمران بھی اسی طرح کرتے رہے۔ پاکستان بین الاقوامی قوانین کی پاسداری بھی کرتا رہا اور لچک بھی دکھاتا رہا جب بھی کشمیریوں کے حق کی بات کی بھارت کا دماغ خراب ہو جاتا۔ ہمارے خیال میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کے حوالے سے باب ہی بند کر دیا جانا چاہیے۔ اس کے بارے میں بین الاقوامی قوانین کی تمام شرائط پوری کی جا چکی ہیں بھارت نے عالمی عدالت تک معاملہ لے جا کر صرف وقت گزاری کی ہے جبکہ اپنے ملک میں ان لوگوں کو پھانسیاں دیدیں جن پر محض یکطرفہ الزامات تھے پاکستان اور کشمیری مطالبے کرتے رہے اور ان کو موت کی سزائیں دے دی گئیں۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ کلبھوشن کو اس کے انجام تک پہنچا دے۔ جس طرح امریکہ، بھارت ، اسرائیل ، روس ، یہاں تک کہ ایران ، افغانستان اور دوسرے ممالک بھی اپنے مفاد اور قومی فیصلوں کے سامنے بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔
بھارت نے پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے کسی مظاہرے کا کبھی مثبت جواب نہیں دیا۔ پاکستانی حکومت نے اس سے درخواست کی تھی کہ اپنا میڈیا بھی ساتھ بھیجے اور پاکستانی میڈیا سے کلبھوشن کی بیوی اور ماں کچھ بھی کہنا چاہیں تو کہہ دیں لیکن بھارت نے اپنا میڈیا بھی نہیں بھیجا اور پاکستانی میڈیا سے بھی انہیں بات نہیں کرنے دی۔ اس میں بھارت کے خوف اور خدشات کا زیادہ دخل تھا جبکہ پاکستان کی جانب سے بند کنٹینر اور کسی کی موجودگی کے بغیر ملاقات کرانے کا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔خیر سگالی کا ایک جواب یہ ہو سکتا تھا کہ بھارت یٰسین ملک کی اہلیہ مشال ملک کی ملاقات اپنے شوہر سے کرانے کا اعلان کر دے۔ لیکن بھارت سے ایسی توقعات یا مطالبات کا کوئی فائدہ نہیں۔ مشال ملک نے بھارتی حکام سے ملاقات کرانے کی اپیل کی ہے لیکن یقینی طور پر بھارت کوئی جواب نہیں دے گا۔ بھارت کے رویے کو دیکھنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھی امریکہ و اسرائیل کی طرح کا ملک ہے۔ کلبھوشن کے لیے انسانی ہمدردی کی تڑپ کا مظاہرہ یقیناً عالمی سیاسی تناظر میں پاکستان کے لیے اچھا تھا لیکن بھارتی حکومت نے اس کاجو جواب دیاہے اس سے پاکستانی حکام کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور یہ سمجھ لینا چاہئے کہ بھارتی حکومت ہمارے جذبہ خیر سگالی کو بھی ہماری کمزوری سے تعبیر کرتی ہے اس لیے اس کے ساتھ جیسے کوتیسا ولا رکھنا ہی زیادہ مناسب ہے۔

امید کی جاتی ہے کہ پاکستانی حکا م اب اس طرح کے کھیل سے گریز کریں گے اور ایک سزا یافتہ تخریب کار اورجاسوس کو کال کوٹھری تک ہی محدود رکھنے کی کوشش کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں