میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تبدیلی

سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تبدیلی

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۹ نومبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
1979کے ایرانی انقلاب کے بعدسے سعودی عرب اوراس کے سنی عرب پڑوسی ایران کوخطے میں بڑاخطرہ سمجھتے رہے ہیں اوربالخصوص سعودی میں2019کے دوران تیل کی تنصیبات پرڈرون حملہ خلیجی عرب ریاستوں کیلئے ایک ایسی دہمکی کے طورپرسمجھاگیاکہ ایران کی طرف سے کسی حملے کی صورت میں وہ اپنے دفاع میں کس قدرکمزورہیں۔پھریمن اور سعودی عرب کی جنگ میں طوالت نے بھی ان خطرات میں کافی اضافہ کررکھاتھا۔
خطے میں ان دومسلمان ریاستوں کے وسائل کوجس بے دردی کے ساتھ آگ میں جھونکاجارہاتھااورشدیدترین جانی نقصان کے ساتھ دشمنی میں اضافہ ہورہاتھا،ایسے مشکل حالات میں چین کی مداخلت نے نہ صرف ان بڑھتے ہوئے شعلوں پرپانی پھینک کر اس آگ کے مزیدنقصانات اورتباہی سے اس خطے کوبچانے میں اہم کرداراداکیابلکہ درپردہ دشمنی کی وجوہات کوطے کرنے کیلئے مذاکرات کاراستہ بھی کھولاجس کاسب سے بڑافائدہ جہاں خطے کے تمام ممالک کوہواوہاں اس کاسب سے بڑانقصان ان استعماری قوتوں کاہواجواس جنگ کی آڑمیں بے شمارفوائدسمیٹ رہے تھے۔
چین کی ثالثی میں سعودی عرب اورایران نے اپنے اختلافات دورکرنے پراتفاق کیاہے۔اس سے7سالہ دشمنی کادوراختتام پذیرہوا۔ ان7برسوں میں یمن میں سعودی ایئرفورس نے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں پربمباری کی تھی۔اب خطے میں کچھ چیزیں بالکل بدل چکی ہیں۔گزشتہ دنوں سعودی آرمی چیف تہران گئے اوراپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کی۔دونوں ممالک اب دفاعی اورسکیورٹی مورپرتعاون بڑھانے پربات چیت کررہے ہیں۔
آج جب عرب اوراسلامی سمٹ غزہ اورلبنان میں جنگوں کے خاتمے کامطالبہ کررہاہے تووہیں ٹرمپ کے دوسرے صدارتی دور کے دوران مشرق وسطی میں تبدیلیوں کے حوالے سے امیداورغیر یقینی بھی عیاں ہے۔غزہ اورلبنان میں جاری اسرائیلی حملوں کے درمیان جہاں ایک طرف سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مسلم اورعرب ممالک کااجلاس ہورہا ہے تووہیں دوسری طرف ایک دوسرے کے حریف سمجھے جانے والے ملک سعودی عرب اورایران کے اعلی حکام کے درمیان اہم ملاقاتیں اور بات چیت بھی ہورہی ہے۔سعودی فوج کے ایک اعلی سطح کے وفدنے حال ہی میں ایران کادورہ کیاہے جبکہ ایران کے صدرمسعودپزشکیان نے سعودی ولی عہدشہزادہ محمدبن سلمان سے بات بھی کی ہے۔ایرانی میڈیاکے مطابق سعودی وفدنے ایران کے فوجی حکام سے دونوں ممالک کے عسکری تعلقات پرتبادلہ خیال کیا۔ایرانی مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق سعودی مسلح افواج کے چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل فیاض بن حامدالرویلی نے ایران کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل سٹاف میجرجنرل محمدبغیری سے دفاعی تعلقات پرتبادلہ خیال بھی کیا۔
ایرانی میڈیااس دورے کو”غیر معمولی”قراردے رہاہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان آخری باربراہِ راست فوجی رابطے دسمبر 2023 میں ٹیلیفون کالزکے ذریعے ہوئے تھے۔ سعودی عرب کی وزارت دفاع کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات فوجی اوردفاعی تعاون پربات چیت کیلئے ہے لیکن شاید یہ معاملہ اتناسادہ بھی نہیں۔ گزشتہ دنوں یمن کے صوبہ حضرموت کے شہرصیون میں سعودی عرب کی فوج کے ایک کیمپ پرحملہ ہوا،جس میں ایک سعودی افسراورایک فوجی ہلاک جبکہ تیسرازخمی ہوا،گویا یہ واضح تنبیہ ہے کہ استعماراس خطے میں اپنے مفادات کی ترویج کیلئے کسی بھی امن پروگرام کو سبوتاژکرسکتاہے۔
واضح رہے کہ ایران،یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کرتاہے جبکہ وہاں کی حکومت کوسعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ سعودی قیادت والی اتحادی فوج نے کیمپ پرحملے کے حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے اسے”بزدلانہ”قراردیاتھا۔ادھرعرب اورمسلم ممالک کے درجنوں سربراہان سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک اجلاس کیلئے جمع ہیں جہاں یہ اندازے لگائے جارہے ہیں کہ ٹرمپ کابطورامریکی صدردوسرادورکیساہوگااوراس کے مشرق وسطی کیلئے کیامعنی ہوں گے۔یورپ میں ٹرمپ کوایک ایسے رہنماکے طور پردیکھاجاتاہے جن کے بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی مگرایسے خدشات کے برعکس خلیجی عرب ممالک انہیں ایک مستحکم رہنما سمجھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں سکیورٹی کی اہمیت سب سے بڑھ کرہے اوراس کے تناظرمیں ٹرمپ کی جانب سے اس خطے میں امریکی اتحادیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنااور انتہاپسند قوتوں پرتوجہ ہی آگے بڑھنے کابہترین راستہ ہے۔تاہم سعودی عرب میں ٹرمپ کو جوبائیڈن کے مقابلے میں زیادہ پسندکیاجاتاہے۔اس کی وجہ شائدیہ ہے کہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی امریکی صدرنے وائٹ ہاس میں قدم رکھتے ہی کینیڈایامیکسیکوکی بجائے ٹرمپ نے2017میں بطورصدراپنے پہلے غیرملکی دورے کیلئیریاض کاانتخاب کیا۔خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں یہ آئیڈیاروپرٹ مرڈوک نے دیاتھا۔اپنے دامادجیرڈ کشنرکے باعث ٹرمپ کے سعودی فرمانروااورولی عہدمحمدبن سلمان کے ساتھ بہترین تعلقات قائم ہیں۔ایم بی ایس نے بائیڈن کوان کے اس بیان کیلئے کبھی معاف نہیں کیاجس میں ان کاکہناتھاکہ سعودی عرب کوانسانی حقوق کی پامالیوں کاجواب دیناہوگا اوربالخصوص سعودی صحافی جمال خاشفجی کے ترکی میں سعودی سفارت خانے کے اندر بہیمانہ قتل کی طرف واضح اشارہ تھا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرق وسطی میں ٹرمپ کے دورِصدارت کے بارے میں ملے جلے تاثرات پائے جاتے ہیں۔
ایک طرف ٹرمپ نے یروشلم کواسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرکے اورمقبوضہ گولان پہاڑیوں پراسرائیلی خود مختاری تسلیم کر کے جہاں اسرائیل کوخوش کیاوہیں اس اقدام سے انہوں نے عرب دنیاکوپریشان کردیامگرپھرٹرمپ نے2020میں”ابراہیم معاہدہ”کیا جس کے مطابق متحدہ عرب امارات،بحرین اورمراکش نے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں اورسوڈان بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پرراضی ہوامگرایران کے حوالے سے ٹرمپ کارویہ جارحانہ رہاہے اوراپنے اس رویے کواس نے خطے کے عرب ممالک کے دل جیتنے کیلئے برقراررکھا۔
2018 میں ٹرمپ نے امریکاکوایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یہ کہہ کرنکال لیاکہ یہ تاریخ کابدترین معاہدہ ہے اورانہوں نے خطے کی بہت سی حکومتوں کے خیالات کی ترجمانی کی ہے۔اس معاہدے کامقصدایران کے جوہری عزائم کوروکناتھامگریہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے نمٹنے میں ناکام رہاجبکہ اس معاہدے کے باعث پاسداران انقلاب پیسے سے مالامال ہوئے جسے انہوں نے خطے میں اپنی پراکسیوں کوفنڈزفراہم کرنے کیلئے استعمال کیا۔جس کے جواب میں2020میں ٹرمپ نے پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کاحکم دیاجس نے خلیجی عرب ریاستوں کوخوش مگرایران کو ناراض کردیاتھا۔لیکن آج کامشرق وسطیٰ چارسال پہلے کے اس مشرقِ وسطی سے بہت مختلف ہے جب ٹرمپ وائٹ ہاس کوچھوڑکرگئے تھے۔ اسرائیل کی حماس اورحزب اللہ کے خلاف جنگ جاری ہے جبکہ اس نے یمن میں حوثیوں اورایران میں ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔خطے میں بائیڈن انتظامیہ کاتاثرایساہے کہ وائٹ ہاس اپنے قریبی اتحادی اسرائیل کوغزہ اورلبنان کی جنگوں کے دوران روکنے میں مثرکردارادانہیں کرسکا۔خیال ہے کہ ٹرمپ کی وائٹ ہاس واپسی سے اسرائیل کومزید”فری ہینڈ”ملے گاکہ وہ ایران میں ان اہداف(تیل اورجوہری تنصیبات)کونشانہ بناسکے جنہیں بائیڈن انتظامیہ نے روک رکھاتھا۔
سابق اسرائیلی انٹیلی جنس افسرجوشواسٹینرچ ٹرمپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ”وہ خطے میں اسرائیل کے اہم اتحادی اوراسرائیل کی کھل کرحمایت کرتے ہیں اورایران کی عدم استحکام کاباعث بننے والی کوششوں کے خلاف سخت مؤقف رکھتے ہیں۔ان کی واپسی کواس تناظرمیں دیکھاجائے گاکہ اس سے ایران کے اثرورسوخ کوکم کرنے کیلئے ٹھوس کوششیں ہوں گی”۔
سعودی عرب کے اعلیٰ سطح کے وفدکے ایران پہنچنے کے بعدایرانی صدرمسعودپزشکیان نے سعودی عرب کے ولی عہدمحمدبن سلمان سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کیااوراس بات چیت کے دوران عرب اسلامی کانفرنس پرتبادلہ خیال کیاگیا۔اس کانفرنس کیلئے عرب اورمسلم ممالک کے رہنماکے علاوہ ایرانی نائب صدرمحمدرضاعارف اس کانفرنس میں شرکت کیلئے ریاض پہنچ گئے ہیں۔تاہم پیر کے روزریاض میں مسلم اورعرب ممالک کے اجلاس میں سعودی ولی عہدمحمدبن سلمان نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو”نسل کشی”قراردیتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی اوراسرائیل کوایران پرحملوں کے خلاف خبرداربھی کیا،جوتہران اورریاض کے درمیان بہترتعلقات کی نشاندہی کرتے ہیں۔غزہ میں گزشتہ برس جنگ کے آغازکے بعدسے سعودی حکام کی جانب سے پہلی باراتناسخت بیان سامنے آیاہے۔سعودی عرب کی زیرِقیادت ریاض میں عرب اوراسلامی ممالک کے رہنماؤں کے اجلاس سے خطاب میں محمدبن سلمان نے لبنان اورایران پراسرائیلی حملوں کی مذمت بھی کی۔اس کانفرنس کی بنیادی ترجیح فلسطین اور لبنان کے علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کو روکنا،عام لوگوں کوتحفظ فراہم کرنااورخطے میں امن واستحکام کے قیام کے لئے عالمی برادری پردباڈالناہے۔
چین کی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتربنانے کی ثالثی کے بعدایک دوسرے کے حریف سمجھے جانے والے ایران اور سعودی عرب گزشتہ سال سے قریب آناشروع ہوگئے ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات2016سے بہت خراب تھے جب ایرانی مظاہرین نے تہران اورمشہدمیں سعودی سفارتی مشنوں پرحملہ کیاتھا۔گزشتہ اکتوبرکے آغازمیں ایران کے وزیرخارجہ عباس عراقچی ریاض پہنچے تھے اور ولی عہدسے ملاقات بھی کی تھی۔اس کے بعدسے دونوں ملکوں کے تعلقات میں قدرے بہتری آئی۔ سعودی وزارتِ دفاع کے مطابق گزشتہ اکتوبرمیں سعودی عرب نے بحیرہ عرب میں کئی ممالک کے ساتھ بحری مشقیں کی ہیں جن میں ایران بھی شامل ہے۔تاہم اسی دوران
ایران کی خبررساں ایجنسی اسنا (ISNA)نے اطلاع دی تھی کہ ایران کی فوج روس اور عمان کے ساتھ شمالی بحرہندمیں مشترکہ فوجی مشقیں کررہی ہے جس میں سعودی عرب سمیت چھ دیگرممالک بھی شامل ہیں ۔ایرانی فوجی کمانڈرایڈمرل شہرام ایرانی نے کہاتھاکہ سعودی عرب نے بحیرہ احمرمیں مشترکہ فوجی مشقوں کی درخواست کی تاہم فوجی مشقوں کی کوئی مخصوص تاریخ نہیں بتائی گئی۔
سعودی عرب کے اعلی سطح کے فوجی وفدکادورہ ایران ایسے وقت میں سامنے آیاہے جب اسرائیل کی جانب سے ایک نیادعویٰ کیا گیا ہے۔ اسرائیل کاکہناہے کہ وہ علاقائی سلامتی کیلئے بحیرہ احمرمیں امریکاکی سربراہی میں ایک اتحادبنایاجارہاہے جس میں اسرائیل، اردن، مصراورسعودی عرب شامل ہوں گے۔اسرائیل کے مطابق بحیرہ احمرمیں فوجی تعاون کامقصدبحری نقل وحمل،تیل، گیس اور اسٹریٹجک اثاثوں کوایرانی خطرے سے بچاناہے۔اسرائیلی نیوزویب سائٹ”زمانے اسرائیل”نے اپنی رپورٹ میں کہا تھاکہ یہ ”علاقائی دفاعی اتحاد” عراق اوریمن میں ایران اوراس کے اتحادیوں کی جانب سے لاحق خطرات سے نمٹنے کیلئے بنایاجارہاہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں سعودی عرب میں محمدبن سلمان کے عروج کے ساتھ ہی ریاض اورتہران کے تعلقات تبدیل ہوئے ہیں۔امریکاکے ساتھ تاریخی تعلقات رکھنے کے باوجودسعودی ولی عہداس خطے کی اہم ترین شخصیت بن گئے جنہوں نے ایران کے معاملے پردل وجان سے کام کیا۔اگرچہ چین کی ثالثی میں ایران اورسعودی عرب دو سال سے بھی کم عرصے میں ایک دوسرے کے قریب آنے لگے لیکن یہ مذاکرات اوران کے نتائج کسی اتحادکی وجہ سے نہیں کیونکہ تہران اورریاض کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ سعودی عرب روایتی طورپرمشرق وسطی میں امریکاکے سب سے بڑے اتحادیوں میں سے ایک ہے۔اپنی خارجہ پالیسی میں وہ پوری کوشش کرتاہے کہ امریکاکے مفادات اور مطالبات پرسوال نہ اٹھائے جائیں۔اس کے ساتھ سعودی عرب اورایران کے درمیان علاقائی مقابلے کی تاریخ اسلامی جمہوریہ کی تاریخ سے بھی زیادہ طویل ہے۔ اسرائیل کی لبنان میں جاری فوجی پیش قدمی کے ساتھ ساتھ غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کاسلسلہ بھی جاری ہے اوراس تنازع میں ابھی تک جنگ بندی کاکوئی امکان نظر نہیں آ رہا ۔اس سب کے دوران امریکا کا صدارتی الیکشن ایک ایساشخص جیت چکاہے جواسرائیل کی مکمل حمایت کرتاہے اورایران کے ساتھ ایک سخت معاہدے کاوعدہ کرکے بھی آیا ہے۔بہت سے ماہرین کاکہناہے کہ وائٹ ہاس میں ٹرمپ کی واپسی کامطلب ہے کہ مشرق وسطی میں حالات مزیدکشیدہ ہوجائیں گے۔ اگر یہ پیشگوئیاں درست ثابت ہوئیں توخطے کے بہت سے ممالک،خاص طورپرسعودی عرب جیساوہ ملک جوامریکا کے ساتھ اچھے اورقریبی تعلقات رکھتاہے،کوایک مشکل فیصلہ کرناہوگا”کیاانہیں ایران کاساتھ دینا چاہیے یااس فوجی کشیدگی میں غیرجانبداررہناچاہیے؟لیکن ایک ایسے وقت میں جب مسلم دنیامیں اسرائیل کے خلاف غصہ انتہاکوپہنچ چکاہے تواس صورتحال میں سعودی عرب، مصر ،اردن اورمتحدہ عرب امارات جیسے ممالک کی ایران اوراسرائیل کے بارے میں”غیرجانبداری”کی انہیں بھاری قیمت چکاناپڑ سکتی ہے لیکن اس کاواضح جواب محمدبن سلمان نے اپنی تقریردیاہے کہ وہ امریکااوراسرائیل کے کٹھ پتلی بادشاہ کے طورپر پہچانے جانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہ پوزیشن نہ صرف خطے میں ان کی پوزیشن پرمثبت اثرڈال سکتی ہے بلکہ خطے میں طاقت پرمبنی تعلقات میں بھی سعودی عرب کے کردارکیلئے بھی اہم ہے۔
خاموش رہنے اورایران اوراسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کونظراندازکرنے کی بجائے سعودی عرب اب کھل کراسرائیل کے خلاف،ایران کے حق میں سامنے آیاہے۔محتاط الفاظ کااستعمال کرتے ہوئے محمدبن سلمان نے”بین الاقوامی برادری”سے خطاب کیا اور عملی طورپرمغربی دنیاکواپنی تقریرکے حقیقی سامعین کے طورپرمنتخب کیا۔یہ کام دراصل سعودی عرب کے چہرے کوازسرنوِ تعمیرکرنے اوربین الاقوامی سطح پراس ملک کی پوزیشن کونئے سرے سے متعین کرنے کی ان کی کامیاب وسیع مہم کاتسلسل ہے، جو کئی سال پہلے شروع کی گئی تھی۔ اس تقریر سے یہ واضح ہوتاہے کہ محمدبن سلمان اب ایران کے خلاف توازن قائم کرنے کیلئے اسرائیل یاامریکاسے قربت کی تلاش میں نہیں۔ اس کے برعکس اس باروہ اسرائیل کی طاقت میں اضافے سے پریشان ہیں:ایک ایساعمل جواب بھی جاری ہے اوراگراس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی تواس سے خطے پراسرائیل کاغلبہ بڑھ سکتاہے جس کے تدارک کیلئے یقیناایک مؤثراتحادکی کوششیں جاری ہیں جس کیلئے یقیناخطے کے تمام ممالک سرجوڑکربیٹھیں ہیں کہ آئندہ ممکنہ خطرات سے بچنے کیلئے میدانِ عمل میں ایساجامع ٹھوس ردعمل سامنے لایا جائے جو اس طوفان کامنہ پھیرسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں