انتقام کی فصل
شیئر کریں
بے نقاب / ایم آر ملک
لفظوں سے راکھ اڑنے لگی ہے اور وقت کی بے رحم گھڑیاںہمارا مقدر ہوگئیں ۔
سوچیں پا بہ جولاں ہیں کہ ہمارے آلام کو دہشت سہارا دے رہی ہے ، وحشتوں کا رقص ہے کہ رکنے میں نہیں آرہا!
پھولوں کے شہر پشاور سے لے کر پارا چنار تک پختونوں کا لہو بہہ رہا ہے۔
کیا پر کیف دھڑکنوں کی جگہ اب ہماری سماعت چیخ و پکار اور چنگھاڑکی عادی ہو چکی ہے ؟لاشیںاٹھا اٹھا کر خیبر پختونخواہ کے باسیوں کے ہاتھ شل ہو چکے ، راہی کہتا ہے مائیںاپنے بچوں کے بستوں میںکفن رکھنے لگی ہیں۔
ہم کس دور میں زندہ ہیںمیں اپنے اکثر دکھ محب وطن دوستوں سے شیئر کرتا ہوںوہ دھرتی کے بیٹے مجھ سے پورپور زخمی دھرتی کی باتیںکرتے ہیں کہ جس کا انگ انگ زخموں سے چور ہے ۔
پارا چنار میں جس روز انسانیت کش حملے ہوئے ، اپر دیر میں لاشیں گریں تو میں نے محب وطن افراد کے چہروں پر اندر کا دکھ دیکھا جوآنکھوں سے آنسوئوں کی صورت چھلکتا ہے اور کرب بن کر چہرے پر خوف کی شکل اختیار کر جاتا ہے ،میں نے قصہ خوانی بازار کے کوچہ رسالدار کی شیعہ جامع مسجد میں ایک معصوم پھول کی لاش گری دیکھی ہے جس کی تصویر محترم رضا کاظمی نے شیئر کی !
وطن کے لوگو!
کیا ایسا نہیںکہ ہم اپنے وجود کو کھوجنے کی دھن میں اپنے بدن کی سیاہ گہرائیوں میں اترتے جا رہے ہیں،مقید ہوتے جا رہے ہیں ، اندھیروں کی اس قید سے نکلنا اب شاید ممکن نہیں رہا ،ڈی چوک میں کس نے ورکروں کو دھوکہ دیکر رینجر کی گولیوں کے سامنے کھڑا کیا ۔
پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کمپرو مائزڈ ہے ،جو اسٹیبلشمنٹ کی پچ پر کھیل رہے ہیںان کا بے جا موقف ہے کہ بہت سی مجبوریاں ہیںیا مجبوریوں کا ایک حصار ہے مگر لہو لہو دھرتی کے جسم کے اندھیروں کی بھوک اب ہم سے روشنی مانگتی ہے، بعض دکھ اتنے خاموش ہوتے ہیں کہ انسان رو رہا ہوتا ہے اسے پتا بھی نہیں چلتا سطرسطر آہٹیں اتر تی ہیں اب ہم دل کے محتاج نہیں رہے اس کی بادشاہی سے اب ہم نے نجات حاصل کرلی ہے ہمارایہ عالم ہے ہر سانس کے ساتھ خیرات مانگتے ہیںاک بے حسی ہر احساس پر طاری کر لی ہے سانسوں سے اب وحشت ہونے لگی ہے۔
اپنوں کے ہاتھوں اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بننے والے لاشوں پر احساس جنم لیتا ہے کہ لمحے پرائے ہورہے ہیںاور وطن عزیز میں زندگی کی بیڑی بارود سے بھری جارہی ہے رگ رگ میں لہو کی جگہ پارا سا تڑپتا محسوس ہوتا ہے ، خیالات سلگ رہے ہیںحساس لوگ زندہ ہیں تو ایسے جیسے جسم سے روح نکل جائے۔ دل کا آئینہ کرچی کرچی ہواور خود کو سمیٹتے ہوئے ہاتھ لہو لہان ہوجائیں۔
آرزو امید امنگ کے کینوس پر بنا ہر منظر کہر آلود ہورہا ہے اور اسے اجالنے کی ہر کوشش رائیگاں جارہی ہے ۔
ہرروز پرانے وعدوئوں کی لاش پر بیٹھ کر نیا دعویٰ جنم لیتا ہے لاشوں کا کاروبار کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے،کے پی کے کے نو عمر نوجوان اپنی آنکھوں میں مستقبل کے خواب سجائے انتقامی سیاست کا ایندھن بنے ، سسٹم سے اچاٹ نو عمرصورتیںہیںجنہیں دیکھ کر دل میں اک ہول اٹھتا ہے اک دعا ہونٹوں پہ مچلتی ہے اِک دُعا دل میں ہلکورے لیتی ہے
اے وطن کے باسیو!
ہاتھ اٹھائیں کہ پھر کوئی معصوم ان گولیوں کی بھینٹ نہ چڑھے کسی معصوم کی ماںکے ہونٹوں پہ دھری آگ ہماری آنکھیں نہ دیکھ سکیں،کسی ننھے کے مستقبل کو مسمار ہوتا محسوس نہ کریںدکھی کرنے والا کوئی معمار وطن دھواںدھواںنہ ہو
ہم ان کو کتابیں پڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں ہم ان کو ریاضی دان ،سائینسدان بنتے دیکھنا چاہتے ہیں ہم ان کو خودکش جیکٹیں پہننے کی بجائے سفید یونیفارم میں ملبوس دیکھنا چاہتے ہیں ہم ان کو قائد اعظم کا تعلیمی مقصد بنانا چاہتے ہیں کہ ان کی سوچیں اور خیال کچے دھاگوں کی طرح ہیںجو الجھ جائیں تو ٹوٹ جاتے ہیں ۔
پرائی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے سمجھوتے کی کرچیوں سے لہو لہودل اور آنکھیں اشک بار ہیں ۔اپنوں کے ساتھ برسوں کا یہ تعلق اب بوجھ بن گیا ہے جب تعلق بوجھ بن جائے تواس کا ٹوٹنا نوشتہ دیوار ہوا کرتا ہے کچھ درد اور جذبے ایسے ہوتے ہیں جن کے اظہارکے لیے الفاظ کھو سے جاتے ہیں ۔ نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ اب اس تعلق کی بے گور وکفن لاش کو گھسیٹتے پھرنا عوامی جذبوں کی توہین ہے، ہم نے 9مئی کو جو بیج بوئے اس نے نفرت کی دیواریں اتنی اونچی کردی ہیں کہ اس پار دیکھنے کا یارا نہیں ، اس اختراع کا پس منظر کسی نے نہیںکھوجااپنے ازلی آقا سے یہ پوچھنے کی جسارت کسی نے نہیں کی کہ یہ دہشت گرد کس نے پیدا کیے اور کون اتنے بڑے سانحے کا ہر اوّل بنا ؟
آنکھوں کے چراغ کون لے گیاکہ منزلوں کا نشان گم ہورہا ہے ۔
انسانیت بین کرتی سر بازار آگئی ہے صحن وطن میںبے گناہوں کی لاشیں پڑی ہیں !!!