میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
یہ شادی نہیں ہوسکتی!!

یہ شادی نہیں ہوسکتی!!

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۹ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ماجرا/ محمدطاہر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواشریف کھیت ہوئے! اقتدار کی گاتی گنگناتی شاہرائیں اُن کی لیے بچھی جاتی ہیں۔ مگر تاریخ کے جبر نے اُنہیں جکڑ لیا۔ نوازشریف کھیت ہوئے!!پہلے وہ اقتدار کے انجام کا چہرہ دیکھتے رہے ، مگر اب اقتدار کے لیے انجام کا سامنا کر رہے ہیں۔ سب سے بُرا انجام وہ ہوتا ہے، جو لحظہ لحظہ انسان کو دبوچ رہا ہو، مگر وہ بے خبر رہے۔ طاقت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ شراکت دار نہیں پالتا، صرف خدمت گار رکھتا ہے۔ کبھی نوازشریف ریاستی طاقت کے آئینی جواز پر سوال اُٹھاتے تھے، اب سجدہ ریز ہیں۔ مگراُن کا ایک ماضی بھی ہے،جس کی لپک ، لَلَک جاتے جاتے پھر آجاتی ہے۔
ہَوس چھُپ چھُپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
ریاستی اقتدار کی کشاکش ایک اہم مرحلے میں داخل ہے۔ نوازشریف خدمت گاری کے جذبے میں بھی آمادۂ فنکاری ہیں۔ ایسے ہی ہوتا ہے۔ اقتدار ایک بیماری ہے مگر طمع اقتدار تو جان لیوا بیماری ہے۔ طاقت ور خیاط ، نئی حکومت کے قامت کا اندازہ لگا نہیں پارہے، مگرعرصے سے” مفقود الخبر ” اقتدار کے درآمدہ دولہے کے کپڑے سینے میں مصروف ہیں۔کپڑا کم پڑتا جاتا ہے، بیچارے کیا کریں؟ کپڑے کی اُچاپَت کی تگ ودو میں ہیں۔ 35سالہ بلاول جنہیں دُرشتانہ” سیاسی بابے” کہتا ہے،مگر 73سالہ اقتدار کے درآمدی نوشے نوازشریف کے شادی والے نخرے برقرار ہیں۔ جن کے اقتدار کو لاہور سے جواز دلانے میں بھی مشکل ہے، اُسے ملک گیر نمائندگی کے لیے چاروں صوبے میں انتداب درکار ہے۔ خیاط اُدھیڑ بُن میں ہیں۔ مگر بھڑکیلے لباس اور چٹ پٹے کھانے کے ساتھ شوق آوارگی کی تسکین کرنے والا رہنما کم پڑتے کو پورا کرنے کے لیے مستعارپارچے، چتھڑے لینے کو تیار نہیں۔
دائروں کا کھیل پھر شروع ہے۔ نوازشریف پنجاب میںکسی کو انتخابی اتحاد میں شریک نہیں کرنا چاہتے۔ ”خیاط” پھر پنجاب میں کس قسم کا ملبوس دے سکیں گے؟دولہے کو” گھر جمائی” بن کر رہنا ہو تب بھی وہ شادی والے روز کچھ تو نخرے دکھا تا ہے۔یہاں دولہا تو دولہا ، شہ بالا کے بھی نخرے ہیں اور اس دولہے کا کوئی ایک شہ بالا بھی نہیں متعدد ہیں۔ ایک تو اپنے وہی رانا ثناء اللہ ہیں۔ سسرال کو عرضی بھیجی ہے:ن لیگ الیکشن میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی 125 نشستیں جیتے گی۔ ماشاء اللہ!! ماشاء اللہ ۔ سسرالی اب ان کی بلائیں کیسے اُتاریں؟ پنجاب میں قومی اسمبلی کی کل نشستیں ہی 141 ہیں۔ پھر پنجاب میں صرف 16 ہی نشستوں کا اندوختہ رہ جاتا ہے جوجہیز میں جانے سے رہ جاتا ہے۔ اچھا پھر یہ استحکام پاکستان پارٹی کے بچے کُند چُھری سے حلال ہونے کے لیے ہیں؟ اس کمبل کو اوڑھیں یا بچھائیں؟ خیاط کہتے ہیں کہ پنجاب میں”مال غنیمت ”کے کپڑے کی تقسیم مناسب طور سے کریں کہ کہیں تحریک انصاف سے پہلے خود اتحادی ایک دوسرے کے کپڑے نہ اُتارنے لگ جائیں۔ ”مال غنیمت” سمیت کر لانے والوں کو ہی اس مال سے محروم کیسے کیا جا سکتا ہے؟ دولہے کی نظریں صرف جہیز پر ہے، اس پر نہیں کہ یہ جمع کیسے ہوا؟  یہ مال غنیمت ہے، یا محنت کی کمائی، چوری ہے یا ڈکیتی؟؟ دولہے سے زیادہ قابل رحم حالت ”خیاط” کی ہے جسے کپڑا سینا ہی نہیں قامت کے حساب سے کپڑا ”اکٹھا” بھی کرنا ہے۔ پہلے تو دولہے بدنام ہوتے تھے، اب سسرالی اور خیاط دونوں ہی رسوائی سمیٹ رہے ہیں۔ چنانچہ دولہے کو سمجھایا جارہا ہے کہ گھر آپ کا نہیں، جہیز بھی بلا استحقاق اور بہت سارا ہے، شہ بالوں کی ضدیں اپنی نہ بنالیں اور راضی رہیں۔ گھرداماد کے نخرے ایک دن میں تو ختم نہیں ہو جاتے، آگے کی آگے دیکھیں گے؟ مگر دولہا راضی نہیں۔ اور سمجھ رہا ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی کو پنجاب سے انتخابی اتحاد کے سسرالی جہیز میں شریک کرنے کا مطلب اُسے ہم بستر بنانا ہے۔ مسئلہ ہے کہ بڑھتا جاتا ہے۔
دولہے کا مسئلہ یہ ہے کہ اُسے ملک بھر سے ”باراتی” چاہئے تاکہ قومی ولیمے کا میلا ٹھیلا اچھا لگے۔ پہلے باپ بیٹے کو گود لیتے تھے، مگر بلوچستان میں”باپ” کو گود لیا گیا ہے۔ بگڑے بچوں کی تمام عادتیں رکھنے اور ہر قومی شادی کو ڈھول باجوں اور بارود پٹاخوں سے شغل میلے کا کردار ادا کرنے والی کراچی میں ایم کیو ایم موجود ہے، دوائے دل بیچتے باچتے دُکان وہاں تک بڑھا دی گئی ہے۔ ایم کیوایم نے تمام قومی شغل تماشوں کے لیے اپنا کردار کرائے پر رکھا ہے، کوثر و تسنیم میں دُھلی باتیں مگر کردار” مینوں نوٹ وکھا” والا ہے۔ گاجریں اتنی نہیں کھاتے جتنی چھڑیاں کھاتے ہیں۔ چنانچہ چھڑی دکھائی نہیں کہ سارے محمود و ایاز ایک صف میں دست بستہ ، لب بستہ اور صف بستہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یا للعجب! وہ بھی قومی دولہے کو کہہ رہے ہیں کہ مال غنیمت کی ہماری نشستوں پر نظریں نہ جماؤ۔ اگر دولہے کو کچھ دانہ دُنکا، جھاڑو پونچھا چولہا چوکا چاہئے تو کراچی کے قصباتی اور اندرونی سندھ کے شہری علاقوں سے سمیٹے۔ قومی باراتی بننے کا مطلب بس یہی ہے کہ ان علاقوں سے سامان سمیٹنے میں مدد کی جائے گی۔ یہ کراچی کی اس جماعت کے نخرے ہیں جس کے اپنے پَلّے کچھ بھی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا استحکام پاکستان پارٹی کو پنجاب کی بارات میں شریک نہ کرنے کا یہ ردِ عمل تو نہیں جو چھڑی سے ہانکی جانے والی کراچی کی معدوم جماعت دے رہی ہے؟ شہ بالے کہہ رہے ہیں کہ ایسا ہی ہے۔ ایم کیوایم کے ساتھ معاملات کا تجربہ پرانا ہے۔ دولہا سمجھتا ہے کہ گھر داماد بن گئے تو کیا ہوا؟ سسرالیوں کی عادتوں کا تجربہ بھی عشروں پرانا ہے۔
دولہے اور سسرالیوں کے درمیان کَٹا چَھنی جاری ہے۔ سسرالیوں کے سارے خیاط مستعار پارچے، چتھڑے لے کر اُدھیڑ بُن میں ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کا کیا کریں؟ مال غنیمت سمیٹنے والوں کے مطالبات بھی حد سے زیادہ ہیں۔ دولہا جہیز کم کرنے پر تیار نہیں۔ ایم کیوا یم کی بھوک بھی دس سال سے بڑھتی جا رہی ہے، اُسے قومی ولیمے کی دیگ سالم اور فوری چاہئے۔ باپ نگراں حکومت لے کر بیٹھ گئے، وہ بھی مزے چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ایک مسئلہ اپنے سب پر بھاری کا بھی ہے، جو اِ ن دنوں اپنے بیٹے پر بھی بھاری پڑ گیا ہے۔ گلے میں اٹکنے اور مسلسل کھٹکنے والے عمران خان کا کمبل چُرانے میں سب سے زیادہ مدد اُسی زرداری سے لی گئی۔ اب ناراض ہیں کہ کہاں پورے ملک کا انتظار کیے بیٹھے تھے مگر سندھ بھی پورا نہیں مل رہا۔ پھر کراچی میں ایم کیوایم کا ٹنٹا بھی اب کے مسلط ہے۔ چلیں اس عمران خان کو تو چھوڑیں! جو جیلوں، مقدموں، پاکستانی مونیکاؤں اور نئی جنرل رانیوں کی لن ترانیوں سے بھی قابو نہیں آ رہا اور جس کے خلاف خیاط نئے لباس تیار کر رہے ہیں۔ مگر یہ زرداری!! اگر وہ بھی اس قومی بارات پر سوال اُٹھا دیں تو پھر کیا ہوگا؟ دولہا یہ چاہ رہا ہے کہ انتخابی نتائج آجانے تک اِنہیں اور مولانا فضل الرحمان کوامیدِ لطف پہ رکھا جائے! تاکہ کھیل بکھیڑا نہ ہو۔ پھر مولوی سے یہ اضافی خطرہ بھی رہتا ہے کہ وہ شادی کی تاریخ اور جواز پر بھی شرعی سوال اُٹھا دیتے ہیں۔
خیاط تیار ہیں، مگر کپڑا پورا نہیں، تن کی عریانی چھپائے نہیں چھپتی! زرداری سے خطرہ ہے کہ وہ قومی شادی کو ماننے سے انکار ہی نہ کر دیں! استحکام والے مال غنیمت پر اپنا حق سب سے زیادہ سمجھتے ہیں، مگر ان کا حصہ نکالے نہیں نکل پا رہا! 73 سالہ اقتدار کا درآمدی نوشا نوازشریف اپنی مرضی کا لباس چاہتا ہے، جو سینے والے عاجز ہیں۔ دوسری طرف عمران خان جیل میں جبل بن کر بیٹھ گیا ہے، ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ پھر کیا ہو گا؟ کیا شادی والے دن شور مچے گا یہ شادی نہیں ہو سکتی، یہ شادی نہیں ہو سکتی!!
اندیشوں، وسوسوں، پیچ در پیچ الجھنوں میں قومی شادی کے نیوتے بٹ نہیں پا رہے۔ اٹ پٹے تعلق داروں میں گھِرے نوشے کی یہ خواہش تو پوری ہو گئی کہ عمران کو جیل میں ڈالیں، مگر عمران خان کو جیل میں ڈالنے کے لیے جن جن سے مدد لی جاتی رہی، اُن میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کو مکمل مطمئن کیا جا سکے۔ اب دیکھیے کون سا لباس کس قامت کو موزوں آتا ہے،اور گھر جمائی کے لیے گھر میسر بھی رہتا ہے کہ نہیں۔ ابھی تو چٹ پٹے شاعر کو دہرائیں!
وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
لگ گئی آگ اس عمارت میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں