میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
احمدی نہیں سنی ہوں، مجھ سے استعفیٰ طلب کرنیکا کوئی جواز نہیں تھا، زاہد حامد

احمدی نہیں سنی ہوں، مجھ سے استعفیٰ طلب کرنیکا کوئی جواز نہیں تھا، زاہد حامد

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۹ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

اسلام آباد(بیورورپورٹ)سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا ہے کہ میں اور میرا خاندان ختم نبوت کے لیے جانیں قربان کرنے والوں میں سے ہیں، ہم احمدی نہیں بلکہ سنی مسلمان ہیں، لیکن انتخابات ایکٹ 2017کی منظوری کے بعد مجھے بے بنیاد الزامات اور من گھڑت کہانیوں کے ذریعے ختم نبوت کے ظاہری کردار پر شک کیا گیا، حالانکہ تحریک لیبک کے 4ارکان نے ملاقات میں وفاقی وزراء اور سینٹرز کے سامنے میرے بیان اور ویڈیو سننے کے بعد اعلانیہ کہا کہ آپ احمدی نہیں ہیں۔ میں نے اقرار نامہ کے اصل الفاظ کے بحالی اور فرمان 2002کے آرٹیکل 7ب اور 7ج کے شامل کرنے سمیت الفاظ بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا، حالانکہ الیکشن بل 2017صرف وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے نہیں، بلکہ پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی نے بنایا تھا، جس میں تمام پارٹیوں کے 34ارکان دونوں ایوانوں سے شامل تھے، لیکن اس کے باوجود بھی مجھے سے ہی استعفی طلب کیا گیا۔ ان خیالات کا اظہار زاہد حامد نے اپنے استعفیٰ میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور صدر ممنون حسین سے کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے پارلیمنٹ کے سامنے میڈیا کانفرنسوں میں اور سوشل میڈیا کے ذریعے تمام تر الزامات کی تردید کی، لیکن پھر بھی ختم نبوت کے حوالے سے میرے ظاہری کردار پر شک کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ میں اور میرے اباؤ اجداد سیالکوٹ کے گاؤں پسرور کے سنی مسلمان ہیں اور ہم حضرت میاں میر صاحب کے مرید ہیں، مجھے 2مرتبہ حج اور متعدد مرتبہ عمرہ ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوچکی ہے، میں اور میرا خاندان ختم نبوت کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے والوں میں سے ہیں، زاہد حامد نے کہا کہ 20نومبر 2017کو تحریک لبیک کے وفد کے 4ارکان سے میری ملاقات کرائی گئی، انہوں نے مجھے سننے اور ویڈیو دیکھنے کے بعد سینیٹر راجہ ظفر الحق وفاقی وزراء احسن اقبال خواجہ سعد رفیق خصوصی مشیر برائے وزیر اعظم بیرسٹر ظفر اللہ خان اور وزیر قانون پنجاب رانا ثناء کے سامنے اعلانیہ طور پر کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آپ احمدی نہیں اور صرف ختم نبوت کے متعلق اقرار نامہ کے الفاظ پر تبدیلی سے کردار پر شک کیا جارہا ہے۔ حقیقت میں بل انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی اور اس کی 3ذیلی کمیٹیاں جو تمام سیاسی جماعتوں کے دو ایوانوں سے 34نمائندوں پر مشتمل تھی اور ڈھائی سالوں میں 125اجلاس منعقد کرنے کے بعد کمیٹی نے بل بنایا تھا مسودہ بل میں ختم نبوت کے اقرار نامہ بزات خود اس کے حلف نامہ میں بغیر کسی تبدیلی کے بزریعہ ہذا اقرار کرتا ہوں کو الفاظ حلفا اقرار کرتا ہوں کے الفاظ میں تبدیل کیا گیا یہ کمیٹی کی رپورٹ کا حصہ تھا جسے کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر اسحاق ڈار نے دونوں ایوانوں میں پیش کیا تھا اور اس کے نقول بھی تمام سینٹرز اور ایم این ایز کو بھی دی گئی جب کمیٹی کی جانب سے حتمی شکل آئی تو پھر بل قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا تو ایوان نے مختلف دفعات میں متعدد ترامیم منظور کی جس میں اقرار نامے کے اخر میں اقرار صالح کے متفقہ طور پر تیار کرنا شامل تھا اس کے بعد سینیٹ کے اسٹینڈنگ کمیٹی کی جانب سے متعدد ترمیمات کی گئیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی زیر بحث نہیں تھی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں