میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خواتین پرتشدد کےخلاف عالمی مہم

خواتین پرتشدد کےخلاف عالمی مہم

منتظم
منگل, ۲۹ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

فاٹا کی خواتین بھی میدان میں آگئیں، سیاسی مشاورت میں شمولیت کامطالبہ
دہشت گردی ہو یاکوئی آفت سماوی سب سے زیادہ متاثر عورت ہوتی ہے ،عورت کو ہی سب سے زیادہ امن کی ضرورت ہے، نوشین فاطمہ
یہاں 1973 کے پاکستان کے آئین کو نافذ کیا جائے اور فاٹا کا انضمام خیبرپختونخوا میں کیا جائے، تکڑا قبائلی خوئندے‘ نامی تنظیم کی عہدیدار
شہلا حیات
عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے 10دسمبر تک عالمی سطح پر 16روزہ سرگرمیاں جاری ہےں، جس کا مقصد لوگوں میں عورتوں پر تشدد کے بارے میں اور اس تشدد کی وجہ سے ان کے خاندان اور معاشرے پر منفی اثرات کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہے۔عورتوں پر تشدد کی روک تھام کا عالمی دن ہر سال25 نومبرسے10 دسمبرتک منایا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کےخلاف تشدد انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے پر ایک مخصوص ہدف شامل ہے۔اس سال اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی مہم ”یونائٹ ٹو اینڈ وائلینس اگینسٹ وومن“ کی طرف سے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ تشدد کے بغیر ایک روشن مستقبل کی علامت کے طور پر دنیا بھر میں اہم عمارتوں ،یادگاروں، سڑکوں ،اسکولوں اور دیگر اہم مقامات کو اقوام متحدہ کے نامزد اورنج رنگ سے روشن کریں۔
خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے جہاں پوری دنیا میں خواتین کی تنظیموں نے مختلف پروگرام ترتیب دئے ہیں، وہیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فاٹا سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بھی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے،لیکن فاٹا کی خواتین نے یہ آواز گھریلو تشدد اور زیادتیوں کے خلاف نہیں بلکہ سیاسی طورپر انھیں مسلسل نظر انداز کئے جانے کی حکومتی روش کے خلاف بلند کی ہے ۔اطلاعات کے مطابق فاٹا کی خواتین نے مطالبہ کیا ہے کہ فاٹا کی قسمت کافیصلہ کرتے ہوئے اور مستقبل میں اس کی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے مشاورت میں قبائلی خواتین کو بھی شامل کیاجائے اور اس حوالے سے مشاورتی اجلاسوں میں قبائلی خواتین کومناسب نمائندگی دی جائے۔
وائس آف امریکا سے گفتگو میں نوشین فاطمہ کا کہنا تھا کہ 2011ءمیں فاٹا پولیٹیکل ایکٹ نافذ ہونے کے بعد سے خواتین نے بھی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی تھی اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بات کو سنا جائے۔واضح رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے مشیر خارجہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے متعلقہ قبائل سے مشاورت کے بعد اپنی سفارشات تیار کر کے رپورٹ پیش کر دی تھی اور اس میں قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں شامل کرنے کا کہا گیا تھا۔تاہم اس انضمام کی جہاں سیاسی جماعتوں کی اکثریت حمایت کر رہی ہے وہیں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ، محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بعض سرکردہ قبائلی رہنما اس کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔
قبائلی خواتین کی ایک نمائندہ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس سارے مباحثے اور عمل میں خواتین کو نہ تو مشاورت میں شامل کیا گیا اور نہ ہی ان کے مسائل کو کوئی اہمیت دی جا رہی ہے۔اورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھنے والی نوشین فاطمہ "تکڑا قبائلی خوئندے” نامی تنظیم کی عہدیدار ہیں جو قبائلی خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کے کام کرتی آ رہی ہیں۔ وائس آف امریکا سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ 2011 میں فاٹا پولیٹیکل ایکٹ کے نافذ ہونے کے بعد سے خواتین نے بھی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی تھی اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بات کو سنا جائے۔ان کاکہناہے کہ دہشت گردی ہو یاکوئی آفت سماوی "سب سے زیادہ متاثر عورت ہوتی ہے ،اس لئے عورت کو ہی سب سے زیادہ امن کی ضرورت ہے لیکن حکام ہماری بات نہیں سنتے۔ہم یہ کہتے ہیں کہ یہاں 1973 کے پاکستان کے آئین کو نافذ کیا جائے اور فاٹا کا انضمام خیبرپختونخوا میں کیا جائے۔”نوشین فاطمہ کہتی ہیں کہ قبائلی علاقوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ایک علیحدہ صوبے کے طور پر کام کر سکے۔تاہم خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک سرکردہ قبائلی رہنما اور سابق وفاقی وزیر حمید اللہ جان آفریدی اس انضمام کے مخالف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ خیبرپختونخوا خود ایک پسماندہ صوبہ ہے جس میں پشاور کے علاوہ اس شہر جیسی سہولتیں صوبے کے دیگر اضلاع میں موجود نہیں اور اگر فاٹا کو بھی اس میں شامل کر دیا جاتا ہے تو اس پر مزید بوجھ پڑ جائے گا۔
دوسری جانب برطانیہ میں خواتین نے سڑکوںپر خواتین کو چھیڑنے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر احتجاج کاسلسلہ شروع کیا ہے، برطانوی خواتین کاکہنا ہے کہ عورتوں کے ساتھ اس بدسلوکی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھیں پر امن اور ترقی یافتہ معاشرے میں بھی دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔عورتوں کےخلاف تشدد کے خاتمے کی مہم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے برطانیہ کے شمالی شہر شیفیلڈ میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی طلبہ تنظیموں کی طرف سے ‘ری کلیم دا نائٹ کے نام سے شہر میں ایک احتجاجی مارچ کیا گیا۔یہ مارچ 25 نومبر کی رات کو شہر کے قدیم چرچ شفیلڈ کیتھیڈرل کے باہر سے شروع کیا گیا جو بعد میں ایک عوامی جلوس کی شکل میں شہر کی اہم سڑکوں اور گلیوں سے گزرتا ہواشفیلڈ یونیورسٹی کے ایک کیفے میں جا کر اختتام پذیر ہوا جہاں مقررین نے 16 روزہ مہم کی اہمیت پر بات کی۔
طالبات ڈرم اور ڈھول پیٹ کر شہر کی گلیوں میں چیخ چیخ کر یہ منادی کر رہی تھیں کہ ‘یہ سڑک ہماری بھی ہے ‘ اور ہم عورتیں متحد ہیں، ہم رات میں سڑکوں پر چلنے کا حق واپس مانگتے ہیں۔شفیلڈ یونیورسٹی کی طالبات کی یونین کی صدر سرینا نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان دنوں اجنبیوں کے ساتھ نفرت اور اسلام فوبیا پر مبنی روئیے عام ہوتے جارہے ہیں جبکہ عورتوں کےخلاف تشدد کا رویہ بھی زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے اور آج عورتوں کےخلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر ہم نے عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ سڑکوں پر ہونے والی بدسلوکیوں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا ہے.انھوں نے کہا کہ عورتوں کے ساتھ اس بدسلوکی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھیں پر امن اور ترقی یافتہ معاشرے میں بھی دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔
شفیلڈ ہالم یونیورسٹی کی خواتین طلبہ یونین کی صدر ریچا نے کہا کہ ترقی پسند معاشرے میں بھی عورتوں کو جسمانی ،جنسی یا ذہنی تشدد کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ خواتین کےخلاف تشدد کے خاتمے کی16 روزہ مہم یہ بتاتی ہے کہ ہمیں کیوں مزید آگے بڑھنا ہے کیونکہ قیادت اور حوصلے کی ایسی تحریکیں کمزور خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں لا رہی ہیں۔خواتین کے جلوس میں شامل شیفیلڈ یونیورسٹی کے ایک طالب علم الیکس نے وائس آف امریکا کو بتایا کہ ان دنوں یونیورسٹی طالبات کے ساتھ اس طرح کے واقعات بڑھ گئے ہیںجس کا عام طور پر رات کے وقت سڑک پر چلنے والی عورت کو ذمہ دار سمجھ لیا جاتا ہے جبکہ یہ سچ نہیں ہوتا ہے ہم اس رویہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ شیفیلڈ یونیورسٹی کی طرف سے طالبات کے لیے ‘ڈونٹ واک ہوم الون کے نام سے ایک مہم شروع کی گئی ہے اور خواتین کے تحفظ کے حوالے سے بس اشتہارات میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ یارک شائر پولیس کے تعاون سے یونیورسٹی کے آس پاس کے علاقوں میں پیدل چلنے والی طالبات کو ریپ الارم دیا گیا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں