وزیراعظم صاحب بس کردیں!
شیئر کریں
۔
وزیراعظم نے ارشاد فرمایا: مہنگائی کنٹرول کرنے تک چین سے نہیں بیٹھوں گا“۔ کیا واقعی؟ وزیراعظم کے الفاظ کی کوئی قدرووقعت باقی ہی نہیں رہ گئی۔ وزیراعظم الفاظ کے خراچ اور عمل کے قلاش ثابت ہوئے ہیں۔ اُن کے لیے اب عافیت بولنے میں نہیں چپ رہنے میں ہے۔ عمران خان نے وزیراعظم بننے کا مطلب محض الفاظ کی جگالی سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ یہ بروئے کار آنے کانام ہے۔ یہ اختیارات کا منصب ہے، خطابت کا منبر نہیں۔ دانائی سے جگمگاتی حدیث کا مفہوم ہے:خاموش رہو، سلامت رہو گے“۔
وزیراعظم کا مسئلہ یہ ہے کہ اُنہوں نے بہت محنت سے خود کو ناقابلِ اعتبار بنایا۔ وہ جب بھی کسی معاملے کی نگرانی اپنے ہاتھ میں لینے کا اعلان کرتے ہیں تو وہ پہلے سے زیادہ بے قابو ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک مکمل فہرست ایک”طلسم ہوشربا“تخلیق کرنے کے لیے کافی ہوگی۔ مگر سامنے کی مثالیں لے لیں۔ وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی کی نگرانی اپنے ہاتھ میں لینے کا اعلان 27/ اکتوبر کو کیا۔ یادش بخیر یہ تاریخ پاکستان اور کشمیر میں ایک یومِ سیاہ کے طور پر منائی جاتی ہے۔ اب 73برس ہوتے ہیں، اس تاریخ کو بھارتی درندے کشمیر میں گھس آئے تھے۔ عمران خان اس تاریخ کی تاریخ کا کیا اُٹھائیں گے، مگر اُن کے دورِ حکومت میں بھارت نے 5/اگست 2019ء کو کشمیر کی نیم خود مختاری پر حملہ کرتے ہوئے جبر کا نیا خنجر کشمیریوں کے سینے میں گھونپ دیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر بھی الفاظ کے جمع خرچ سے کام چلایا۔ اُنہوں نے تب اعلان کیا تھا کہ وہ کشمیر کے سفیر بن کر دنیا کے سامنے اس مسئلے کو اجاگر کریں گے۔ ایک سال بعد وہ ”پہلے سے زیادہ“ بولے اور کہا کہ پہلے وہ کشمیر کے سفیر تھے، اب وکیل بن کر یہ مقدمہ لڑیں گے۔ کشمیر کے سفیر اور وکیل بننے کا مطلب عمران خان کے لیے اب تک سال کے مخصوص دنوں میں بیانات جاری کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے 5/اگست 2019ء کے تیوروں سے ایسا لگ رہا تھا کہ اُن کے اندر جیسے مولانا ظفر علی خان کی روح سما گئی ہو، اور وہ اُن کے الفاظ میں بھارت کو پیغام دے رہے ہوں کہ
یہ اک تکّل لڑے گا آپ کی ساری پتنگوں سے
عمران خان کے طرزِ عمل سے چند دنوں میں ہی واضح ہوگیا تھا کہ بھارت کے خلاف اُن کی وکالت و سفارت بازؤں پر کالی پٹیوں کی ہفتہ وار نمائش کی رنگ بازی سے زیادہ نہیں۔ بھارت کے 5/اگست کے اقدام سے لداخ میں چین کی حیثیت پر بھی اثر پڑا تھا۔ مگر چینی صدر نے اس پر نہ تو کوئی بیان بازی کی، نہ ہی جمعہ کے روز کالی پٹیاں لگائیں۔ چین نے بھارت کی غلطی کامزیدا نتظار کیا اور پھر ایک ایسا جواب دیا کہ نہ صرف اپنی پرانی تمام جگہیں واپس لے لیں بلکہ جن جگہوں پر چینی دعوے تھے، اور مختلف معاہدوں میں اُسے متنازع طور پر جوں کا توں چھوڑدیا گیا تھا، اُسے بھی اپنی دسترس میں لے لیا۔ بھارتی فوجیوں کی مرمت کا اضافی کام الگ سرانجام دیا۔ کیسا چمکتا ہوا فقرہ ہے: زبردست کا ہاتھ چلتا ہے اور کمزور کی زبان“۔ عمران خان پر کیا موقوف، پاکستان کی تقدیر جن ہاتھوں میں محفوظ سمجھی جاتی ہے، وہ بھی روایتی بیان بازی سے آگے نہیں بڑھے۔ بھارت اپنے جبرِ مسلسل کی روز ایک نئی قسط مقبوضہ وادی میں جاری کرتا ہے، اور ہم اپنے بیانات کو ”پہلے سے بھی زیادہ“تیز کرلیتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے صرف بولنے کو ہی کام سمجھ رکھا ہے۔
وزیراعظم کے کسی معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد کیا ہوتا ہے، یہ سمجھنے کے لیے کشمیر کی ایک مثال ہی کافی ہے۔مگر پیٹرول کے مسئلے کو بھی ذہن میں تازہ کرلیں، چند ماہ پہلے اُنہوں نے اس مسئلے کو بھی اپنے ہاتھوں میں لیا تھا اور پھر پیٹرول ہی غائب ہو گیا۔ اس حوالے سے ادویات کی قیمتیں تو ایک کلاسیکی مثال ہے۔عمران خان نے ادویات کی قیمتوں میں اضافے پر بلا اُٹھایا، تب صحت کا قلمدان عامر کیانی کے ہاتھ میں تھا۔ اُن پر سنگین نوعیت کی بدعنوانیوں کے الزاما ت لگے، اور اُنہیں ادویہ فروش اکٹھ کے ساتھ تال میل کا مرتکب سمجھا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ معاملہ بھی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے قیمتوں کو پرانی سطح پر لانے کے لیے 72 گھنٹے کا انتباہ جاری کیا۔ قیمتیں اپنی جگہ رہیں، مگر عامر کیا نی اپنی جگہ نہ رہ سکے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس کے بعد قیمتوں کو جیسے پر لگ گئے ہوں۔ وزیراعظم نے نئے مشیرِ صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا انتخاب کیا، جو پہلے سے ادویہ فروشوں کے ساتھ ایک خطرناک کھیل کا حصہ بنے رہنے کے سنگین نوعیت کے الزامات سے آلودہ تھے۔ وہ قیمتوں کو پرانی سطح پر کیا لاتے۔ ہر روز نئی قیمتوں کا جواز کابینہ کو دیتے رہے۔ انہوں نے 5/ اگست کے بھارتی اقدام پر پاکستان میں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی نام نہاد مہم کے باوجود خاموشی سے بھارت سے ادویات کے خام مال کو درآمد کرنے کی اجازت بھی لے لی، حالانکہ یہ پورا مقدمہ غلط بیانی پر تھا۔ ڈاکٹر ظفر مرزا بھی ایک موقع پر بے نقاب ہوگئے اور گھر بھیج دیے گئے تو قرعہئ فال ڈاکٹر فیصل سلطان کے نام نکلا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی کے طور پر وارد ہونے والے ڈاکٹر فیصل سلطان شوکت خانم میموریل سے بھی وابستہ ہیں۔ مگر عمران خان کی گڈری کا یہ لال بھی کوئی جادو جگانے میں ناکام رہا۔ ڈاکٹر فیصل سلطان نے آکر ادویات کی قیمتوں کو نہ صرف پہلے سے زیادہ بڑھا دیا بلکہ اس کے انوکھے جواز بھی پیش کیے جسے سن کر جتنی شرم آتی ہے، اُتنی ہی ہنسی بھی آتی ہے۔ عامر کیانی سے ڈاکٹر فیصل سلطان تک ادویات کی قیمتوں میں اب تک 242فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ادویہ ساز مافیا حکومت کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز شخصیات کے ساتھ ایک گٹھ جوڑ قائم کرچکی ہے۔ جس میں گورنر سندھ اور خود صدرِ مملکت تک کے نام لیے جاتے ہیں۔ مگر چاروں طرف ایک شرمناک سناٹا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے یہ معاملہ بھی اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔
واقعات کم نہیں۔ مگر وزیراعظم کا اندازِ حکمرانی سمجھنے کے لیے اُن کی وہی الفاظ کی عادتِ خراچی کام آتی ہے۔ ڈالر بے قابو ہوا تو عمران خان نے ایک موقع پر کہا کہ مجھے یہ ٹی وی دیکھ کر پتہ چلا۔ گزشتہ دنوں لاہور میں نوازشریف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کراتے ہوئے جب آزاد کشمیر کے وزیراعظم کا نام بھی شامل کرلیا گیا تو اس مضحکہ خیز حرکت کے متعلق عمران خان کا جواب یہ تھا کہ اُنہیں سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے اس کا پتہ چلا۔ یاد کیجیے! ہمارے وزیراعظم نے ایک موقع پر خود کہا تھا کہ وہ ٹی وی پر کسی بے بس انسان کی رودادِ الم سن کر آزردہ تھے کہ اُنہیں اُن کی اہلیہ محترمہ بشری بی بی نے یاد دلایا کہ جو کچھ کرنا ہے اُنہیں کرنا ہے کیونکہ وہ وزیراعظم ہیں۔ اب ہم وزیراعظم کے لیے کتنا روئیں جنہیں ڈالر میں اضافے کا ٹی وی سے پتہ چلتا ہے، غداری کے مقدمے کا سالگرہ میں کیک کاٹتے ہوئے پتہ چلتا ہے، اور وہ وزریرا عظم ہیں یہ اُنہیں اُن کی اہلیہ سے پتہ چلتا ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم منڈی کی سیاست ونفسیات کا ادراک کیسے کرپائیں گے؟ منڈی کی فیصلہ کن قوتیں سیاسی طور پر پچھلی حکومتوں کے حکمرانوں کے ساتھ ایک خاص نوعیت کا تعلق دہائیوں میں پروان چڑھاتی رہی ہیں۔ یہ منڈی کے اتار چڑھاؤ پر قادر ہیں۔ یہ اشیاء کی پیداوار سے اُس کی ذخیرہ اندوزی تک کے سارے عمل پر گرفت رکھتی ہیں۔ طلب ورسد کی تکمیل ان کے ہاتھ کی صفائی کا نام ہے۔وزیراعظم عمران خان اسے سمجھنے کے بجائے تقریروں میں مصروف رہے۔ وہ اپنا بہترین اور قیمتی وقت کھوچکے ہیں اور اب پنڈولیم پر لٹکے اِدھر سے اُدھر ہلکورے لے رہے ہیں۔ اُنہوں نے گزشتہ روز جب کہا کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے تو عوام زیادہ بے چین ہوگئے کہ کیا یہ قیمتیں بھی اب مزید بڑھیں گی؟ وزیراعظم عمران خان نے آج تک جس مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لیا وہ مزید بگڑا ہی ہے۔ عمران خان کو دانائی کا یہ راز کون سمجھائے گا کہ اگر وہ کچھ کر نہیں سکتے تو کم از کم خاموش تور ہ سکتے ہیں کہ انسان کسی اور چیز سے نہیں بلکہ زبان کے پردے کے پیچھے چھپا ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭