پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر29)
شیئر کریں
فٹبال کی عالمی فیڈریشن فیفا کے اعلیٰ عہدیدار رشوت کی رقم سے شیل کمپنیاں قائم کرتے تھے
برطانوی تفتیشی صحافی اینڈریو جیننگز اورہمارے ساتھی تھومس کسٹنر فیفاکے لیے مافیا کی اصطلاح استعمال کرتے تھے کیونکہ گزشتہ 10 سال سے فیفا اسکینڈل کاشکار ہوتی آرہی تھی
دستاویزات سے بات بھی کھل کر سامنے آگئی کہ امازون، اسٹاربکس اور ایپل جیسی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے ٹیکس بلز میں کمی کے لیے زیادہ تر آف شور کمپنیوں پر انحصار کرتی تھیں
تلخیص وترجمہ : ایچ اے نقوی
فٹبال کی بین الاقوامی فیڈریشن فیفا کے بحران پر اگرچہ بیرونی طورپر زیادہ توجہ نہیں دی گئی تھی لیکن گیانی انفینٹی نو نے جن کا تعلق سوئٹزرلینڈ سے ہے ،اس ادارے کا صدر منتخب ہونے کے بعد زیورخ کے علاقے ہیلنس ٹیڈین میں تقریر کرتے ہوئے روایتی انتہائی پرجوش انداز میں تقریر کرتے ہوئے اس ادارے کی کھوئی ہوئی ساکھ اور فیفا اور اس ادارے کے تمام عہدیداروں اور عملے کے ارکان کا وقار بحال کرنے کے عز م کااظہار کیا۔انھوں جوش خطابت میں یہاں تک کہاکہ میں فیفا کی ساکھ اس طرح بحال کروں گا کہ پوری دنیا عش عش کراٹھے گی اور ہماری تعریف کرنے پر مجبور ہوجائے گی
گیانی انفینٹی نو کا نام ہمارے پاس ان مشتبہ افراد کی فہرست میں شامل تھا جن کے بارے میں خیال کیاجاتاہے کہ انھوںنے ناجائز ذرائع سے دولت جمع کی اور پھر اس پر ٹیکس بچانے کے لیے شیل کمپنیاں قائم کیں۔ان کانام یو ای ایف اے یعنی یورپی فٹبال ایسوسی ایشن کی جانب سے فٹبال میچ دکھانے کے لیے براڈ کاسٹنگ ایجنٹس ہوگو جنکز اور اس کے بیٹے سے ایکواڈورٹیلی ویژن کے حقوق خریدنے پر اعتراض کے حوالے سے سامنے آیاتھا اور کہا گیا تھا کہ بعد میں اسے براڈکاسٹر ٹیلی مازنوناس کو تین گنی قیمت پر فروخت کردیاگیاتھا،کھیلوں سے متعلق قوانین کے ماہرین اس گھپلے پر غور کررہے تھے۔
نیویارک کے تفتیش کاروں کاخیال تھا کہ جنکز کا کاروبار فیفا کے عہدیداروں کورشوت دےکرانھیں سستے ٹی وی حقوق تک رسائی دیناتھا جو بعدمیں بہت زیادہ قیمت پر فروخت کردیے جاتے تھے ۔اگر یہ الزامات درست تھے تو اس کے لیے جو طریقہ کا ر اختیار کیاجاتا تھا وہ اس سے مماثلت رکھتاتھا۔اس عمل میںکلیدی فرق یہ تھا کہ ہمیں یورپی فٹبال ایسوسی ایشن میں رشوت کاکوئی ثبوت نہیں مل سکا۔جب ہم نے یورپی فٹبال ایسوسی ایشن اور کراس ٹریڈنگ سے رابطے کیے تو ہم نے یورپی فٹبال ایسوسی ایشن کی جانب سے کام کرنےوالے افراد اورشخصیات پرتوجہ نہیںدی تھی۔یورپی فٹبال ایسوسی ایشن اور کراس ٹریڈنگ کے درمیان دو معاہدوں میں مجموعی طورپر 4عہدیداروں کے نام منظورکردہ دستخط کرنے والوں کےطورپر دئے گئے تھے2015 تک یورپی فٹبال ایسوسی ایشن نے ان میں سے 3کے نام ظاہر نہیں کیے تھے اور وہ بعد میں ایسوسی ایشن سے علیحدگی اختیار کرگئےلیکن چوتھی شخصیت گیانی انفینٹی نو کی تھی۔ کہاجاتاہے کہ اس معاہدےکے حوالےسےیورپی فٹبال ایسوسی ایشن کو صرف ایک لاکھ 11ہزار ڈالر کاعلم تھا جبکہ ہوگو اور ماریانو جنکیزنے ہزاروں ڈالر کمالیے۔
فیفاکے بارے میں برطانوی تفتیشی صحافی اینڈریو جیننگز اورہمارے ساتھ تھومس کسٹنر کے ریمارکس اتنے تلخ تھے کہ وہ فیفاکے لیے مافیا کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔اس کاواضح سبب یہ تھا کہ گزشتہ 10 سال فیفا ایک کے بعد دوسرے اسکینڈل کاشکار ہورہی تھی۔جس میں فیفا کے مارکیٹنگ پارٹنر آئی ایس ایل کی جانب سے کک بیکس اور رشوت کے الزامات شامل تھے اس کے علاوہ اس کے صدر کے انتخاب کی شفافیت پر بھی سوال اٹھائے گئے تھے اور فٹبال کپ ٹورنامنٹس کرانے کی اجازت دینے کے حوالے سے رشوت کی وصولی کے الزامات بھی لگائے جارہے تھے۔سیپ بلاٹر اور ایگزیکٹو کمیٹی کے دیگر ارکان ہر اسکینڈل کے بعد یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کرتے تھے کہ اب یہ ادارہ کسی نئے اسکینڈل کاشکار نہیں ہوگا اور اس کے تمام معاملات درست کرلیے گئے ہیں لیکن یہ یقین دہانیاں بھی مذاق بن کر رہ گئی تھیں۔تاہم فیفا کی اخلاقیات سے متعلق کمیٹی نے آخری حربے کے طورپر کام شروع کیا اور نہ صرف اپنے سربراہ سیپ بلاٹرکو معطل کیا بلکہ یورپی فٹبال ایسوسی ایشن کے سربراہ مائیکل پلیٹنی ،فیفا کے سیکریٹری جنرل جیروم والکی اور جیک وارنر ،چک بلازر ،صدارتی امیدوار چنگ منگ جن اور فیفا کے سابق نائب صدریوگینیو فیگوریڈو سمیت دیگر کئی سینئر ارکان کوبھی معطل کردیا۔اس طرح فیفا کی اخلاقیات سے متعلق کمیٹی نے عالمی فٹبال کو صاف کرنے کا بظاہر انتہائی مشکل بلکہ ناممکن فریضے کی ادائیگی کابیڑہ اٹھایا تھا۔بعض لوگوں نے خود ہی الزامات کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے ان میں جوآن پیڈرو ڈامیانی بھی شامل تھا جس کاشمار یوروگوائے کے بااثر وکلا میں ہوتاتھا اور وہ پینارول فٹبال کلب کاصدر بھی تھا۔
جوآن پیڈرو ڈامیانی کو شیل کمپنیوں کا انتظام سنھالنے کا ماہر تصور کیاجاتاتھااس کی وکلا کی فرم آف شور کمپنیاں قائم کرانے والی موزاک فونسیکا کے سب سے بڑے کلائنٹس میں شمار کی جاتی تھی۔جے پی ڈامیانی کی فرم 400 سے زیادہ شیل کمپنیوں کا انتظام چلارہی تھی۔اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات ہمارے ڈاکومنٹس سے یہ معلوم ہوئی کہ ڈامیانی کے کلائنٹس میں شامل 3 دیرینہ کلائنٹس فیفا اسکینڈل میں ملوث تھے۔جن میں ایک فیفا کا سابق نائب صدر یوگینیوفیگوریڈو بھی تھا جسے گزشتہ سال سوئٹزرلینڈ میں گرفتار کرلیا گیاتھا۔ دوسرے 2کلائنٹس میں ارجنٹائن ٹی وی رائٹس کے ایجنٹ ہوگو جنکز اور اس کابیٹا ماریانو جنکزتھاجوہماری ریسرچ کے مطابق یورپی فٹبال ایسوسی ایشن کے ساتھ بھی اپنی کراس ٹریڈنگ کے ذریعے موزاک فونسیکا کے ساتھ کام کرتارہاتھا۔ یہ دونوں باپ بیٹے 3 شیل کمپنیوں کے مالک تھے جس کاانتظام موزاک فونسیکا کے سپر د تھا۔ان تینوں کمپنیوں کانام کراس ٹریڈنگ ہی تھالیکن یہ ٹیکس سے مستثنیٰ تین مختلف علاقوںجنوبی بحرالکاہل کے جزیرے نیو،امریکی وفاقی ریاست نیوادا اورسیشلز میں قائم تھیں۔تفتیش کےمطابق فیفا کے عہدیداروں کو دی جانے والی رشوت کی رقم کراس ٹریڈنگ کمپنی کے اکاﺅنٹس سے ہوکر ان تک پہنچتی تھی اس طرح کی ایک ادائیگی 17جون 2013 کو زیورخ میں بینک ہاپو لم میں کراس ٹریڈنگ کے اکاﺅنٹ میں وائر کے ذریعے منتقل کی گئی تھی۔اس بات کے شواہد سامنے آئے تھے کہ لاطین امریکا کی مختلف فٹبال ایسوسی ایشنز فٹبال ٹورنامنٹس کے براڈ کاسٹنگ کے حقوق حاصل کرنے کے لیے لاکھو ں ڈالر رشوت ادا کرتی تھیںاور جوآن پیڈروڈامیانی اس حوالے سے اس پورے سسٹم کی نگرانی کرتاتھا۔
پاناما پیپرز سے ظاہرہوتاتھا کہ ڈامیانی 1998 میں نیو میں پہلی کراس ٹریڈنگ کمپنی کے قیام کے وقت ہی سے ان کے ساتھ شریک تھا اور یہ شراکت نیوادا میں 2015 میں کراس ٹریڈنگ کے قیام کے وقت بھی جاری تھی۔اس طرح وہ گزشتہ 15سال سے ان لوگوں کے ساتھ کام کررہاتھا جو فیفا کے عہدیداروں کومبینہ طورپر رشوت دینے میں ملوث تھے۔پاناما میںوکلا کی فرم موزاک فونسیکاسے حاصل ہونے والے 2.6 ٹیرابائٹ کے ڈیٹا سے ایک بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ آف شور صرف ایک جگہ یامقام ،ایک آئیڈیا ،کام کرنے کاایک طریقہ اور مالیاتی انڈسٹری کاایک ہتھیار ہی نہیں تھا بلکہ یہ ایک طریقہ کار ، نیچے کی جانب ایک دوڑ کانام تھا جہاں قوانین وضوابط، اصول اورجمہوریت کی علامات اورنشانات کور یزہ ریزہ کیاجاتاتھا۔ان کاغذات سے ایک اور بات بھی کھل کر سامنے آگئی کہ امازون، اسٹاربکس اور ایپل جیسی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے ٹیکس بلز میں کمی کرنے کے لیے زیادہ تر آف شور کمپنیوں پر انحصار کرتی تھیں۔