ارد شیر کاﺅس جی اور فریال نینسی ........آخری قسط
شیئر کریں
محمد اقبال دیوان
ارد شیر کاﺅس جی حسب وعدہ ہمیں اپنی مرسڈیز اسپورٹس میں لینے پہنچ گئے۔پھولدار شرٹ اور خاکی ٹراﺅزر۔ہم نے کار میں بیٹھ کر انہیں تنگ کرنے کے لیے جب گجراتی میں یہ کہا کہ Wire-Tapping نوں تو پروگرام نتھی؟ ( خفیہ ریکارڈنگ کا تو کوئی پروگرام نہیں )توتاﺅ کھاگئے۔کار سائیڈ پر روک کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے قمیص اتار دی۔ہم نے کہا دوسروں کو تو مٹی میں ملانے میں ایک منٹ نہیں لگاتے اور کوئی تم سے مذاق کرے تو اتنا برا مناتے ہو، نہیں جاتا میں تمہارے کھانے پر۔ ہمارے یوں روٹھ جانے پر کہنے لگے تم نے یہ کیا تو میں باپ کو کیا جواب دوں گا۔ دعوت کی ضد اسی نے کی تھی ۔اس کی اور تمہارے سب سے چھوٹے نانا محمد پٹیل کی پالی ہلز ممبئی کی ایک پارسی چھوکری کے ساتھ بہت لڑائی ہوئی تھی۔ بعد میں دوست بن گئے تھے۔
گھر پہنچے تو رستم فقیر کاﺅس جی تو موجود نہ تھے البتہ ایک کمرے میں عبدالکریم لودھی ، احمد مقصود حمیدی اور کنور ادریس پرانے بیورکریٹس موجود تھے۔کاﺅس جی تینوں پرانے سی ایس پی افسران کے دوست اور میزبان تھے۔ عبدالکریم لودھی کو وہ قابل مگر متلون مزاج، احمد مقصود حمیدی کو قابل مگر سرکاری ملازمت میں Misfit اور کنور ادریس کو قابل مگر بزدل اور مصلحت پسند افسر سمجھتے تھے۔ ہم نے کہا ہم چلے جاتے ہیں ،پھر کبھی۔ تو کہنے لگے رستم کاکا (چچا) میرے کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔یہ سالے( سالا ان کا تکیہ کلام تھا جس کا لوگ بہت برا مناتے تھے۔ انہیں گجراتی حس مزاح سے کوئی واسطہ نہ پڑا تھا ۔ پارسی اس کی بدترین شکل تھے۔چھوٹی سی کمیونٹی ہونے کی وجہ سے انہوں نے تکلفات کو ایک طرف رکھ چھوڑا تھا۔ کیا عورتیں، کیا مرد بے حد بے تکلفی سے بات کرتے تھے۔جسے عام تخاطب میں گالم گلوچ سمجھا جائے وہ ان کے ہاں روز مرہ کا محاورہ تھا) ایک دو شاٹ لگائیں گے۔ گھر بھے گی (راہ لینا) ہوجائیں۔ You talk to a darling girl
تھوڑی دیر میں چشمہ لگائے ٹرے میںاورنج جوس کے دو گلاس سجائے، کریپ سلک کی نیلی ساڑھی پارسی انداز میں لپیٹے نینسی آگئیں۔ وہ ارد شیر کی بیگم تھیں اور کراچی کی مشہور ڈنشا فیملی سے ان کا تعلق تھا۔ عبداللہ کچھی جس نے انگریز کے زمانے سے محکمہ مال کی نوکری کی تھی۔ ہمیں زبانی گزیٹ کے طور پر سنا تا تھا کہ ڈنشا اور ہارون فیملی پر بے تحاشا ملکیت کی وجہ سے مزید جائداد خریدنے پر پابندی تھی۔اس کی تحریری سند ہمیں کہیں دکھائی نہیں دی۔اس سے پہلے کہ ہم گلاس منھ سے لگاتے انہوں نے ہم سے پوچھ لیا You dont mind screw driver? (ووڈکا اور اورنج جوس کی کاک ٹیل) ہم نے انکار کیا تو وہ ناخوشی سے ہماری بیورکریسی سے تعلق دار ی پر تف بھیجنے لگیں۔ہم آدھا گھنٹہ ہندوستانی میوزک اور کراچی کے حالات پر بات کرتے رہے، ایک دفعہ بہت آہستگی سے کاﺅس جی جھانک کر بھی گئے لیکن وہ ہمارے سینئر افسر چلے گئے تو انہوں نے ہم دونوں کو گفتگو میں منہمک پاکر آہستہ سے کہا کہ
Before you two decide to elope , have dinner at my place.
اگر تم دونوں نے بھاگنے کا ارادہ کرلیا ہے تو کم از کم میرے گھر کھانا ہی کھالو۔یہ کاﺅس جی کے مذاق کا عام معیار تھا۔
رستم کاﺅس جی نے ہم سے اپنے ناناﺅں کے بارے میں بہت سوال کیے، دو کی موت تو ہماری پیدائش سے پہلے ہوچکی تھی۔امیر جی پٹیل بھی بعد میں اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ وہ ان سے واقف نہ تھے۔کھانا ختم ہوا تو والدہ اٹھیں اور سونے کی پلیٹ میں قیمتی چاکلیٹ اپنی الماری سے نکال کر لائیں۔ ہم نے کہا کہ ہم چاکلیٹ نہیں کھاتے تو وہ یہ سوچے بغیر کہ ہم مہمان ہیں کاﺅس جی سے کہنے لگیں ”تو کئیا گدھیڑا گھر بولاوی لئی چھے ،چاکلیٹ نتھی کھاتو اے کوئی مانس چھے( تم کن گدھوں کو گھر پر بلالیتے ہو۔جو چاکلیٹ نہ کھائے وہ بھی کوئی انسان ہے)۔دہلی والوں کی طرح گھر کے بزرگ کا آپ کو میٹھا پیش کرنا گجراتیوں میں بھی مہمان کی تواضع اور تکریم کا بہت اونچا درجہ سمجھا جاتا ہے۔“ گھر کی دو عورتوں سے ایک دعوت میں ان کے معیار میزبانی سے گرنے کا شرف ہمیں دو بار حاصل ہوا۔چلتے وقت فقیر جی نے کاﺅس جی سے کہا کہ پرانے لوگ ہیں ان کا جب بھی موقع ہو خیال رکھنا۔
راستے میں ہم نے ان سے پوچھا کہ سن1976 میں بھٹو صاحب نے انہیں 72 دن کے لیے جیل کیوں بھیجا تھا۔ اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے جوانی میں سالا کوئی صدر کی کسی گوانیزچھوکری کے پیچھے ناراض ہوگیا ہوگا ۔دل میں خنس رکھ کر بیٹھا ہوئے گا۔ کاﺅس جی کی الہی بخش سومرو سے بہت دوستی تھی۔ سندھ کے کھوڑے ، سومرے اور پیر سائیں پگارا کی بھٹو خاندان سے پرانی مخاصمت تھی۔الطاف گوہر کو بھی ڈان میں لگانے کا ذمہ دار وزیر اعظم بھٹو کاﺅس جی کو سمجھتے تھے۔ڈان گروپ کا ہارون خاندان اور الطاف گوہر چونکہ امریکا کی طرف ایک واضح جھکاﺅ رکھتے اور بھٹو مخالفت میں پیش پیش تھے لہٰذا ممکن ہے یہ بھی ایک سبب ہو۔
ہم نے علاقے کی آخری تین رجسٹریوں کو سامنے رکھ کر اوسط سے فی گز سو روپے کم کا ایوارڈ آف کمپینسیشن جاری کیا تو وہ ادارہ، سرکار بذریعہ ڈپٹی کمشنر اور کاﺅس جی سبھی ہمارے خلاف عدالت چلے گئے۔شاہد حامد ہمارے ڈی سی اور کر م فرما تھے۔بہت لحاظ کرتے تھے مگر کہنے لگے کہ ان کا ہمارے خلاف اپیل میں جانا ادارے کی دشمنی کو کند کردے گا ۔ڈی سی نے یہ اعتراض کیا کہ سوا کروڑ کا خطیر ایوارڈ دیتے ہوئے ہم نے ان سے پوچھا تک نہیں۔یہ ذہانت کی بات تھی، بیورو کریسی کو ایسے بہت گر آتے ہیں۔ادارے کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ خیال نہیں کیا کہ وہ اتنے عرصے سے اس جگہ کے کرائے دار ہیں ۔
ہم نے ان کی تجویز کردہ قیمت سے سو فیصد زیادہ کا ایوارڈ دیا ہے۔کاﺅس جی جنہوں نے سو ا کروڑ کا چیک بطور معاوضہ احتجاجاً وصول کیا اس بات کو عدالت میں چھیڑاکہ انگریز نے سونے کے بدلے سونے کا جو اصول بتایا ہے اسے ہم نے اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔جسٹس سلیم اختر کی عدالت تھی۔سب سے پہلے انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ اس قانون میں یہ کہاں لکھا کہ کلکٹر صاحب ڈپٹی کمشنر سے ایوارڈ آف کمپنسیشن دیتے وقت ڈپٹی کمشنر سے کوئی حکم حاصل کریں۔ یوںیہ اعتراض تو فی الفور رد کردیاگیا۔ادارے کا اعتراض کہ وہ اس عمارت کو کم قیمت میں خریدنے کے لیے اس وجہ سے حق دار ہیں کہ وہ قیام پاکستان سے پہلے یہاں ایک شفاخانہ اپنے ملازمین کے لیے چلاتے ہیں۔ اس پر عدالت نے اس دلیل کو یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ اس رعایت سے تو کشمیر پر ہندوستان کا اور اسرائیل کا فلسطین پر ان کی مقرر کردہ شرائط پر قبضہ جائز ہوجاتا ہے۔آپ اگر ایک ٹیکسی میں ایک عرصے تک گھومیں اور کسی دن اس ٹیکسی کو خریدنے کا موڈ بن جائے تو کرایہ کار کی مالیت میں شمار کرنا ناجائز ہوگا۔کاﺅس جی کی امارت اور دولت کااحوال ظاہر کرتے ہوئے انہیں ہماری ادارے کی مجوزہ قیمت سے زائد کا ایوارڈ خوش دلی سے قبول کرنے کا مشورہ دیا۔ہمارے بارے میں ان کا مستحسن فیصلہ یہ تھا کہ تین پارٹیاں جس پر معترض ہوں اس ایوارڈ میں نہ صرف قانونی طور پر کوئی سقم نہیں بلکہ انصاف کے تمام تر تقاضے بھی بطریق احسن پورے کیے گئے ہیں۔
کاﺅس جی سے ہماری دوستی پکی ہوگئی۔ فریال کی طرح انہوں نے اس کے بعد ہمارے ایوارڈ پربھی کبھی کوئی گفتگو نہیں کی۔ایک دن آئے تو ہم انہیں لیاری کے ایک سرکاری میٹرنٹی ہسپتال لے گئے ۔اس کی ڈاکٹر انچارج کو وہاں کچھ لوگوں کی بے جا مداخلت سے بہت شکوہ تھا۔یہ معاملات پی پی کے ایم پی اے جناب عبدالخالق جمعہ اور علی ہنگورہ جو ہمارا بہت لحاظ کرتے تھے ان کی مدد سے بغیر پکڑ دھکڑ کے ہم نے حل کرادیے۔ وہ بہت مطمئن تھیں۔ارد شیر کاﺅس جی نے اس سے جب دواو¿ں کا بجٹ پوچھا تو بتایا گیا کہ حکومت بجٹ کی مدمیں کل پچیس ہزار روپے سالانہ دیتی ہے۔کاﺅس جی نے اس کے سامنے سے تشخیصی نسخے لکھنے والا پیڈ کھینچا اور کوٹ کی جیب سے قلم نکال کر کراچی کے ایک بیرونی بینک کے نام ایک لاکھ روپے ان کے اکاﺅنٹ سے بطور عطیہ دینے کا لکھا۔ دلفریب اور جواں سال ڈاکٹر صاحبہ جو نہ کاﺅس جی سے واقف تھیں نہ ان کے انداز مہربانی سے ۔کہنے لگیں” اس نسخے پر لکھے گئے عطیے کو کون مانے گا“۔وہ کہنے لگے ” چل ایک وعدہ کر کہ کل پیسے مل جائیں تو کل تو مجھ سے شادی کرے گی، نہیں تو اس پر ایک زیرو تو اپنے ہاتھ سے اضافہ کرنا اور اتنی ہی رقم کل تیرے اکاﺅنٹ میں بطور ہرجانے کے جمع کرادوں گا۔Third Party Guarantee تیرے علاقے کا یہ ایس ڈی ایم اور جمعہ صاحب ہوں گے۔باہر نکلے تو ایک سپاہی مل گیا۔ یہ لیاری کا ایک گجراتی تھا۔ہماری آستین کھینچ کر ایک طرف لے گیا۔ اس کی بیوی زندگی اور موت کی زیست کی کشمکش میں کسی خیراتی ہسپتال میں پڑی تھی۔ڈاکٹر نے جان بچانے کے لیے دس انجکشنوں کا جو نسخہ لکھا تھا اس کا ایک انجکشن ہی سن نوے میں سولہ ہزار روپے تھا۔ہم نے کہا کل ہم اس کے ڈی آئی جی افضل شگری سے معاونت کی درخواست کریں گے ۔ وہ مہربان ہیں ، مان جائیں گے۔پولیس ویلفئر فنڈ سے کوئی امداد کریں گے۔ ارد شیرکاﺅس جی جو گیٹ پر بے تابی سے ہمارے منتظر تھے۔پوچھنے لگے کہ کیا معاملہ ہے؟ ہم نے احوال سنایا تو وہی پیڈ منگایا کراچی کے ایک بڑے میڈیکل اسٹور کو لکھا کہ نسخہ دیکھ کر اسے ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے کے انجکشن دے دیے جائیں۔ وہ بھی متذبذب تھا مگر اسے اشارہ کیا کہ وہ کار میں سوار ہوجائے ۔ ہم بندر روڈ پر اس میڈیکل اسٹور پر رکے ۔اسے وہیں انجکشن لے کر دیے۔ اس کی مسرت اور حیرت دونوں ہی دیدنی تھیں۔
ایک صبح سات بجے فون آگیا کہ آتا ہے گاڑی بھیج رہا ہوں۔ناشتہ کرلیا ہے نہیں تو تیار کراﺅں۔ہم نے شوخی سے کہا Noritake Gold- Plated Dinner Set میں ہم Acacia Honey کے ساتھ tea Darjeeling long leaf سوئس چیز اور حلوہ پوری-
پہنچے تو دوپہر کو ان کی ملاقات کے۔ ڈی ۔ اے ایک میلے سے ڈی ۔جی اور بلڈنگ کنٹرول سے تھی۔وہ چاہتے تھے ہم بھی اس ملاقات میں شریک ہوں۔ان دنوں ان کی تین تلوار کے قریب واقع گلاس ٹاﺅر اور گلف ٹاﺅر پر عدالت میں جنگ چل رہی تھی۔ ہم نے پہلو تہی کی کہ اس کا ہمارا سرکاری تعیناتی سے کوئی تعلق نہیں۔ Just for sobering effect and drilling reasons in their stone heads.۔ہم انکاری ہوئے۔دفتر پہنچے تو ڈھونڈیا مچی تھی ڈی ۔جی، کے۔ ڈی ۔ اے۔انہیں چیف سیکرٹری سالک نذیر کے دفتر سے فون آیا تھا کہ ہم کو لازماً ساتھ لے جایا جائے۔
دوپہر کاﺅس جی کے گھر چار میری روڈ باتھ آئی لینڈ جب یہ وفد پہنچا تو ان کا ڈیش ہاﺅنڈ کتا ڈیوک لپک کر باہر آیا ۔کاﺅس جی پیچھے پیچھے چلے آتے تھے۔ ڈی جی صاحب اور دیگر شرکاءکی تو جان ہی نکل گئی۔کاﺅس جی کو پوچھنے لگے ” کتا کاٹے گا تو نہیں؟“ کاﺅس جی کہنے لگے ” حرامی ہوگا تو کاٹے گا، دیکھ اقبال کے آس پاس کیسے مزے سے گھومتا ہے۔یہ پہلی دفعہ بھی آیا تھا ڈیوک کچھ نہیں بولا تھا۔ کاﺅس جی کے گھر میں جانداروں اور کاروںکے علاوہ کوئی بھی شے سو سال سے کم پرانی نہیں تھی۔
ان کی تحریروں ، گفتگو اوران کی پسندید پر سر ونسٹن چرچل کا اثر بہت غالب تھا۔24 نومبر 2012 کو وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ ہمارا خیال ہے کہ ان سے بہتر پاکستان کو امریکا اور بھارت میں کوئی اور سفیر نہیں مل سکتا تھا۔ فیلڈ مارشل جنرل مانک شا ،گجرال اور ایڈوانی سے ان کی ذاتی دوستی تھی۔وی پی سنگھ اور واجپائی دھیرو بھائی امبانی اور عزیز پریم جی سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔کوئی ایسا امریکی سفیر سے وہ جب چاہے مل سکتے تھے۔ ہم اس یاد رفتگاں کو ان کی اس نصیحت پر ختم کرتے ہیں جو ارسلا جاوید کو انہوں نے موت سے ایک سال پہلے ایک ملاقات میں کی تھیWe are surrounded by chariyas who will never do anything. I have not seen anyone reclaim Jinnah’s Pakistan in my lifetime. But maybe your generation will. Don’t ever give up on this hope, you hold so dear.”
ہم چاروں طرف سے پاگلوں میں گھرے ہیں۔جو جناح کا پاکستان میری زندگی میں نہیں بناپائیں گے لیکن شاید آپ کی نسل میں یہ کام کوئی کر پائے ہمیں اس حوالے سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔