انسانیت کی بے لوث خدمت ہی اصل عشق مصطفی ؐ ہے!
شیئر کریں
آج پاکستان اور آزاد کشمیر سمیت دنیا بھر میں اہل اسلام آمد مصطفیؐ کو بڑی عقیدت اور جوش سے منارہے ہیں۔ برصغیر میں خاص طورپر یہ روایت بہت پختہ ہے۔ پاکستان میں ربیع الاول کا چاند نظر آنے قبل ہی آمد مصطفی ؐ کا جشن منانے کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں اور گلی کوچوں اور بازاروں کو سجانے کے نت نئے سازوساما ن کی عارضی دُکانیں سجنا شروع ہوجاتی ہیں،اور ہر گروپ معروف سڑکوں کے چوراہوں پر قبضہ کرکے ان کو نت نئے طریقے سے سجانا اورسنوارنا شروع ہوجاتے ہیں،اس کے پیچھے کوئی دنیاوی لالچ کارفرما نہیں ہوتی بلکہ نبی آخرالزمانؐ سے محبت ہی اس کی پشت پر کارفرما ہوتی ہے،سڑکوں،گلیوں،مساجد کو سجانے والے کسی سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات اپنی جیب خاص ہی اس مقصد کیلئے خالی کرتے رہتے ہیں۔ ربیع النورکے اس مبارک مہینے میں خیرات بھی بہت ہوتی ہے، احباب نیاز کا سلسلہ شروع کرتے ہیں جو یوم میلاد النبیؐ (12 ربیع الاول) کو عروج پر ہوتا ہے اور صبح سے رات گئے تک انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات کی تقسیم جاری رہتی ہے۔یہ بات ہر مسلمان اچھی طرح جانتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی اصلاح کیلئے آسمانی کتب کے ساتھ رسول بھی بھیجے، جنہوں نے اپنی پاک سیرت کے ذریعے انسانوں کو تعلیم و تربیت دی تاکہ وہ انسانیت کی تکمیل کر سکیں، یہاں تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ رسالت کی تکمیل کر دی اور اب قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور نہیں بھیجا ہے ہم نے تم کو اے نبیؐ مگر رحمت بناکر جہاں والوں کے لیے۔ (سورۃ الانبیاء)آیت میں مذکور لفظ”عالمین“، عالَم کی جمع ہے،جس میں ساری مخلوقات بشمول انسان،فرشتے،جنات، حیوانات، نباتات،جمادات سب ہی شامل ہیں۔ رسول اکرؐم ان سب چیزوں کے لیے رحمت اس طور پر ہیں کہ دنیا میں قیامت تک اللہ تعالیٰ کا ذکر وتسبیح اور اس کی عبادت وبندگی آپ ؐکے دم سے قائم اور آپ ؐکی تعلیمات کی برکت سے جاری و ساری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب زمین پر کوئی بھی اللہ اللہ کہنے والا نہیں رہے گا تو قیامت آ جائے گی۔
قرآن پاک کے بغور مطالعہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ جس چاہت، الفت، اُنس، پیار و عقیدت سے نبی آخری الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر قرآن پاک میں بار بار کیا گیا ہے اُس کی نظیر اور مثال کہیں اور ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے محبوب سے اس قدر والہانہ پیار اور وارفتگی و وابستگی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ تقریباً ایک لاکھ 24 ہزار نبیوں اور پیغمبروں میں سے محمّد صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی ذاتِ اقدس واحد ہستی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے دیدارِ الٰہی اور آسمانوں کی سیر کے لیے منتخب کیا اور پھر کس شان سے سورہئ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس کا ذکر کیا۔ اُس رات کو نہ صرف آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آسمانوں کی سیرکرائی گئی بلکہ قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت کا فریضہ بھی سونپاگیا اور یہ اعزاز ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حصّہ میں ہی آیا۔اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے آرام، عزت و احترام، تقدس و طہارت اور شان و شوکت کا اس قدر خیال ہے کہ قرآن پاک میں جگہ جگہ بڑے خوبصورت پیرائے میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ کہیں لوگوں کو راعنا اور انظرنا کے فرق سے آگاہ کیا تو کہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حجرہ مبارک کے باہر سے آواز دے کر بلانے سے منع فرمایا۔ کہیں اْنہیں آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آرام و سکون کا خیال رکھتے ہوئے محفل جلد برخاست کرنے کا حکم دیا تو کہیں آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنے سے منع کیاگیا۔ حتیٰ کہ یہاں تک کہنا پڑا کہ اونچی آواز میں بات کرنے پر محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی کا احتمال ہے اور کہیں تمہارے سارے اعمال غارت ہی نہ ہو جائیں اور تمہیں اس کی خبر تک نہ ہو۔ تو کہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رحمت اللعالمین کے خطاب سے نوازتے ہوئے پوری انسانیت کے ماتھے کا جھومر بنا دیا گیا۔ جو تا ابد درخشاں و تابندہ رہے گا۔
ماہِ ربیع الاوّل اِسلامی کیلنڈر کا تیسرا اور مبارک مہینہ ہے، اِس ماہِ مبارک میں نبی آخرالزماں‘ حبیب ِکبریا‘ امام الانبیاء، حضور نبی کریم ؐ کی ولادتِ باسعادت ہوئی۔ اسی ماہ میں آپ ؐ نے ہجرت فرمائی اور اسی ماہ میں آپ ؐ نے عالم آخرت کی طرف کوچ فرمایا، اس طرح اس ماہ کو رسول اللہ ؐ کی حیات طیبہ سے ایک خاص نسبت ہے، یوں تو آپؐ سے محبت اور آپ کی عظمت کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی دن اور کوئی لمحہ ایسا نہ ہو، جب اس کے دل کی دنیا رسول اللہ ؐکی یاد سے آباد نہ ہو، لیکن حیاتِ محمدیؐ سے اس ماہ کی خصوصی نسبت کی وجہ سے عام طور پر اس موقع پر زیادہ جلسے کئے جاتے ہیں، اخبارات ورسائل کے خصوصی ایڈیشن نکلتے ہیں اور مختلف طریقوں پر سیرت طیبہ کے تذکرہ کو تازہ کیا جاتا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپؐ پر نہ صرف ایمان لانا ضروری ہے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ ؐ کی بے انتہا عظمت اور تمام چیزوں سے بڑھ کر محبت ہمارے دلوں میں موجزن ہو، یہ محبت ہمارے ایمان کا جزو اور ہمارے دین کی اساس ہے اور یہ حضور ؐکا معجزہ ہے کہ اس امت کے دل میں آپؐ کی محبت کا جو غیر معمولی جذبہ کارفرما ہے، دوسرے مذاہب کے متبعین میں اپنے پیشواؤں سے متعلق اس کا سوواں حصہ بھی نہیں ملتا، اور کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے بعد ہر مسلمان کیلئے آپؐ ہی کی ذات بابرکات سب سے محبوب ترین ہستی ہے، ا سے اپنے وجود سے بھی بڑھ کر آپ ؐ سے محبت ہے اور اگر اس کا سینہ اس جذبے سے خالی ہو تو وہ مسلمان ہی باقی نہیں رہے گا۔ تفسیر ابن کثیر میں نبی اکرم ؐکا یہ فرمان نقل کیا گیا ہے کہ”میں اللہ کی بھیجی ہوئی رحمت ہوں“۔باقی انسانوں کے لیے رحمت ہونا اس طور پر ہے کہ آپؐ نے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھلایا، گمراہی سے بچایا،کفر و شرک کے اندھیروں سے،ایمان و توحید کے اجالے کی طرف رہنمائی فرمائی۔ لوگوں کو جہنم کی آگ میں جانے سے ان کی کمروں سے پکڑ پکڑ کر روکا۔صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا: ”میری اور میری امت کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے آگ جلائی، تو پروانے اور پتنگے آ کر اس میں گرنے لگے۔ میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر کھینچتا ہوں اور تم اس میں چھوٹ چھوٹ کر گرتے ہو“۔آپ کی رحمت انسانوں میں مومن و کافر دونوں کے لیے عام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بگڑی ہوئی قوم میں قلیل عرصے میں وہ انقلاب پیدا کیا کہ عرب کے صحراؤں میں پلنے والی یہ گمراہ قوم دنیا کی امام بن گئی۔ یہ سب قرآن پاک کا اعجاز اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا کمال تھا کہ دنیا بھر کے انسانوں نے ایک بدو قوم سے جہاں بانی کے اصول سیکھے آپ صلی اللہ وسلم نے کس طرح ایک جہالت میں ڈوبی ہوئی قوم کی تربیت کی اور اس کو عالم فاضل بنا دیا۔ یہ آپ صلی اللہ وسلم کی سیرت پاک ہے جو قیامت تک ہمارے لئے مشعل راہ رہے گی۔ اس کے مطابق عمل کرکے ہم نہ صرف اپنی اولاد بلکہ ارد گرد کے افراد کی بہترین تربیت کر سکتے ہیں بلکہ اپنے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے مسائل کا حل قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے میں ہے‘دنیا چاہے جتنی مرضی جدید ہو جائے انسان ایک بار نہیں بلکہ سیکڑوں بار چاند پر چلا جائے‘ لیکن اس کی کامیابی کا انحصار حضرت محمد کریمؐ کا حقیقی غلام بننے میں ہی ہے۔ اسکول‘ کالج‘ یونیورسٹیوں کی تعلیم ضرورت کے درجے میں ہے لیکن قرآن و سنت کی تعلیم دنیا و آخرت میں کامیابی کا زینہ ثابت ہوتی ہے‘ خاتم الانبیاؐ سے نباتات‘ جمادات‘ جن و انس‘ حیوانات‘ چرند‘ پرند‘ شجر و حجر بھی محبت کرتے تھے، تعریف وہ نہیں جو اپنے منہ کی جائے’ فضلیت تو وہ ہے جس کے دشمن اور مخالفین بھی معترف ہوں۔محسن انسانیتؐکے بلند مقام اور اخلاق کی تعریف تو ان لوگوں نے بھی کی جو آپؐ پر ایمان نہیں لائے۔ جارج برناڈ شاہ لکھتا ہے”آنے والے 100 سال میں ہماری دنیا کا مذہب اسلام ہوگا۔“ فادر ولیم لکھتا ہے:پیغمبر اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ انسان اپنی نیک فطرت پر پیدا کیا گیا ہے’ آپؐ نے مال و دولت حسب نسب یا رنگ کی بنیاد پر انسانوں کے درجے قائم کرنے کی مخالفت کی اور دنیا سے غلام و آقا‘مفلس و مال کے فرق کو ختم کر دیا لیکن آج کی دنیا میں یہ امتیاز باقی ہے۔ نپولین بوٹا پارٹ اس طرح اظہار خیال کرتا ہے: محمدؐ نے اہل عرب کو اتحاد کا درس دیا‘ ان کے باہمی جھگڑے ختم کئے‘ تھوڑی سی مدت میں آپؐ کی امت نے نصف سے زیادہ دنیا فتح کرلی‘15برس کے مختصر عرصے میں عرب کے لوگوں نے بتوں اور جھوٹے خداؤں کی پرستش سے توبہ کرلی‘ مٹی کے بت مٹی میں ملا دیئے گئے‘ یہ حیرت انگیز کارنامہ محمدؐکی تعلیمات اور ان پر عمل کرنے کے سبب انجام پایا۔ باسورتھ اسمتھ مشہور برطانوی مصنف اس طرح اظہار خیال کرتاہے:صبح دم ہونے والی موذن کی آواز ہر روز اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جہاں جہاں بھی آپؐ کا پیغام پہنچا اس کا آرام طلبی پر گہرا اثر پڑا یہ آواز یہ بھی گواہی دیتی ہے کہ محمد ؐ کو دنیا میں اللہ کی حکومت کے قیام پر اور انسان کی آزادی فکر پر کتنا گہرا یقین تھا‘ ان کی خصوصی توجہ کا مرکز غلام اور یتیم تھے‘ آپؐ چونکہ خود بھی یتیم تھے اس لئے آپؐ کو یہ بات پسند تھی کہ جو حسن سلوک ان کے ساتھ خدا نے کیا ہے،وہی دوسروں کے ساتھ بھی روا رکھیں‘ آپؐ کی زندگی دراصل سورج کی طر ح ہے جس کی کرنیں پوری دنیا کو منور کیے ہوتی ہیں‘ آپؐ نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک سادگی اور عاجزی کو اپنائے رکھا۔ مشہور جرمن شاعر گوئٹے آپؐ کو اس طرح خراج عقیدت پیش کرتا ہے: اگر اسلام یہی ہے تو ہم سب مسلمان ہیں‘بے شک محمدؐکا لایا ہوا دین اخلاص انسانیت کے ساتھ ہمدردی اور معاشرے کے لئے اعلیٰ ترین اخلاقی ہدایت ہے۔ مشہور انگریز افسانہ نگار ایچ جی ویلز کے خیالات کچھ یوں ہیں:انسانی برابری اور انسانی اخوت کا پیغام اگرچہ عیسیٰ علیہ السلام کے ہاں بھی پایا جاتا ہے‘ مگرتاریخ میں پہلی بار جس شخصیت نے ایک باعمل معاشرہ قائم کیا وہ صرف محمدؐ کی ذات گرامی ہے۔ پروفیسر راما کرشناراؤ میسور یونیورسٹی میں پروفیسر تھے لکھتے ہیں:محمدؐکا قلب مبارک محبت اور اخوت سے لبریز تھا‘ آپؐ زندگی میں بھی اپنے بدترین دشمن کو بھی معاف کرتے رہے ہیں‘ آپؐبے غرض اور نام و نمود سے دور رہنے والے تھے‘ آپؐ اللہ کے بندے اور پھر اس کے رسول تھے۔
اس بار یہ یوم مبارک ایسے موقع پر آیا ہے جب امت مسلمہ شدیدمصائب سے دو چار ہے، ہمارے اپنے پیارے وطن پر قیامت کا منظرہے۔ہر شخص پریشان ہے،ہر ایک کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں روزگار کے مواقع مسدودہوکر رہ گئے ہیں س صورت حال میں نبی کریمؐ کے پرستاروں پر یہ ذمہ داری خاص طورپر عاید ہوتی ہے کہ وہ نمود ونمائش کی خاطر برپا کی جانے والے کاموں پر ہونے والی فضول خرچی پر کنٹرول کرکے اس طرح سے بچنے والی رقم اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے مصائب کم کرنے کیلئے عطیہ کریں کیونکہ ہمارے نبیؐ کریم کا پہلا سبق انسانیت کی خدمت ہے اور انسانیت کی خدمت اللہ تعالیٰ اور نبی کریمؐ کے قرب کا سبب بن سکتی ہے۔