نیشنل بینک میں پنشنرز فنڈز میں 65 ارب فراڈ کا انکشاف
شیئر کریں
(نمائندہ جرأت ) نیشنل بینک آف پاکستان میں پینشنرز فنڈزمیں 65 ارب روپے کے فراڈ کا انکشاف ہوا ہے جس کے مطابق بینک سے ریٹائر ہوئے والے 11 ہزار پنشنرز اورتین ہزار بیواؤں کی پنشن میں غلط ادائی ور غیر قانونی کٹوتی کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی گئی۔10 سال کی طویل عدالتی کارروائی کے بعد ہائی کورٹ لاہور کی سنگل اور بعد ازاں ڈبل بینچ نے پنشنرز کے حق میں فیصلہ دیا جس پر بینک انتظامیہ نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ تین رکنی بینچ نے بھی فیصلہ برقرار رکھا، تاہم بینک انتظامیہ نے نظر ثانی کی درخواست دائر کردی جو گزشتہ5 سال سے التواء میں پڑی ہے اور تاریخ ہی لگنے نہیں دی جارہی ہے ۔ پنشنرز کے نمائندوں نے تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ پنشن فنڈز میں جمع شدہ خود پنشنرز کے 65 ارب روپے بینک نے خرد برد کرلیے ہیں۔ اندازا ہے کہ اس رقم کو کسی اور جگہ انوسٹمنٹ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جس میں بینک و حکومت کے اعلیٰ حکام کا مفاد شامل ہے۔ یہ امر واضح ہو کہ بینک کے ہر سالانہ جنرل اجلاس میں عوام کو بتایا جاتا ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ادائیگی کی جائے گی لہٰذا ڈیویڈنٹ کی تقسیم ممکن نہیں مگر ایسا نہیں ہوتا ۔ سوال یہ ہے کہ ڈیویڈنٹ کی مذکورہ رقم اگر تقسیم نہیں ہور ہی تو پھر یہ کروڑوں روپے کی کثیر رقم کہاں جارہی ہے؟ کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ یہ سلسلہ گزشتہ پانچ سال سے جاری ہے۔ حال ہی میں آڈیٹر جنرل پاکستان کی جانب سے نیشنل بینک آف پاکستان میں آڈٹ کیا گیا۔ 160 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ پر کئی ماہ گزرنے کے باوجود عمل درآمد نہیں ہوا ۔ جس کی تفصیلات ان صفحا ت پر عنقریب شائع کی جائیں گی۔ شنید ہے کہ بینک کی لوٹ مار مافیا نے اس رپورٹ کو ہی دفنا دیا ہے۔ دوسری طرف مہنگے وکلاء کے ذریعے پنشنرز کے معاملے کو غیر معمولی طول دیا جارہا ہے جو حیرت انگیز اور توجہ طلب ہے۔ اس دوران عدالتی فیصلے کے انتظار اور امید میں حسرت و یاس کی تصویر بنے 500 سے زائد پنشنرز انتقال کر گئے ہیں۔