کالعدم تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لانا بری بات نہیں
شیئر کریں
بلوچستان میں ریاست کیخلاف بندوق اٹھانے والوں کوناراض بچہ‘دین کی ترویج کرنیوالے کو کسی ایک تقریرپردہشت گردقراردیاجاتاہے
ٹی وی پر منہ بھر بھر کے مذہبی لوگوں پر تبریٰ کرنیوالے نام نہاد دانشور بھی درحقیقت یک رخی انتہا پسندی کی دلدل میں لتھڑے نظرآتے ہیں
انتہاپسند جماعتوں کے بعض رہنما مرکزی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہرسطح پر اس حوالے سے ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے
این اے 120ضمنی الیکشن میں ملی مسلم لیگ‘لبیک یارسول اللہ نامی جماعتوں نے کئی مستندسیاسی جماعتوں سے زیادہ ووٹ لے کرحیران کیا
شہلا حیات نقوی
اخباری اطلاعات کے مطابق وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھا ہے جس میں کالعدم یا انتہاپسند تصور کی جانے والی جماعتوں اور پارٹیوں کو سیاسی پارٹی کے طورپر رجسٹرڈ نہ کرنے کی ہدایت کی ہے ،یہ ہدایت لبیک یارسول اللہ اور ملی مسلم لیگ کی این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں شرکت اور ان انتخابات میں بعض حلقوں میں ان دونوں جماعتوں کی کسی حد تک پذیرائی کے بعد جاری کی گئی ہے ، اس سے قبل جب ان دونوں جماعتوں نے این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں شرکت کااعلان کرتے ہوئے اپنے امیدوار میدان میں اتارے تھے اسی وقت ملک کے تقریباً تمام قومی اخبارات نے اس پر حیرت کااظہار کیاتھا کہ الیکشن کمیشن ان جماعتوں کوجن کا سیاسی جماعت کی حیثیت سے الیکشن کمیشن میں اندراج ہی نہیںجن کے رہنمائوں کی اسکریننگ کے بعد ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ان کو کلیئرنس بھی نہیں دی ہے انتخابی نشان کس قانون کے تحت جاری کررہاہے،لیکن ان دونوں جماعتوں کے امیدواروںکو غالباً آزاد امیدوار کی حیثیت سے نشان الاٹ کئے گئے لیکن ان دونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے آزاد امیدوار کے بجائے اپنی اپنی جماعتوں کے نام پر انتخابی مہم چلائی اور انتخاب میں شرکت کی ۔
اس صورت حال سے ظاہرہوتاہے کہ ریاستی اداروں میں موجود بعض بااثر حکام کالعدم قرار دی گئی بعض جماعتوں کے رہنمائوں کو اپنی پارٹیوں کے نام بدل کر پاکستانی سیاست میں حصہ لینے دینے کی اجازت دینے کے حامی ہیں اور ان میں سے دوپارٹیوں کے امیدواروں نے ضمنی انتخابات میں ملک کی بعض مستند سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ووٹ لے کر یہ ثابت کیا کہ انھیں عوام کے ایک حلقے کی حمایت حاصل ہے انھوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ اگرا نھیں کھل کر کام کرنے کاموقع ملا تو وہ ملک کی سیاست میں بڑی تبدیلی لانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔اس صورت حال سے یہ واضح ہوتاہے کہ بعض اہم اور بااثر ادارے یا افسران ان جماعتوں کوجو بظاہر کالعدم قرار دی جاچکی ہیں کو پاکستان کی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کاموقع دینے کے حامی ہیں،اس صورت حال میں جب بعض مقتدر ادارے یاحکام پاکستانی ریاست کے خلاف اسلحہ نہ اٹھانے والے عسکریت پسند گروہوں کو مرکزی دھارے میں لانے کا تجربہ کرنے پر بضد ہیں توپھر جمہوری اداروں پر لازم ہے کہ وہ سیاسی عمل میں ان کی شرکت کے قواعد کو واضح اور جمہوری بنائیں۔ تاکہ ماضی میں عسکری گروہ تصور کئے جانے والے گروپوں یاجماعتوں کو مرکزی سیاسی دھارے میں لانے کے خفیہ طریقہ کارکاخاتمہ ہوسکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملی مسلم لیگ نے ضمنی انتخاب میں کچھ ایسے اندازمیں شرکت کی کوشش کی جیسے عمومی سیاسی جماعتوں پر لاگوہونے والے ضابطوں کا اس پر اطلاق نہیں ہوتااس صورت حال سے ملی مسلم لیگ اور اس طرح ابھرنے والے دیگر گروہوں پر خصوصی قواعد نافذ کرنے کی ضرورت مزید دوچند ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مرکزی دھارے میں آنے والی جماعتوں کے لیے یہ شرط عاید کی جائے کہ وہ عوامی سطح پر دہشت گردی، عسکریت پسندی اور انتہا پسندی سے لاتعلقی اور آئینی جمہوری عمل کے ناقابل تنسیخ ہونے کا اعلان کریں۔ سیاسی عمل کا حصہ بنانے کی اجازت دینے کی صورت میں ریاست کی جانب سے ایسے گروہوں کی مسلسل پڑتال کویقینی بنایاجائے ۔الیکشن کمیشن اور وزارت داخلہ کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوں گے کہ لبیک یارسول اللہ اور ملی مسلم لیگ نے این اے 120میں مساجد کو انتخابی مہم کے مراکز کے طورپر استعمال کیا۔الیکشن کمیشن کو ایسی سرگرمیوں سے متعلق اپنے قواعد پر نظرثانی کرنی چاہئے اور مقامی سطح پر نفاذ قانون کے ذمہ داروں کو مساجد، مدارس اور سماجی بہبود کے مراکزکی مسلسل نگرانی کرنا چاہئے ، تاکہ پرتشدد نظریات اور انتہاء پسندی کے فروغ کو روکنا یقینی بنایا جائے۔ جمہوری عمل کا دروازہ کھلارکھنا کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ اگر بعض انتہاپسند جماعتوں کے رہنما انتہا پسندی چھوڑ کر مرکزی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو اس حوالے سے ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے تاکہ متنوع سیاسی افکار کو گنجائشمل سکے، لیکن یہ آزادی ان گروہوں کو ہرگز نہیں دی جانی چاہئے، جو اس طرح پاکستان میں قانون کی حکمرانی، دستور اور جمہوریت کی تباہی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ عسکریت پسندی ترک کرنے پر آمادہ عسکریت پسندوں کے لیے واضح پالیسی کی ضرورت ہے لیکن جمہوری عمل میں خفیہ انداز میں ان کی گنجائش پیدا کرنا کسی طورپر بھی درست نہیں ہوسکتا۔
عمرانی اور لسانی علوم کے استاد پروفیسر سلیم منصور خالد فلسفہ انتہاپسندی پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فکری اور نظری اعتبارسے ہر نظریہ ہی انتہاپسندی پر استوار ہوتا ہے کہ وہ اپنی بنیاد پر پختہ یقین رکھتا اور دوسرے کومنفی نظر سے دیکھتا ہے۔ جس طرح کہ جمہوریت خود بھی، آمریت کو انتہا پسندی ہی سے دیکھتے ہوئے اس کی ہر خوبی کی نفی کردیتی ہے۔ علاقائی قوم پرست کی نظر میں دوسری قومیت رکھنے والا گردن زدنی ہوتا ہے، جس طرح بلوچستان میں بے نوا پنجابی مزدوروں کو صرف اس لیے بسوں سے اتار کر قتل کردیا گیا کہ وہ محض پنجابی تھے۔ اس مثال کو آپ پھیلاتے چلے جائیں تو آج ٹی وی پر منہ بھر بھر کے مذہبی لوگوں پر تبریٰ کرنیوالے نام نہاد دانش ور بھی درحقیقت یک رخی انتہا پسندی کی دلدل میں لتھڑے نظرآتے ہیں، لیکن جادوئی میڈیا کے زور پر وہ روشن خیال کہلاتے ہیں اور ان کانشانہ بننے والے ذلت ونفرت کا شکار رجعت پسند قرار پاتے ہیں۔اس طرح انتہا پسندی کا پورا فلسفہ ہی اضافیت کا مظہر ہے۔ یارو، یہ کیسی’ غیر انتہاپسندی‘ ہے کہ چند ملزموں کو پکڑنے یا مارنے کے نام پر لاکھوں انسانوں کو مار دیا جائے؟ باقی جہاں تک مذکورہ دودینی پارٹیوں کا تعلق ہے تو یہ انتہا پسندی کے بجائے، عوامی میزان پر زیادہ ذمہ داری کے سانچے میں ڈھلنے کی راہ پر آئی ہیں۔انھیں نفرت کا نشانہ بنانے کے بجائے دیکھنا اور پرکھنا چاہئے۔ اوریہ کام عوام کرلیں گے اگر وہ انتہاپسند ایم کیوایم اور بلوچ قوم پرستوں کومنتخب کرکے، رفتہ رفتہ ، ان کے زہر کو نکال سکتے ہیں، تو یہاں بھی افراط وتفریط کے خاتمے کی سبیل پیدا ہوسکتی ہے۔
یہاں یہ سوال بھی کیاجاسکتاہے کہ کیا پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیوں میں جن میں پاکستان پیپلزپارٹی اور ن لیگ شامل ہیں انتہاپسندعناصر شامل نہیںہیں مفہوم و معانی بدل کرانتہا پسندوں کو سہولتیں فراہم کرنا اور بعض دیگر پارٹیوں پر محض مفروضوں کی بنیاد پر پابندیاں عاید کیاجانا کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں ہے ،مثال کے طورپر بلوچستان کے باغیوں کے لیے جو مسلمہ اور مصدقہ اطلاعات اور دستاویزی ثبوتوں کے مطابق بھارت اور دیگر عالمی طاقتوں کی شہ پر بے گناہوں کے لہو سے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ بلوچستان کو بندوق کے بل بوتے پر پاکستان سے چھیننا چاہتے ہیں پاک فوج کیخلاف خون ریز جنگ کر رہے ہیں انہیں کمال پر کاری سے”ناراض بچے” قرار دے کر قومی سیاسی دھارے میں واپس لانے کی اپیلیں کی جاتی ہیںاوران کومختلف ترغیبات بھی دی جاتی ہیں اوراس طرح ریاست کے ساتھ بغاوت اورقتل وغارتگری میں ملوث مسلمہ دہشت گردوں کی دہشت گردی اور بغاوت کو ناراضگی قرار دے کر ان کے تمام قصور معاف کردئے جاتے ہیں جبکہ مدرسوں میں بیٹھ کر دین کی ترویج کے لیے کام کرنے والوں کی کسی ایک تقریر کوبنیاد بناکر اسے دہشت گردوں کی فہرست میں اس طرح شامل کردیاجاتاہے کہ اس کے لیے آزادانہ طورپر کام کرنے کے تمام راستے تمام دروازے بند کردئے جاتے ہیں ۔ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے چوٹی کے عالمی براڈکاسٹر اور گوشہ نشیں بزرگ دانشور جناب افضل رحمن نے کہا تھا کہ لفظ اسلام کو دہشتگردی کا مترادف بنایا جا رہا ہے اورکوئی عجب نہیں کہ آنیوالے دنوں میں حکیم الامت’ شاعر مشرق علامہ اقبال کی شاعری کو انتہا پسندی کے فروغ کا ماخذ قرار دیا جائے گا۔