یو م عاشور سچ کا پرچم بلند کرنے کا وقت ہے!
شیئر کریں
آج اسلامی سال کے پہلے مہینے کے پہلے عشرے کا وہ دلدوز دن ہے جس پر پوری انصاف پسند دنیا اشک بار ہے،10 محرم الحرام کوتاریخ ساز واقعہ کربلا پیش آیا۔قرآن کریم نے محرم کے مہینے کو حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتلا دیا کہ4 مہینے ایسے ہیں جو حرمت والے ہیں، ان میں سے ایک محرم کا مہینہ ہے۔ خاص طور پر محرم کی10 تاریخ جسے عاشورہ کہا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت کا خصوصی دن ہے کیونکہ اس روز امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ بعض اہلِ علم کا قول یہ ہے کہ اس دن کو عاشور اِس لیے کہتے ہیں کہ اِس دن میں اللہ تعالیٰ نے 10انبیائے کرامؑ پر اپنی خصوصی نعمتوں کا نزول فرمایا، (۱) زمین پر اترنے کے بعد اس دن سیدنا آدمؑ کی توبہ قبول ہوئی، (۲) طوفانِ نوح تھم جانے کے بعد سیدنا نوحؑ کی کشتی سلامتی کے ساتھ کوہِ جودی پر کنارے لگی، (۳) سیدنا موسیٰؑ اور اُن کی قوم کو فرعون اور فرعونیوں سے نجات ملی اور فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت سمندر میں غرق ہوا، (۴) سیدنا عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی اور انہیں آسمانوں پر اٹھایاگیا، (۵) سیدنا یونسؑ کو مچھلی نے صحیح سالم ساحل پر اُگل دیا اور اِسی دن اُن کی اُمّت کا قصور معاف ہوا، (۶) سیدنا یوسفؑ کو صحیح سالم کنویں سے باہر نکالا گیا، (۷) سیدنا ایوبؑ کو طویل بیماری سے صحت یابی ملی، (۸) سیدنا ادریسؑ کو آسمانوں پر اٹھالیا گیا، (۹) سیدنا ابراہیمؑ کی ولادت ہوئی اور اِسی دن اُن پر نارِ نمرود گلزار ہوئی، (۱۰) سیدنا سلیمانؑ کو ملک عطاہوا اور سلطنت سے نوازا گیا، یہ روایات ہیں، حقیقت ِ حال اللہ تعالی بہتر جانتا ہے۔امام احمد بن حسین بیہقی لکھتے ہیں: ”سیدنا عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! اللہ تعالیٰ نے ہمیں یومِ عاشور کی فضیلت دی ہے،آپؐ نے فرمایا: ہاں! اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو یومِ عاشور میں پیدا کیا اور اِسی طرح زمینوں آسمانوں، عرش، کرسی اور لوح وقلم کو اسی دن پیدا کیا، سیدنا جبریل و ملائک اور سیدنا آدم وحوا اور جنت کو اسی دن پیدا کیا اور انہیں اس میں ٹھیرایا، اسی طرح سیدنا ابراہیمؑ یومِ عاشورکو پیدا ہوئے اور اسی دن اُنہیں نمرود کی آگ سے نجات ملی“۔ (فضائل الاوقات)
سانحہ کربلا سے پہلے بھی یومِ عاشور کو مُکرم ومُعظم مانا جاتا تھا، ایک حدیث شریف کی رُو سے قیامت بھی10 مُحرم جمعۃ المبارک کو وقوع پزیر ہو گی، اِ س دن کے روزے کی فضیلت بھی احادیث میں آئی ہے:جب تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے اس وقت تک عاشورہ کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا تھا بعد میں جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو اس وقت عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا۔مسلمانوں کی تاریخ میں محرم الحرام کے مہینہ کا زبردست استقبال کیا جاتا ہے اور اِس کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ عاشورہ محرم 61ہجری میں نواسہ رسول ؐ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کا واقعہ ہے اور اِ س روز حضرت امام حسین ؓ نے اپنے اہل بیت اور اپنے ساتھیوں سمیت یزید کی جا بر اور سفاک حکومت کے خلاف جہاد کرتے ہوئے کربلا کے میدان میں شہادت پائی تھی بلکہ محرم الحرام کے بارے میں ہمیں تاریخ اور خاص طورپر اسلامی تاریخ کی کتابوں میں ایسے واقعات کا پتہ چلتاہے جس سے اس دن کی اہمیت اور عظمت واضح اور دوچند ہوجاتی ہے،حضرت امام حسینؓ ا کی شہادت کادن تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان بڑے احترام اور عقیدت کے ساتھ مناتے ہیں۔یوم عاشورہ ایک مقدس دن ہے۔بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ عاشورہ کے دن کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا، شہادت کے نواسہ رسول کی شہادت کے اس دلدوز سانحے سے قبل بھی یوم عاشورہ کو مقدس اور حرمت والا دن تصور کیاجاتاتھا، خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عاشورہ کا دن مقدس دن سمجھا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں احکامات بیان فرمائے تھے اور قرآن کریم نے بھی اس کی حرمت کا اعلان فرمایا تھا، جبکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا واقعہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً60سال کے بعد پیش آیا۔ لہٰذا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا اس روز واقع ہونا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مزید اعلیٰ فضیلت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ کو شہادت کا مرتبہ اس دن کو عطا فرمایا جو پہلے ہی سے مقدس اور محترم چلا آ رہا تھا۔یوم عاشورہ کے روز سنت والے کام کرنا کار خیر اور باعث برکت ہیں۔ اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس دن کو اپنی رحمت اور برکت کے نزول کیلئے منتخب کر لیا تو اس کا تقدس یہ ہے کہ اس دن کو اس کام میں استعمال کیا جائے جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہوں، سنت کے طور پر اس دن کیلئے حکم دیا گیا ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں جب بھی عاشورہ کا دن آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے، وفات سے پہلے جو عاشورہ کا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا،سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا: یہود یومِ عاشور کا روزہ رکھتے ہیں، رسول اللہ ؐ نے ان سے دریافت فرمایا: اِس دن تمہارے روزہ رکھنے کا سبب کیا ہے، انہوں نے جواب دیا: یہ ایک عظیم دن ہے، اللہ تعالیٰ نے اِس دن سیدنا موسیٰؑ اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کردیا، تو سیدنا موسیٰؑ نے اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے اِس دن کا روزہ رکھا اور ہم بھی ان کے اتباع میں اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، اس پر رسول اللہ ؐ نے فرمایانظریاتی اعتبار سے سیدنا موسیٰؑ سے ہماری قربت تم سے زیادہ ہے اور ہم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی قائم کردہ سنّت کو جاری رکھیں چنانچہ رسول اللہ ؐ نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم فرمایا“، (مسلم) ”سیدنا ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ؐ نے یومِ عاشور کا روزہ رکھااور صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا، تو انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ یہود ونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: جب آئندہ سال آئے گا، تو ان شااللہ ہم 9 اور10 محرم 2دن کا روزہ رکھیں گے تاکہ یہود کے ساتھ مشابہت نہ رہے، (مسلم) ”آپ ؐ نے فرمایا: رمضان کے روزوں کے بعد اللہ کے حُرمت والے مہینے محرم کے روزوں کی فضیلت سب سے زیادہ ہے“، (ترمذی) ”سیدنا علیؓ سے ایک شخص نے سوال کیاکہ رمضان کے روزوں کے بعد ایسا کون سامہینہ ہے، جس کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم فرماتے ہیں، انہوں نے فرمایا میں نے ایک شخص کے سوا کسی کواس کے بارے میں سوال کرتے ہوئے نہیں سنا، اس نے رسول اللہ ؐ سے یہی سوال کیا تھا، میں اس وقت آپؐ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نے عرض کیایارسول اللہ ماہِ رمضان کے روزوں کے بعد ایسا کون سا مہینہ ہے، جس کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم
فرماتے ہیں، آپ ؐ نے فرمایا: اگر تم رمضان کے روزوں کے بعد (نفلی) روزے رکھنا چاہتے ہوتو محرم کے روزے رکھو، کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور بعد میں آنے والوں کی توبہ بھی اس مہینے میں قبول فرمائے گا“۔ (ترمذی)محرم الحرام میں عاشورہ کے روز نواسہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اہل بیت کی شہادتوں نے محرم الحرام اور اس دن کی اہمیت اور برکت کو چار چاند لگا دیئے کہ حق اور سچ کی سربلندی کیلئے اس دن جانوں کی قربانی دینے کی ایک ایسی مثال قائم ہوئی جس کی گزشتہ یا آئندہ انسانی تاریخ مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔اس دن کا تقاضا ہے کہ تمام مسلمان نبی کریمؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے روزے کا اہتمام کریں اگرچہ عاشورہ کا روزہ فرض نہیں ہے لیکن اس کے فضائل بہت زیادہ ہیں،ہوسکتاہے کہ ایک دن کا یہ روزہ ہی ہماری مغفرت کا سبب بن جائے،اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے فرقہ واریت سے بالاتر ہوکر اسلام کے ارفع اور اعلیٰ اصولوں پر عمل کرتے ہوئے کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے کسی کی دلآزاری کا خدشہ ہو،اور اپنی صفوں میں مکمل بھائی چارہ قائم رکھنے کی کوشش کریں باہمی اتحاد قائم کرکے نہ صرف یہ کہ ہم خود اپنی زندگیوں کو آسان بناسکتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے اسلام دشمنوں کے مکروہ عزائم کو بھی ناکام بنا سکتے ہیں۔یوم عاشور کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم خود سے سچے ہو جائیں۔ حضرت حسین ؓ نے جو سچ کا پرچم بلند کیا اور اس سے وابستہ جن خطرات کو خوش دلی اور جذبہ ایمانی سے گلے لگایا، ٹھیک اسی طرح اجتماعی زندگی میں بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر سچ بولنا وقت کا اولین تقاضا ہی نہیں ہم پر فرض اولین ہے۔ بدقسمتی سے اس دن کو منانے والے اکثر لوگ اس سے آگاہ نہیں کہ سچ بولنے کا حقیقی مطلب کیا ہے اور اس سے لاحق زندگی کو خطرات کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ آج کے ذرائع ابلاغ بھی طاقت اور دولت کے جنتر منتر سے مسحور ہو کر اپنے اس بنیادی تقاضے اور فرض کو فراموش کر چکے ہیں۔مختصر یہ کہ یوم عاشور پر سچائی کے ساتھ اتحاد ِ امت کا احساس دلوں میں پیدا کرتے ہوئے حق وباطل کے فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔