میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سپریم کورٹ کاتاریخ ساز فیصلہ

سپریم کورٹ کاتاریخ ساز فیصلہ

ویب ڈیسک
هفته, ۲۹ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

سپریم کورٹ نے جمعہ کو شریف خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف فوری طور پر وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ دیں کیونکہ وہ صادق اور امین نہیں رہے۔دوسری جانب سپریم کورٹ نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور رکن قومی اسمبلی کیپٹن (ر) صفدر کو بھی ڈی سیٹ کرنے کی ہدایت کردی ،سپریم کورٹ نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کوان کے اثاثے، آمدنی سے زائد ہونے کی بناپر ڈی سیٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ملکی تاریخ کے اس سب سے بڑے کیس کا حتمی فیصلہ عدالت عظمیٰ کے کمرہ نمبر 1 میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سنایا۔عدالت عظمٰی کے 5 رکنی بینچ کے سربراہ سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ابتدا میں 20 اپریل کے فیصلے کا حوالہ دیا،جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل نے فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس کے تحت پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔دوسری جانب عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو 6 ہفتے میں جے آئی ٹی رپورٹ پر نواز شریف کے خلاف ریفرنس داخل کرنے کی بھی ہدایت کی اور تمام مواد احتساب عدالت بھجوانے کا حکم دے دیا۔عدالتی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بھی ریفرنس دائر کیا جائے۔دوسری جانب چیف جسٹس پاکستان سے فیصلے پر عملدرآمد اور نگرانی کے لیے اْسی عدالت کے جج کو نامزد کرنے کی درخواست کی گئی ہے تاکہ نیب اور احتساب عدالت کی کارروائی کی بھی نگرانی کی جاسکے۔
دوسری جانب اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے وضاحت کی ہے کہ وزیراعظم ابھی بھی عہدے پر موجود ہیں اور اس وقت تک اپنی ذمہ داریاںانجام دیتے رہیں گے، جب تک صدرمملکت انہیں عہدہ چھوڑنے کے لیے نہ کہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 190 کے تحت صدر کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرسکیں کہ موجودہ وزیراعظم کو عہدہ چھوڑنا ہے یا نہیں۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں خاص طور پر اس بات کو واضح کیا ہے کہ ‘صدر جمہوری عمل کی ہموار منتقلی کو یقینی بنائیں’۔
تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے وزیر اعظم کو ڈٹے رہنے کی تلقین کے باوجود نواز شریف نے اطلاعات کے مطابق پاناما لیکس کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد اپنے عہدے سے علیحدگی اختیار کرلی ہے ۔اس طرح نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے سبکدوشی کے ساتھ ہی وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہوگئی ہے ،اورازروئے قانون وزیر اعظم کی غیر موجودگی میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق خود بخود قائم مقام وزیراعظم بن گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو نا اہل قراردیے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ تحفظات کے باوجود سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرلیا ہے۔بیان میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر باضابطہ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ پٹیشن کے اندراج سے لے کر فیصلے تک مختلف مراحل پر شدید تحفظات کے باوجود اس فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے گااور اس فیصلے کے بارے میں اپنے شدید تحفظات کے حوالے سے تمام آئینی و قانونی آپشنز استعمال کیے جائیں گے۔بیان میں الزام عاید کیا گیاہے کہ منصفانہ ٹرائل کے آئینی اور قانونی تقاضے بری طرح پامال کیے گئے، ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی، اس فیصلے پر تاریخ کا فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہوگا اور انشا اللہ محمد نواز شریف اللہ اور عوام کی عدالت میں سرخرو ہوں گے۔
ملکی تاریخ کے اس سب سے بڑے کیس کا حتمی فیصلہ عدالت عظمیٰ کے کمرہ نمبر 1 میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سنایا۔ عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو 6 ہفتے میں جے آئی ٹی رپورٹ پر نواز شریف کے خلاف ریفرنس داخل کرنے کی بھی ہدایت کی اور تمام مواد احتساب عدالت بھجوانے کا حکم دے دیا۔ عدالتی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بھی ریفرنس دائر کیا جائے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاناما اسکینڈل کیس سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ صرف حالیہ دور بلکہ ملکی عدالتی و سیاسی تاریخ کا بھی اہم فیصلہ ہے۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ خود دنیا کے بڑے اسکینڈل کا اعزاز حاصل کرنے والے پاناما لیکس کے حوالے سے بھی دنیا کا اہم ترین فیصلہ ہے، کیوں کہ آج تک دنیا میں کہیں بھی، کسی بھی ملک میں کسی وزیراعظم یا صدر کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔بلاشبہ پاناما اسکینڈل سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستانی تاریخ و سیاست کے حوالے سے اہم ترین اور بڑا فیصلہ ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جمعہ 28جولائی کا دن پاکستان میں عدالت اور سیاست کے لیے ایک تاریخی دن ہے۔ اس سے پہلے بھی پاکستان کے کئی وزرائے اعظم کو ہٹایا گیا ہے، مگر کسی کے بارے میں ایسی عوامی اور شفاف تحقیقات نہیں ہوئی، جیسی کہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے بارے میں کی گئی اس طرح یہ بات طے ہے کہ بلاشبہ ایک خوش آئند مثال قائم کی جا چکی ہے۔ ایک وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان سے ان کی آمدنی اور دولت کے ذرائع کی وضاحت طلب کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہوا جہاں منتخب و غیر منتخب عوامی عہدیدار معمولاً اور کھلے عام اپنے قانونی ذرائع آمدن اور اعلان شدہ اور معلوم دولت سے زیادہ شان و شوکت سے زندگی گزارتے ہیں، وہاںاب پاناما پیپرزکیس یہ سب باتیں عوام کے سامنے لانے اور احتساب کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستانی عوام تمام ریاستی اداروں میں ایک بہتر، زیادہ شفاف اور مزید قابلِ احتساب قیادت کے مستحق ہیں۔جب سیاسی بازی پر بہت کچھ لگا ہو، وہاں یہ لازم ہے کہ آج کسی نہ کسی کیمپ میں مایوسی ضرور ہوگی۔ اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کیا جائے اور اس کے احکامات کو فوراً بجا لایا جائے۔
جہاںتک مسلم لیگی رہنمائوں اوران کے ہم نوا نام نہاد قانونی ماہرین کے اس خیال کا تعلق ہے کہ نواز شریف ایک دفعہ پھر الیکشن لڑ کر اس ملک کے عوام پر مسلط ہوجائیں گے وہ یہ حقیقت نظر انداز کررہے ہیں اور جس کی نشاندی ماہر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک ٹی وی چینل پر بات چیت کے دوران کی ہے کہ سپریم کورٹ نے جن دفعات کے تحت نواز شریف کو نااہل قرار دیا ہے ان کو عدالت میں چیلنج کرکے اس فیصلے کو غلط ثابت کیے بغیر نواز شریف اب پوری زندگی الیکشن نہیں لڑسکتے اور جب وہ الیکشن نہیں لڑسکتے تو ان کادوبارہ وزیر اعظم بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، اور ملکی قانون کے تحت الیکشن لڑنے اور کوئی سرکاری عہدہ رکھنے کے لیے نااہل فرد کسی سیاسی پارٹی کی قیادت کا بھی اہل نہیں ہے ۔اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ آج کے بعد جب میاں نواز شریف سیاسی میدان کا حصہ نہیں رہے ہوں گے، تو جمہوری نظام کو آئین اور قانون کے دائرے میں رکھنے کے لیے ایک آزاد عدلیہ کی ضرورت ہوگی۔ وقتاً فوقتاً پاناما پیپرز کیس میں درخواست گزاروں اور مدعا علیہان دونوں نے عدالت کو تقریباً سیاست کی نذر کرنے اور جمہوری اداروں کی ساکھ کو متاثر کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔سپریم کورٹ نے اس سیاسی تماشے کو، جو اسے ہی نگل جانے کے قریب تھا، کے بارے میں غیر ضروری برداشت کا مظاہرہ کیا ہے، اب سیاسی جماعتوں کے پاس جمہوریت کوآگے بڑھانے اور جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لیے موقع ہے۔ عدالت نے انتہائی معقول اور ٹھوس دلائل پر مبنی فیصلہ جاری کیاہے۔ اس طرح اب یہ ساری ذمہ داری پاکستان کی سیاسی قیادت کی ہے کہ وہ جمہوری بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلے کو جمہوری نظام کی مضبوطی کے مرحلے میں ایک قدم سمجھتے ہوئے اسے تسلیم کریں۔اور آخری بات یہ کہ ملک کے سیاستدانوں کو اس فیصلے کے بعد اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ سیاسی مقابلے بازی جمہوریت کے لیے اہم ہے، مگر مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریکِ انصاف کی رسہ کشی سے ملک پیچھے ہٹتا محسوس ہوتا رہا ہے اور ملک میں 1990 کی دہائی کا منظر نامہ دکھائی دیتا رہا ہے۔اس لیے اب جمہوری قیادت کو بالغ نظری کاثبوت دینا ہوگا،جہاں تک نواز شریف کی نااہلی سے ملک کی جمہوریت کو لاحق کسی خطرے سے متعلق خدشات کاتعلق ہے تو جمہوریت کو صرف نواز شریف کے جانے سے نہ کوئی خطرہ ہوگا، اور نہ ہی یہ عمران خان کے اقتدار میں آنے سے خود بخود مضبوط ہوسکتی ہے۔جمہوریت مضبوط اسی وقت ہوسکتی ہے جب تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما فروعی اختلافات اور وقتی فائدے کو نظر انداز کرتے ہوئے جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے پر تیار ہوں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں