چائے پانی
شیئر کریں
علی عمران جونیئر
دوستو،وطن عزیز میں”چائے پانی” سے مراد رشوت یاناجائز رقم لی جاتی ہے۔ سرکاری افسران سے لے کر تھانہ کچہری تک ہر جگہ ”چائے پانی” اپنا راستہ خود بنالیتا ہے۔۔معاشی مسائل کا شکار پاکستانیوں نے گزشتہ 10 ماہ میں 54 کروڑ ڈالرمالیت کی چائے کی پتی کی درآمد پر خرچ کر ڈالے یعنی پاکستانی روپوں میں ڈیڑھ کھرب کی چائے کی پتی بیرون ملک سے منگوائی گئی۔۔ادارہ شماریات کے مطابق رواں مالی سال 10ماہ میں پاکستانیوں نے 54 کروڑ 74 لاکھ ڈالر چائے کی درآمد پر خرچ کردئیے،جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے 17 فیصد زائد ہے،گزشتہ مالی سال کے 10 ماہ میں 46 کروڑ 76 لاکھ ڈالر مالیت کی چائے درآمد ہوئی تھی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال 10 ماہ میں 15 فیصد اضافے سے 2 لاکھ 19 ہزار 66 ٹن چائے درآمد ہوئی،گزشتہ مالی سال 10 ماہ میں 1 لاکھ 90 ہزار 830 ٹن چائے درآمد کی گئی تھی،مارچ 24 کے مقابلے اپریل 24 میں چائے کی درآمد میں 10 فیصد کمی ہوئی،اپریل 24 میں 5 کروڑ 22 لاکھ ڈالر مالیت کی چائے درآمد کی گئی،مارچ 24 میں 5 کرور 85 لاکھ ڈالر مالیت کی چائے درآمد کی گئی تھی۔
چائے کے بعد اب پانی کی بات ہوجائے۔۔اسپین میں زیادہ پانی استعمال کرنے پر برطانوی شہریوں کو بھاری جرمانہ کر دیا گیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ا سپین کے جنوبی علاقے میں شدید گرمی پڑ رہی ہے اور اس پر پانی کی بھی شدید قلت ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس علاقے کی مقامی حکومت کی طرف سے ایک نیا قانون بنایا گیا ہے، جس میں ایک گھرانے کو ایک دن میں صرف200لیٹر پانی استعمال کرنے کا پابند بنایا گیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق اس قانون کے تحت جو گھرانہ ایک دن میں 200لیٹر سے زیادہ پانی استعمال کرے گا اسے 6لاکھ یورو (تقریباً 17کروڑ 92لاکھ روپے) جرمانہ کیا جا سکے گا۔اس نئے قانون کی زد میں سب سے پہلے برطانوی سیاح آئے ہیں جو اس قانون سے ناواقف تھے۔ان برطانوی سیاحوں کو مقامی حکومت کی طرف سے 5ہزار پائونڈ (تقریباً 17لاکھ 37ہزار روپے) جرمانہ کیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے علاقے میں مقیم دیگر مقامی شہریوں اور غیرملکیوں کے لیے وارننگ جاری کی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص اس قانون کی خلاف ورزی ہرگز مت کرے ورنہ اسے بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
باباجی سے جب کراچی میں سڑی ہوئی گرمی کا توڑ پوچھا تو کہنے لگے۔۔ جس طرح لوہے کو لوہاکاٹتا ہے اسی طرح گرمی کا توڑ املی آلو بخارے کا شربت، لیموں پانی، روح افزا ، جام شیریں، دودھ سوڈا، کچی لسی میں نہیں بلکہ چائے میں ہے۔۔جتنی زیادہ چائے پیو گے گرمی سے اتنا ہی بچ کے رہوگے۔۔کراچی میں لگتا ہے سورج سوانیزے پر آچکا ہے، انتہا کا گرم موسم ہے، سونے پہ سہاگا بجلی کی لوڈشیڈنگ میں بھی اچانک اضافہ کردیاگیا۔ ایسے گرم ترین موسم میںبجلی والوں کو عوام پر رحم کرنا چاہیئے لیکن نجانے کون سی چکنی مٹی کے بنے ہیں جب عوام کو
بجلی کی شدید ضرورت ہوتی ہے تو بجلی کی لوڈشیڈنگ بڑھ جاتی ہے لیکن بجلی کا بل ہر ماہ پہلے سے زیادہ آتا ہے۔ہمارے ایک صحافی دوست بتارہے تھے کہ جب وہ کراچی میں تو ایک سو بارہ یونٹ کا بل پندرہ ہزار روپے آیا، جب اسلام آباد شفٹ ہوا تو وہاں ایک سو بائیس یونٹ کا بل صرف پندرہ سو روپے تھا۔یعنی کراچی کو ہر کوئی لوٹ رہا ہے۔ سندھ کے وزرا نے تو ہاتھ کھڑے کردیئے کہ لوڈشیڈنگ کا وہ کوئی حل نہیں نکال سکتے۔ جب سندھ اسمبلی میں کے الیکٹرک کے خلاف کچھ شور مچا، حکومتی ارکان نے بھی برابھلا کہا تو کے الیکٹرک نے تڑی لگادی کہ سندھ حکومت اس کی اربوں روپے کی نادہندہ ہے۔۔
کراچی کے علاقے پی آئی بی کالونی میں گرمی کی شدت کے باعث پانچ سمیت ایک ہی گھر کے چھ افرادتاب نہ لاتے ہوئے اپنی نانی کے گھر چلے گئے، اُوتھے اے سی لگا سی۔۔تپتی دوپہر کوایک خوب صورت دوشیزہ کو قبرستان میں ایک قبر پر بیٹھا دیکھ کر پوچھا۔۔یہاں کیوں بیٹھی ہے، گھر جا۔۔وہ بولی۔۔۔اندر قبر میں گرمی بہت ہے، باہر پسینہ خشک کرنے آئی ہوں۔۔۔ میں اگر کہوں۔۔۔تم سا حسیں۔۔۔۔ کائنات میں کوئی نہیں۔۔تو پلیز مائنڈ نہ کرنا۔۔۔ گرمی میں انسان الٹی سیدھی بکواس کرہی دیتا ہے۔۔۔۔ایک خان صاحب ڈاکٹر کو بری طرح ماررہا تھا۔۔ وجہ پوچھنے پر کہنے لگا۔۔” یہ پاگل کا بچہ اتنا سڑی گرمی میں بولتا ہے۔۔ پانی ابال کر پیو۔۔۔ڈیئر دسمبر پلیز واپس آجائیں۔۔۔آپ تو صرف نہانے نہیں دیتے تھے، مئی تو سوکھنے ہی نہیں دیتا۔۔۔۔شدید گرمیوں کی تین بڑی نشانیاں ہوتی ہیں۔۔۔۔نمبرایک۔۔ پسینہ آنا۔۔نمبردو۔۔۔ بہت زیادہ گرمی لگنا۔۔۔اور نمبر تین۔۔ امی کا چلانا۔۔پاگلوں پانی پیتے ہوتو بوتلیں تمہارا باپ بھر کر فریج میں رکھے گا؟؟؟باباجی فرماتے ہیں،گرمی اور بے عزتی۔۔۔جتنی محسوس کروگے اتنی ہی لگے گی۔
ہمارے ایک دوست ہیں انتہا کے کنجوس، ایک بار غلطی سے ان کے گھر چلے گئے، ڈرائنگ روم میں بٹھا کے کہنے لگے، لسی آپ پیتے نہیں ، چائے ہم پلاتے نہیں ،روٹی کا یہ ٹائم نہیں ،بوتل کا یہ موسم نہیں بتائیں آپ کی کیا خدمت کریں ؟ ۔۔ہم نے بیچارگی سے کہا،سوروپے کا ایزی لوڈ کرادو،آپ کی مہربانی ہوگی۔۔ایک دیہاتی جب کسی فیشن ایبل ہوٹل میں گیا اور چائے پینے کی خواہش ظاہر کی، ویٹر چائے کی چھوٹی سی پیالی میں چائے لے آیا جو دیہاتی نے ایک گھونٹ میں ختم کر دی اور ویٹر سے مخاطب ہوا۔۔”بھئی! میٹھا ٹھیک ہے اب چائے لے آؤ۔”لندن میں جب ایک سردار جی کا چائے موڈ ہواتو مہنگے اور جدید ہوٹل میں چلا گیا، جس ٹیبل پہ وہ بیٹھا اس کے سامنے والی ٹیبل پر اس نے دیکھا بڑی بڑی مونچھوں اور ڈراونی شکل والا شخص اسے گھور رہا ہے،سردار جی نے دل میں سوچا کیسے کیسے بندر آ جاتے ہیں ہوٹلوں میں ،انہوں نے پانی پینے کے لیے گلاس اٹھایا اس کی طرف دیکھا تو وہ بھی گلاس اٹھا چکا تھا اب تو جیسے مقابلہ لگ گیا ہو،سردارجی جس طرح حرکت کرتا وہ شخص اس کی نقل کرتا،سردارجی کا غصے برا حال ہوگیا، اس نے گلاس اٹھایااور اس شخص پر دے مارا،پھر تو شور مچ گیا لوگ جمع ہو گئے سب لوگ سردارجی کو حیرت سے دیکھ رہے تھے،لوگوں کے ذہن میں صرف ایک ہی سوال تھا کہ، سردارجی نے شیشہ کیوں توڑا ؟ ۔۔اسی طرح ایک شوہر کو بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ رنج و الم کی کیفیت میں سامنے ٹیبل پر چائے کا کپ رکھے بیٹھا تھا، اچانک بیوی آئی اور اْس کی چائے پی گئی اور شوہر کی طرف مسکرا کر دیکھنے لگی۔شوہر نے اسے اپنے سامنے بٹھا لیا اور اپنی قسمت کوکوستے ہوئے اس سے بات چیت شروع کردی۔۔” بیگم۔ میری تو قسمت ہی خراب ہے۔ ہر قدم پر ناکامی ہی ناکامی ہے۔ دیکھو نا۔زندگی بھر کی جمع پونجی سے کاروبار کیا
وہ تباہ ہوگیا اور میں لاکھوں روپے کے قرض تلے آگیا۔گھر میں چوری ہوگئی اور رہی سہی کمر بھی ٹوٹ گئی،بیٹا نکما نکلا ہر سال فیل ہوجاتا ہے۔اب گھر میں نہ بجلی ہے نہ پانی ہے اور ان کے بل دینے کو پیسے ہیں۔نہ بچوں کو کھلانے کے لیے کچھ ہے نہ کہیں سے قرض ملتا ہے۔ الغرض جان عذاب ہوگئی تو تنگ آکر خود کشی کرنے کا سوچا تھا ،چائے میںزہر ملا کر پینے لگا تو تم آکر ساری چائے پی گئی۔۔میری تو قسمت ہی خراب ہے۔ ۔۔”
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ حرام کی کمائی شکلیں نہیں نسلیں خراب کرتی ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔