نئے سال کا بجٹ ....ای او بی آئی کے پنشنر اضافے سے بھی محروم
شیئر کریں
وزیر خزانہ کے بقول سرکاری اداروں میں لوگوں کو مزید ملازم نہیں رکھا جاسکتاکیونکہ بیشتر سرکاری اداروں میں 100-100 اسامیوں پر500-500 افراد پہلے ہی سے ملازم رکھے جاچکے ہیں
سب سے زیادہ مایوسی اولڈ ایج بینی فٹس اسکیم کے تحت پنشن حاصل کرنے والے ان معمر افراد کو ہوئی جن کو اس دور میں بھی صرف 5ہزار 250 روپے ماہانہ پنشن پر ٹرخایا جارہاہے
ایچ اے نقوی
وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے گزشتہ روز پارلیمنٹ میںاگلے مالی سال 18-2017 ءکا 47 کھرب 50 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کیا اور اس کے دوسرے دن اسلام آباد میں صحافیوں کے سامنے صفائیاں پیش کرتے ہوئے یہ یقین دہانیاں کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ حکومت بجٹ کی آڑ میں مہنگائی میں اضافہ کرنے نہیں دے گی اور ایسا کرنے کی کوشش کرنے والوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹاجائے گا۔ انہوں نے کم از کم اجرت میں مزید اضافے کے امکان کا بھی اشارہ دیاجس پر عملدرآمد کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے سرکاری اداروں میں ملازمتوں کی آس لگائے ہوئے نوجوانوں کو سرخ جھنڈی دکھاتے ہوئے کہا کہ سرکاری اداروں میں لوگوں کو مزید ملازم نہیں رکھا جاسکتا، کیونکہ بقول وزیر خزانہ، بیشتر سرکاری اداروں میں 100-100 اسامیوں پر500-500 افراد پہلے ہی سے ملازم رکھے جاچکے ہیں۔
اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کے لیے زیادہ رقم رکھی گئی ہے اور جاری اخراجات کو افراط زر سے بڑھنے نہیں دیا جائے گا۔اسحق ڈار کا کہنا تھا کہ بجٹ میں محصولات کے ہدف میں 14 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ ہمارے 18-2017 ءکے اہداف میں جی ڈی پی 6 فیصد تک لے جانا شامل ہے۔انہوں نے بتایا کہ آئندہ مالی سال میں دفاع کو دیگر شعبوں کے مقابلے میں ترجیح دی گئی ہے اور اس شعبے کے لیے 920 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔واضح رہے کہ آئندہ مالی سال 18-2017ءکے بجٹ میں حکومت نے دفاع کے لیے مختص رقم میں 7 فیصد اضافہ کیا ہے، 17-2016 ءمیں حکومت نے دفاع کے لیے 860 ارب مختص کیے تھے، تاہم یہ مختص بجٹ مکمل طور پر خرچ نہیں ہوا اور 860 ارب میں سے صرف 841 ارب روپے کا بجٹ خرچ کیا گیا۔پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران وزیر خزانہ نے بتایا کہ ہم نے عام آدمی پر براہ راست کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا، 500 ارب روپے کے ٹیکس لگانے کا تاثر غلط ہے، ہم نے 120 ارب روپے کے ٹیکس لگائے ہیں اور 33 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے۔پریس کانفرنس کے دوران اسحق ڈار نے کہا، ‘میں نے سوشل میڈیا پر پڑھا کہ دودھ کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے، حالانکہ ہم نے ایک چیز بھی نہیں بڑھائی اور نہ ہی دودھ کی قیمتوں میں اضافہ ہونا چاہیے کیونکہ ہم نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی’۔وزیرخزانہ نے دعویٰ کیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور وہ اس سے مطمئن ہیں۔گزشتہ روز بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا تھا کہ سرکاری ملازمین کے ساتھ ساتھ فوجی افسران اور جوانوں کی تنخواہوں میں اسپیشل 10 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے، جبکہ سرکاری ملازمین کی پنشن میں بھی 10 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) نے پہلی مرتبہ اپنے دورِ حکومت کا پانچواں بجٹ پیش کیا۔اس سے قبل اس بجٹ کی وفاقی کابینہ سے منظوری لی گئی تھی۔بجٹ تقریر کا آغاز کرتے ہوئے اسحق ڈار کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب وزیراعظم اور وزیر خزانہ پانچویں بار بجٹ پیش کر رہے ہیں۔‘انہوں نے دعویٰ کیا کہ، 2013 ءمیں ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، مالی خسارہ 8 فیصد سے بڑھ چکا تھا، توانائی کا بحران حد سے زیادہ تھا، جبکہ آج پاکستان کی جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 5.3 فیصد ہے ،جو پچھلے 10 سال میں ترقی کی بلند ترین شرح ہے۔‘انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ گزشتہ ادوار میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی معیشت کو غیر مستحکم قرار دیا جاچکا تھا، عالمی بینک پاکستان کے ساتھ کام کرنے سے گریزاں تھا، جبکہ ان کے دعوے کے مطابق آج پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور پاکستان 2030ءتک دنیا کی 20 بڑی اقتصادی طاقتوں میں شامل ہوجائے گا۔‘وزیر خزانہ نے بتایا کہ ’اس سال مشینری کی درآمد میں 40 فیصد سے زائد اضافہ ہوا، صنعتوں کے لیے لوڈ شیڈنگ نہیں کی جارہی، گھریلو صارفین کے لیے بھی لوڈ شیڈنگ کم ہوئی، مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2016 ءتک اصلاحاتی کام مکمل کرلیا ہے، دنیا کی بڑی ریٹنگ ایجنسیز نے پاکستان کی ریٹنگ بہتربتائی ہے، جبکہ عالمی برادری کا ہم پر معاشی اعتبار مضبوط ہوا ہے۔‘اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک بار پھر اس امید کا اظہار کیا کہ آئندہ برس ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا۔حکومتی اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے اسحق ڈار نے بتایا کہ ’حال ہی میں ہم نے اوپن گورنمنٹ پارٹنر شپ (او جی پی) پر دستخط کیے، جس کے لیے ایک خاص معیار پر پورا اترنا پڑتا ہے، جو شفافیت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔‘پاکستانی معیشت کی تیز رفتار ترقی کے ذکر پر اپوزیشن نے ’جھوٹ ہے جھوٹ ہے‘ کے نعرے لگائے اور شور شرابہ کیا۔
نئے سال کا بجٹ غالبا ً پاکستان کی تاریخ کا پہلا بجٹ ہے جس کی آمد سے قبل ہی اس کی دھوم مچنا شروع ہوگئی تھی اور عام طورپر یہ تاثر دیاجارہاتھا کہ اس دفعہ کا بجٹ اتنا عوام دوست ہوگا کہ لوگ برسوں اسے یاد رکھیں گے ، اگرچہ بجٹ کے اعلان کے بعد عوام کی تمام توقعات پر اوس پڑ گئی، سب سے زیادہ مایوسی اولڈ ایج بینی فٹس اسکیم کے تحت پنشن حاصل کرنے والے ان معمر افراد کو ہوئی جن کو اس دور میں بھی جب خود وزیر خزانہ کم از کم اجرت 15ہزار روپے کرنے اور اس پر عمل کرانے کااعلان کررہے ہیں صرف 5ہزار 250 روپے ماہانہ پنشن پر ٹرخایا جارہاہے ، لیکن بجٹ کی تیاری، اس پر نظر ثانی اور اعلان تک وزیر خزانہ کو ان غریب اور بے سہارا پنشنروں کا نہ کوئی خیال آیا اورنہ ہی انہوں نے اس پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی ۔ انہیں تو اس بات پر خوشی تھی کہ وہ وزیر اعظم سے اپنے ساتھی ارکان اسمبلی اوروزرا کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ، اور وزیر اعظم اور صدر مملکت کو اس بات کی خوشی تھی کہ بجٹ میں ایوان وزیراعظم اور ایوان صدر کے اخراجات میں مزید کروڑوں روپے کا اضافہ کردیا گیاہے، انہیں اس بات کی کیا پروا کہ اس ملک کے لاکھوں معمر افراد صرف 5ہزار 250 روپے ماہانہ پنشن پر کس طرح گزارا کریں گے ،اور کیا اس دور میں جب پانی بھی خرید کر پینے پر مجبور ہونا پڑ رہاہے ایسا ممکن بھی ہے ۔
یقیناًاس سے پہلے کبھی ایسا وفاقی بجٹ پیش نہیں کیا گیا جو حالیہ بجٹ کی طرح آس اور امیدوں پر ہی ٹکا ہو۔اپنے آخری مالی سال میں حکومت نے ہمیں ایک ایسا بجٹ دیا ہے جس میں وہ اپنا کیک کھانا بھی چاہتی ہے اور بچا کر رکھنا بھی چاہتی ہے۔ موجودہ اخراجات میں غیر یقینی حد تک اضافہ ہو چکا ہے، جبکہ ترقیاتی اخراجات اب تک کی سب سے بلند سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ریونیو کا جائزہ لیں تو اضافی ریونیو کا پورا بوجھ مقامی کاروباری مراکز پر ڈال دیا گیا، جبکہ بجٹ تقریر میں صنعت کے لیے امدادی اقدامات پر زور دیا گیا۔ ایف بی آر ریونیو میں 14 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے، جبکہ گزشتہ سالوں میں اسے پہلے ہی اپنے کم اہداف کو حاصل کرنے میں مشکل کا سامنا رہا ہے۔ دیگر محصولات میں مناسب اضافے ہوئے ہیں۔ٹھیک اسی طرح، اگلے سال کے لیے اخراجات کے ہدف میں بھی گزشتہ سال کے مقابلے 2 فیصد جتنا مناسب اضافہ ہوا، جبکہ ترقیاتی اخراجات میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔اگر موجودہ اخراجات تجویز کردہ حد تک محدود رہ سکتے ہیں، اور ایف بی آر توقعات پر پورا اتر سکا، تو بجٹ شاید نتیجہ خیز ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ اگر مگر والی بات ہے۔وزیر خزانہ اپنی حکومت کی کامیابیوں پر شیخی بگھارنے سے بھی پیچھے نہ ہٹے، اور موجودہ کارکردگی کا موازنہ ان کی حکومت سے قبل مالی سال 2012 ءاور 2013ءسے کرنے لگے۔پارلیمنٹ میں کئی شیخیوں میں سے ایک ’دور رس تعمیری اصلاحات‘ کے بارے میں تھی، خاص طور پر ٹیکس مشینری کے اندر ہونے والی اصلاحات، جس نے ٹیکس مشینری کو ’مزید منصفانہ اور مو¿ثر‘ بنایا۔ یہ بجٹ اس شیخی کو بھی ایک بہت بڑے امتحان سے گزارنے والا ہے۔سبسڈیز کی بھی اگر بات کریں تو جہاں گزشتہ سال کے اہداف میں توانائی سے متعلقہ قیمتوں پر سبسڈی سے قریب 50 فیصد اضافہ ہو گیا تھا، اس سال بھی حکومت گزشتہ سال جتنا ہی ہدف رکھنے، اور کے الیکٹرک کی ادائیگیوں کو 50 فیصد تک کمی کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یا تو صارفین کو سال کے دوران قیمتوں میں اضافے کا سامنا کرنا ہوگا یا پھر وصولیوں میں معجزانہ نتائج کے لیے کام کرنا ہوگا۔بجٹ کا کیک عوام میں بانٹنے کے لیے حکومت ’بجلی سب کے لیے‘ جیسے مبہم منصوبوں کے تحت پروگراموں کو وسیع کرنا چاہتی ہے، اسی کے ساتھ بڑے بڑے انفراسٹرکچر منصوبے بشمول سی پیک (جس کے لیے ترقیاتی پروگرام میں 180 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں) کو بھی آگے کر دیا گیا۔ جب کہ ایسے کسی بھی ریونیو اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسا کیا گیا ہے جو عوام کیلئے مایوس کن بن سکتے ہوں یا ٹیکس بیس کو وسیع کرسکتے ہوں۔ٹیکس بیس میں وسعت کی ترجیح کو تو بڑی حد تک ایک جگہ رکھ دیا گیا ہے، اور انکم ٹیکس گوشواروں کے نان فائلرز پر جرمانہ لگانے کے حوالے سے اقدامات کو غیر معمولی ریونیو اسکیموں میں شامل کر دیا گیا ہے۔یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہوگا کہ کس طرح حکومت کَسی ہوئی رسی پر چلتی ہے جو اس نے اگلے سال کیلئے خود باندھی ہے۔ یہ حکومت اپوزیشن سے معاہدوں کے حوالے سے کچھ خاص شہرت بھی نہیں رکھتی، نہ ہی ریاستی خزانے کو لاحق مسائل حل کرنے کے لے جدید طریقوں کے استعمال کے لیے مشہور ہے۔ مگر اس بجٹ کے اہداف ان کے ہاتھوں میں موجود ہتھیار کے توازن کا امتحان لیں گے۔اس بات کیلئے تیار رہنا چاہیے کہ ضرورت کے تحت ایڈ ہاک بنیادوں پر کئی خرابیاں ٹھیک کی جاتی رہیں گی۔