وزیر اعلیٰ پنجاب نئے کالجوں کے قیام سے گریزاں کیوں؟
شیئر کریں
لاہور قیام پاکستان سے قبل ہی علم وادب کامرکز ومحور تصور کیاجاتاتھا اور پنجاب کے دور دراز علاقوں کے لوگ بھی معیاری تعلیم حاصل کرنے کیلئے لاہور کارخ کیاکرتے تھے
پنجاب میں نجی اسکول اور کالج چلانے والے کئی اداروں میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز اور ان کے بھانجوں، بھانجیوں اور کئی دوسرے قریبی رشتہ داروں کے شیئرز ہیں اور انہیں ا س کے عوض کچھ کیے بغیر ہر مہینے لاکھوں روپے منافع کے طورپر ادا کیے جاتے ہیں
شہلا حیات نقوی
پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کے برادر خورد بلکہ ٹیلنٹیڈ برادر نے پنجاب میں تعلیم عام کرنے کے عزم کااظہار کرتے ہوئے پڑھا لکھا پاکستان کا نعرہ بلند کیا تھا جس پر پاکستان کے دیگر تمام صوبوں کے عوام نے پنجاب کے عوام کی قسمت پر رشک کا اظہار کیا تھا اور یہ تصور کیاجارہاتھا کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف اپنی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر پورے پنجاب میں اسکولوں اور کالجوں کاجال بچھا دیں گے اور اب پنجاب کے کسی گاﺅں گوٹھ کے کسی غریب کا بچہ بھی تعلیم سے محروم نہیں رہے گا۔
جہاں تک پنجاب کے دارالحکومت لاہور کا تعلق ہے تو لاہور نہ صرف پاکستان کا اہم تجارتی اور ثقافتی مرکز ہے بلکہ اسے ملکی سیاست میں بھی اہم مقام حاصل ہے۔ لاہور کو کئی حوالوں سے یاد کیا جاتا ہے، جیسے باغوں کا شہر، زندہ دلوں کا شہر، اسی طرح لاہور کو کالجوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے،یہ شہر قیام پاکستان سے قبل ہی علم وادب کامرکز ومحور تصور کیاجاتاتھا اور پنجاب کے دور دراز علاقوں کے لوگ بھی معیاری تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور کارخ کیاکرتے تھے ،کیوں کہ لاہور میں کسی زمانے میں بیشمار کالج موجود تھے جو لاہور کے ساتھ ساتھ دیگر اضلاع کے تشنگانِ علم کی پیاس بجھایا کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ لاہور کو پنجاب میں کالجوں کے شہر کالقب مل گیاتھا۔لاہور میں بڑھتی آبادی اور تیزی سے ہونے والی نقل مکانی نے جہاں بے شمار چیزوں کا فقدان پیدا کیا وہاں سرکاری کالجوں کی کمی کا مسئلہ بھی پیدا ہوا۔ لاہور میں اس وقت 56 کے قریب سرکاری کالج موجود ہیں جس میں 34 لڑکیوں کے اور 22 لڑکوں کے کالجز ہیں۔ان تمام کالجوں میں طلبہ کی کل گنجائش 49 ہزار ہے۔ جبکہ صرف لاہور بورڈ سے ہر سال ایک لاکھ40 ہزار سے زائد طالب علم پاس ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال 2016 ءکے میٹرک کے نتائج کے مطابق لاہور بورڈ کے زیر اہتمام امتحان میں 2 لاکھ 14 ہزار 711 طلبہ نے شرکت کی تھی، اور تقریباً 71 فی صد نے کامیابی حاصل کی۔ یعنی ایک لاکھ 53 ہزار کے قریب طالب علم پاس ہوئے۔یعنی صرف لاہور بورڈ کے تقریباً ایک لاکھ سے زائد پاس ہونے والے طالب علموں کے لیے کسی سرکاری کالج میں کوئی گنجائش نہیں۔ اب وہ یا تو کسی نجی کالج میں داخلہ لے، یا اگر غریب ہے اور نجی تعلیم کا خرچ نہیں اٹھا سکتا تو اپنی تعلیم کو خیرباد کہہ دے۔خیال رہے کہ لاہور کے کالجوں میں صرف لاہور بورڈ کے کامیاب طلبہ و طالبات ہی داخلہ نہیں لیتے، بلکہ پنجاب کے دیگر شہروں کے ساتھ ساتھ، فاٹا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کی بڑی تعداد بھی لاہور کے کالجوں میں زیر تعلیم ہے۔طالب علموں کی اتنی بڑی تعداد (ایک سے ڈیڑھ لاکھ) کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پرائیویٹ شعبے میں 120 سے زائد کالجز قائم ہیں جو تجارتی بنیادوں پر کام کرتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے لاہور میں نئے کالجزکیو ں قائم نہیں کئے؟
لاہور میں 1982ءسے مسلم لیگ کی حکومت قائم ہے۔ اگرچہ لاہور میں ترقیاتی کام ہوا ہے، ٹریفک کے مسائل کو کم کرنے کے لیے کئی سڑکوں کو کشادہ کیا گیا، کئی انڈر پاس اور اوور ہیڈ بِرج تعمیر کیے گئے۔اب کئی سو ارب روپے کی لاگت سے اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، لیکن پتہ نہیں اس بات کی اصل وجہ کیا ہے کہ کیوں لاہور میں (ضرورت کے مطابق) سرکاری کالجوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا، کچھ لوگوں کی رائے میں اس کی اصل وجہ صوبائی حکومت کی عدم توجہی ہے، جس کی وجہ سے شعبہ تعلیم کو مطلوب وسائل ہی فراہم نہیں کیے جاتے؟
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کئی بار خود اعلان کیا ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کی ترقی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے گزشتہ الیکشن سے قبل ذہین طالب علموں میں کئی ارب روپے کے لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ وغیرہ مفت تقسیم کیے، نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان کے پوزیشن ہولڈرز طلبہ و طالبات کو دنیا کے کئی ممالک کی سیر کروائی۔ لیکن بنیادی سطح پر جو کام ہونا چاہیے، وہ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نجی کالجوں کی انتظامیہ کافی بااثر ہے اور وہ صوبائی حکومت کے اہم افراد کو نئے کالج قائم کرنے سے روک دیتی ہے تاکہ ان کا کاروبار پھلتاپھولتا اور قائم و دائم رہے۔ جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نجی کالجوں کی انتظامیہ کے بااثر ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں نجی اسکول اور کالج چلانے والے کئی اداروں میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز اور ان کے بھانجوں، بھانجیوں اور کئی دوسرے قریبی رشتہ داروں کی شیئرز ہیں اور انہیں ا س کے عوض کچھ کیے بغیر ہر مہینے لاکھوں روپے منافع کے طورپر ادا کیے جاتے ہیں ۔ لاہور کے لوگوں کاکہناہے کہ جس طرح عام آدمی دودھ، اور پولٹری کے کام میں شہباز شریف اور نواز شریف کے مفادات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح انہیں تعلیم کو تجارت بنانے کے حوالے سے شریف برداران کے کارناموں کا بھی کوئی علم نہیں ہے۔لاہور کے باوثوق اطلاعات رکھنے والے حلقوں کاکہناہے کہ تعلیمی شعبے کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی بنانے والی شریف فیملی اب نئے لوگوں کو اس شعبے میں قدم جمانے کا موقع نہیں دے رہی ہے اور اس شعبے پر شریف برادران کی اسی گرفت اور اس سے وابستہ ان کے مفادات کی وجہ ہی سے پنجاب میں تعلیم کاکاروبار کرنے والے نجی شعبے کی نگرانی کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی کوئی قاعدہ اور قانون اور اگر ایسا ہے بھی تو وہ یقیناً فائلوں کی حد تک ہی محدود ہے کیونکہ آج تک کسی نے ان پر نہ تو عملدرآمد ہوتے دیکھا ہے اورنہ کسی کو اس پر عملدرآمد کراتے ہوئے دیکھا ہے۔
لاہور شہر میں جو نجی کالج ہیں وہ ہر چیز سے آزاد ہیں، فیسوں کا تعین ہو، اساتدہ کی بھرتی، کالج بلڈنگ کے بائی لاز، ہوسٹلز، لائبریری، تجربہ گاہ، پارکنگ، یا پھر کھیلوں کے میدان، ہر جگہ وہ صرف اپنے مفادات کا خیال پہلے رکھتے ہیں۔ فیسوں، یونیفارم، کتابوں، امدادی کتب کے علاوہ ہر ماہ کوئی نہ کوئی نیا خرچہ تیار کر لیا جاتا ہے کیونکہ ان کی مانیٹرنگ (نگرانی) کے لیے کوئی ادارہ یا تو قائم ہی نہیں یا پھر اپنا کام نہیں کر رہا ہے۔
نجی کالجوں کی فیس اور اس کے عوض طلبہ کو فراہم کی جانے والی سہولتیں
لاہور میں قائم نجی تعلیمی کالجوں کی سالانہ فیس اور دیگر اخراجات ایک لاکھ سے تین لاکھ روپے تک ہےں۔ اس طرح والدین کے ایک بچے کی دو سالہ تعلیم پر 2 سے 6 لاکھ تک خرچ ہو جاتے ہیں۔ لاہور میں نجی کالجوں کی اکثریت نے اپنے طالب علموں کے لیے کوئی ہاسٹل قائم نہیں کیے۔ جس کی وجہ سے دوسرے شہروں کے طلبہ وطالبات شہر میں قائم چھوٹے چھوٹے ہاسٹلز (جو عموماً پانچ /دس مرلہ) کے پرانے رہائشی مکان ہیں میں رہتے ہیں۔کالجوںمیں پڑھانے والے اساتدہ کا کوئی خاص معیار نہیں، اگر ایف اے /بی اے پاس صاحب کو کالج انتظامیہ ایم ایس سی/ایم فل قرار دے تو آپ کو یقین کرنا ہوگا۔
کھیل کے میدان کا بیشتر نجی کالجوں میں کوئی تصور نہیں، زیادہ تر کالجوںکے پاس صرف اپنی عمارت کا صحن ہے جو پانچ دس مرلے پر مشتمل ہوتا ہے۔ (شاید کالج انتظامیہ یہ سوچتی ہے کہ آپ کے بچے اتنے پیسے خرچ کر کے کالج پڑھنے آتے ہیں نہ کہ کھیلنے کے لیے لائبریری اور سائنس کے مضامین کے لیے تجربہ گاہ تو ہوتی ہے، لیکن صرف نام کی کیونکہ جناب کورس کی کتابیں تو مکمل ہوتی نہیں کون مزید کتابوں اور پریکٹیکل کے چکر میں پڑے۔بعض کالجوں کی انتظامیہ بورڈ کے عملی امتحانات کے لیے خاص اہتمام کرتی ہے۔ جس کے لیے طالب علموں کو مزید کچھ رقم خرچ کرنا ہوتی ہے۔ آخر اچھے گریڈز بھی تو لینے ہیں نا!
نجی کالجوں میں مستقل فیکلٹی کا فقدان
نجی کالجوں میں عام طورپرکوئی بھی استاد مستقل نہیں ہوتا بلکہ بعض کالجوں میں تو ماہانہ کی بجائے اساتدہ کو فی پیریڈ پڑھانے کے حساب سے معاوضہ دیا جاتا ہے۔ کئی نجی کالجوں میں سابقہ طلبہ اور غیر تجربہ کار افراد کو بطور اساتذہ بھرتی کر لیا جاتا ہے۔ٹیچرز ٹریننگ کا سرے سے کوئی نظام موجود نہیں، اساتذہ کی تنخواہیں کم ہوتی ہیں۔ نیز چھٹیوں کے دوران اساتذہ کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ جب کہ طلبہ سے بھاری فیسیں وصول کی جاتی ہیں۔ چونکہ اساتذہ کی معاشی حالت بہت خراب ہوتی ہے، اس لیے وہ بھی عدم دلچسپی سے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔
اگر حکومت کے پاس فنڈز کی کمی ہے تو، یقیناً نئے کالج قائم کرنے کے لیے بھی کافی وسائل کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں وزیر تعلیم ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی ہدایت پر ملک بھر میں بے شمار ایسے اسکول جن میں مطلوبہ سہولتیںمیسر تھیں، ان اسکولوںکو ہائیر سکینڈری اسکولوں کا درجہ دیا گیا تھا، جس سے اس علاقے کے طلبہ و طالبات اپنے اسکول سے ہی 12 سالہ تعلیم (ایف اے، ایف ایس سی) مکمل کرتے تھے، لیکن موجودہ حکومت نے ان ہائیر سیکنڈری اسکولوں کواپنے مفادات کے منافی تصور کرتے ہوئے انتہائی غیر محسوس انداز میں کوئی وجہ بتائے بغیر لاہور میں ان تمام ہائیر سکینڈری اسکولوں کو آہستہ آہستہ بند کر دیا۔ حالانکہ وزیر اعلیٰ پنجاب اگر واقعی پنجاب میں تعلیم عام کرنے اور غریبوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں مخلص ہوتے تو وہ پنجاب میں موجود ان ہائیر سیکنڈری اسکولوں کو بند نہ ہونے دیتے۔ اگر ان میں کچھ خامیاں تھیں تو انہیں دور کرنے کی کوشش کرتے اور اگر تعلیمی وسائل موجود نہیں تھے تو موجودہ وسائل کو لیپ ٹاپ تقسیم کر کے تصاویر شائع کرانے کے بجائے کالج میں داخلہ لینے کے خواہشمند مستحق طالب علموں کے اچھے نجی کالج داخلہ کے اخراجات پر خرچ کرتے۔ پنجاب میں تعلیم کے کاروبار سے موجودہ حکومت کی گہری وابستگی کا پتہ اس بات سے بھی چلتاہے کہ صوبائی حکومت ایسے کالج بھی نہ تو قائم کرتی ہے اور نہ ان کے قیام کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جو نفع، نقصان کے بغیر چلائے جائیں، یعنی طالب علموں سے صرف اتنی ہی فیس لی جائے جس سے عمارت کا کرایہ، اسٹاف کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات پورے ہوسکیں، یہ فیس پھر بھی نجی کالجوںکی فیس سے کم ہوگی۔ اس طرح کم آمدنی اور متوسط طبقے کے بہت سے بچے اور بچیاں معیاری تعلیم حاصل کر پائیں گے اور تعلیم حاصل کرنا ان کی ناتمام حسرت اور خواہش نہیں بن کر رہ جائے گی۔ لیکن اس طرح کے کالجوں کے قیام سے نجی کالجوں کاکاروبار بری طرح متاثر ہونے کے اندیشے کے تحت ایسا نہیں کیاگیا اور اس کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کا رویہ اختیار کیاجارہاہے۔یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ موجود صوبائی حکومت کے پاس نئے کالج قائم کرنے کے لیے وسائل نہیں لیکن یہ بات قابل قبول نہیں کہ موجود تعلیمی وسائل کو مستحق طلبہ پر خرچ کرنے کے بجائے ’لیپ ٹاپ اسکیم یا پوزیشن ہولڈز کو بیرون ممالک کی سیر‘ پر ضائع کر دیا جائے۔شاید اس سے بڑا ظلم لاہور کے شہریوں کے ساتھ اور کوئی نہیں۔