میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیراعلیٰ سندھ نے قانون کی دھجیاں اڑادیں، قائم علی شاہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا

وزیراعلیٰ سندھ نے قانون کی دھجیاں اڑادیں، قائم علی شاہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا

ویب ڈیسک
پیر, ۲۹ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

قائم علی شاہ کا نام سرکاری قانون کی دھجیاں اڑانے والے کے طور پر لیا جائے گا۔ انہوں نے 2008 ءسے 2016 ءتک مکمل تابعداری کے ساتھ وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا اور ہر جائز نا جائز حکم کی بجا آوری کی
اویس مظفر ٹپی کو11سال تک بیرون ملک ہونے کے باوجود نہ صرف گریڈ 17 پر بطور اسسٹنٹ کمشنر بحال کیا بلکہ ان کو گریڈ 18 میں ترقی دے کر پھر ریٹائرڈ بھی کر دیااور 15 سال کے مالی فوائد اور پنشن سے بھی نوازا
الیاس احمد
2008 ءسے 2016 ءتک جب قائم علی شاہ نے آٹھ سال یکمشت اور مجموعی طو رپر دس سال تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر برقرار رہنے کا اعزاز حاصل کیا تو اس وقت دنیا نے ان کی حکمرانی کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی، بس وہ پہلے دور میں 1988ءمیں امن امان قائم نہ کرسکے اور 2008 ءمیں بھی کرپشن اور بدترین حکمرانی کی مثال قائم کی اور 2013 ءسے 2016ءکے وسط تک بھی اسی ڈگر پر چلتے رہے۔ قائم علی شاہ کے دور میں یہاں تک ہوتا رہا کہ سرکاری اجلاس کی صدارت کے لیے دو کرسیاں رکھی جاتی تھیں ایک قائم علی شاہ کے لیے تو دوسری فریال تالپر کے لیے ہوتی تھی، بلکہ یہاں تک کہ سرکاری اعلامیہ جاری کیا جاتا تھا تو اس میں بھی یہی لکھا جاتا تھا کہ قائم علی شاہ اور فریال تالپر کی مشترکہ صدارت میں اجلاس منعقد ہوا۔ یہ اجلاس قانونی لحاظ سے غلط اور خلاف ضابطہ تھے اگر کوئی بھی شہری عدالت میں چلا جائے تو عدالتیں ایسے اجلاسوں کو غیر قانونی قرار دیں گی۔ کیونکہ جب کوئی بھی شخص وزیراعلیٰ، وزیراعظم، گورنر یا وزیر بنتا ہے تو اس کے حلف میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ وہ سرکاری راز کسی کے بھی سامنے افشا نہیں کریں گے اور راز کو راز ہی رہنے دیں گے۔ لیکن یہ کیسی راز داری تھی جب غیر سرکاری شخصیت اہم ترین اجلاسوں میں بیٹھ جاتی تھیں۔ قائم علی شاہ کے دور کی بے قاعدگیاں تو طویل ہیں لیکن انہوں نے سب سے پہلے آصف زرداری کے قریبی ساتھی اور منہ بولے اویس مظفر ٹپی کو 1996ءسے لے کر 2007 ءتک بیرون ملک ہونے کے باوجود نہ صرف گریڈ 17 پر بطور اسسٹنٹ کمشنر بحال کیا بلکہ ان کو گریڈ 18 میں ترقی دے کر پھر ریٹائرڈ بھی کر دیا۔ یوں اویس مظفر ٹپی نے 15 سال سروس دکھا کر ریٹائرمنٹ کے مالی فوائد اور پنشن بھی حاصل کر لی اور قائم علی شاہ نے دوسری بے قاعدگی یہ کی کہ سابق وزیراعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ کے داماد اور موجودہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے بہنوئی اعجاز شاہ کو بھی اسی طرح 1996 ءسے 2007ءتک بیرون ملک ہونے کے باوجود بحال کر دیا۔ اور ان کو بھی غیر حاضری کی مدت کی سروس بحال کرتے ہوئے گریڈ 18 میں ترقی دے دی اور وہ آج کل ضلع گھوٹکی کے ڈپٹی کمشنر کے طور پر کام کر رہے ہیں ،قائم علی شاہ نے اس وقت کی رکن سندھ اسمبلی شمع مٹھیانی کے شوہر کو بھی 25 سال قبل ڈرگ انسپکٹر کے طور پر چند ماہ کی نوکری کو ریگولر کرتے ہوئے 25 سال کی سروس شمار کی۔ پورے مالی فائدے بھی دیے اور پھر ان کو ریٹائرڈ کر دیا۔ یوں قائم علی شاہ کا نام سرکاری قانون کی دھجیاں اڑانے والے کے طور پر لیا جائے گا۔ انہوں نے 2008 ءسے 2016 ءتک مکمل تابعداری کے ساتھ وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا۔ اور ہر جائز نا جائز حکم کی بجا آوری کی۔ قائم علی شاہ سے دبئی میں استعفیٰ لیا گیا اور مراد علی شاہ نئے وزیراعلیٰ بنے۔ پہلے تو مراد علی شاہ انیل کپور کی فلم کی طرح بڑے پر جوش وزیراعلیٰ کے طور پر سامنے آئے لیکن آصف زرداری اور فریال تالپر نے ان کے پرکاٹ دیے تاکہ وہ زیادہ نہ اڑسکیں۔ پھر مراد علی شاہ بھی آہستہ آہستہ ٹھنڈے پڑ گئے یہاں تک کہ ان کے آبائی حلقہ سیہون میں قلندر شہباز کے مزار پر خود کش حملہ ہوا لیکن وہ سیہون جانے کے بجائے پوری رات آصف زرداری کو راضی رکھتے رہے کہ براہ مہربانی انہیں وزارت اعلیٰ کے عہدے پر برقرار رکھیں، پھر جاکر ان کی نوکری بچی۔ اب قائم علی شاہ نے مراد علی شاہ سے رابطہ کرکے کہا کہ میں نے تو اپنے دور میں آپ کے بہنوئی کو خلاف ضابطہ بحال کیا، سروس شمار کی۔ اب میری بیٹی ڈاکٹر نصرت شاہ کو ڈاﺅ یونیورسٹی کراچی میں پروفیسر اور جناح اسپتال کراچی میں گائنی وارڈ کا انچارج بنا دیں، پھر کیا ہوا، مراد علی شاہ کی دوڑیں لگ گئیں۔ انہوں نے فوری طور پر ڈاکٹر نصرت شاہ کا پہلے ڈیپوٹیشن پر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں تبادلہ کیا ،پھر اسی ڈیپوٹیشن سے دوسری ڈیپوٹیشن پر انہیں جناح اسپتال کے گائنی وارڈ میں انچارج بنایا جس پر جناح اسپتال کی گائنی وارڈ کی چار پروفیسرز نے فوری طور پر استعفیٰ دے دیا اور قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دی، اس بات نے وزیراعلیٰ سندھ پر کوئی اثر نہیں کیا ،کیونکہ وہ تو سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کا احسان اتارنا تھا اس لیے انہوں نے قانون کی دھجیاں اڑا دیں حالانکہ سپریم کورٹ نے ایک نہیں تین بار تحریری حکم دیا ہے اور پھر تین بار حکومت سندھ سے تحریری ضمانت بھی لی ہے کہ اب ڈیپوٹیشن ختم ہوگئی ہے لیکن وزیراعلیٰ سندھ نے ”یک نہ شد دو شد“کی طرح ایک نہیں دو مرتبہ ڈیپوٹیشن دے دیا اور سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی بیٹی ڈاکٹر نصرت شاہ کو ایک مرتبہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں تو دوسری مرتبہ جناح اسپتال میں ڈیپوٹیشن پر مقرر کیا۔ جناح اسپتال کی انتظامیہ نے اس پر سخت احتجاج بھی کیا ہے لیکن ہے لیکن مراد علی شاہ کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو اور سیکریٹری صحت ڈاکٹر فضل اللہ پیچوہو بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ کسی بھی طرح ڈاکٹر نصرت شاہ دو جگہ ڈیپوٹیشن پر ملازمت برقرار رکھے، تاکہ قائم علی شاہ کو راضی رکھا جاسکے ،دوسری جانب وزیراعلیٰ ہاﺅس نے بھی جناح اسپتال کی انتظامیہ سے خفیہ رابطہ کیا ہے کہ ان کے جتنے بھی مالی مطالبات ہیں وہ جلد مان لیے جائیں گے ان کو کوئی پریشانی نہیں دی جائے گی صرف ڈاکٹر نصرت شاہ کو نہ چھیڑا جائے اور انہیں ہر سہولت دی جائے جس پر جناح اسپتال کی انتظامیہ نہیں مان رہی ہے کیونکہ چار سینئر پروفیسر اگر آج ملازمت چھوڑ رہے ہیں تو ان کی خاطر دوسرے پروفیسر بھی ملازمت چھوڑ سکتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں